عمران خان ندوی ازہری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عمران خان ندوی ازہری (1331-1407ھ / 1913-1986ء) ہندوستان کے مشہور مدرسہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فاضل اور اس کے سابق مہتمم تھے۔ علاوہ ازیں وہ مدرسہ تاج المساجد کے بانی اور ناظم بھی تھے۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

مولانا عمران خان ندوی ازہری کے آبا و اجداد، نادر شاہ کے حملۂ ہندوستان 1739ء کے ساتھ افغانستان سے بھارت آئے اور دہلی میں آباد ہوئے۔ پھر نواب "سکندر جہاں بیگم" (1844ء - 1860ء) کے دور میں ریاست بھوپال کا قصد کیا اور وہاں سکونت اختیار کر لی۔[1] ان کا خاندان بادشاہوں اور نوابوں کے یہاں بڑا محترم اور علمی خاندان تصور کیا جاتا تھا، خاندان کے بہت سے افراد اپنے اپنے زمانے میں شاہی معلم، مفتی ریاست اور قاضی حکومت رہے ہیں۔

ان کے دادا مفتی ابو الشمس عبد الہادی خان (1870ء - 1928ء) صاحب جید حافظ اور شرعی عالم تھے، تا حیات ریاست بھوپال کے مفتی اور بعدہ قاضی رہے۔ علم تجوید میں بہت ماہر تھے، ان کے زمانے میں ہندوستان کے مشہور قرا میں شمار ہوتا تھا۔

عمران خان ندوی کے والد حافظ محمد الیاس خان (1876ء - 1941ء) بھی ریاست بھوپال کے ایک محترم دینی شخصیت کے مالک تھے، نواب سلطان جہاں بیگم (1901ء - 1926) کے عہد میں مساجد، وظائف اور مناصب تین محکموں کے مہتمم تھے، محکمۂ مساجد کا کام للہ فی اللہ کرتے تھے۔ طبعاً بہت نفاست پسند تھے، بچوں کی تربیت وتہذیب کا خاص ملکہ تھا۔ لکھنؤ میں علاج کے دوران 2دسمبر 1941ء کو 65 سال کی عمر میں انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔[2]

ابتدائی زندگی[ترمیم]

مولانا عمران خان ندوی ازہری کی تاریخِ پیدائش 13 اگست 1913ء مطابق 1331ھ ہے۔ والد ماجد حافظ محمد الیاس خان تھے اور والدہ محترمہ کا نام فاطمہ بی بنت عبد العلیم تھا۔ نوعمری ہی میں اپنے والد محترم اور حافظ زماں خان کی نگرانی میں قرآن مجید کا حفظ مکمل کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ گھر پر معمول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، فارسی زبان مولوی محمد احمد خان سے سیکھی، انھوں نے گلستان و بوستاں پڑھائی۔ پھر "جہانگیریہ اسکول" میں داخل کیے گئے، وہاں سے فارغ ہو کر "الیگزینڈرا ہائی اسکول" پہنچے۔ وہاں ابھی نویں جماعت میں تھے کہ ان کے دادا "مفتی عبد الہادی خان" کی خواہش اور والد "حافظ محمد الیاس خان" کی مرضی پر ان کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اس وقت کے عربی مدارس میں سے لکھنؤ کے دار العلوم ندوۃ العلماء کا انتخاب کیا گیا۔[3]

دینی تعلیم[ترمیم]

یکم جون 1926ء کو دار العلوم ندوۃ العلماء کے درجہ اول میں داخلہ ہوا، اپنی محنت و صلاحیت، تہذیب و شائستگی اور حسن اخلاق کی وجہ سے طلبہ و اساتذہ اور منتظمین میں نیک نام اور ہردلعزیز تھے۔

تدریس و اہتمام[ترمیم]

دار العلوم ندوۃ العلماء سے فضلیت سے فراغت کے بعد 6 نومبر 1933ء کو دار العلوم میں بحیثیت استاذ تفسیر وحدیث کے تقرر ہوا، ساتھ ہی ساتھ انتظامی صلاحیت کی وجہ سے دفتر کا ضمنی اہتمام (انصرام وانتظام) بھی انھیں کے سپرد کر دیا گیا۔[5]

اسی دوران انھوں نے "جنرل عبید اللہ خان اسکالر شپ ٹرسٹ" میں مقابلہ میں شریک ہو کر جامعہ ازہر، مصر میں دو سال تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل کیا، 6 اکتوبر 1937ء کو بھارت سے مصر کے لیے روانہ ہو گئے، وہاں بھی امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے حج کی سعادت حاصل ہوئی اور مصری اخبارات میں ان کی نمایاں کامیابی کی خبر شائع ہوئی۔ ہندوستان واپسی پر ہر جگہ ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اس کے بعد سابق کی طرح ادارہ اپنے مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء سے منسلک ہو گئے، اس وقت کے معتمد تعلیم سید سلیمان ندوی نے انھیں ستر روپیہ مشاہرہ پر "مدرس علوم القرآن والحدیث" اور "نائب مہتمم دار العلوم ندوہ" مقرر کیا۔ یکم فروری 1941ء کو انھیں قائم مقام مہتمم بنایا گیا، پھر 26 جنوری 1942ء کے جلسہ انتظامیہ کے فیصلہ کے مطابق انھیں مہتمم مقرر کر دیا گیا۔[6]

پھر کچھ ایسے ناموافق حالات اور رویوں کا شکار ہوئے کہ انھوں نے منصب اہتمام سے استعفیٰ دینے کا ارادہ کر لیا، لیکن سید سلیمان ندوی جو اس وقت ریاست بھوپال میں بطور قاضی مقیم تھے ان کی کوششوں اور دوسرے حضرات کی مفاہمت اور مصالحت کے بعد "جزوی اہتمام" پر راضی ہو گئے۔[7]

لیکن پھر جب حالات ناقابل برداشت ہو گئے تو 20 مئی 1957 کو اس جزوی اہتمام سے مستعفی ہو گئے اور اسی طرح رخصت و اجازت چلتی رہی کہ 1960ء میں مکمل طور پر استعفی دیکر ندوۃ العلماء سے رخصت ہو گئے۔[8] [9]

اس کے اپنے وطن بھوپال میں اقامت اختیار کر لی، وہاں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں سے منسلک ہو گئے، اس کی اجتماعات بڑے اہتمام کے ساتھ کراتے تھے۔

11 فروری 1958ء سے تاج المساجد، بھوپال کی طرف متوجہ ہوئے، مدھیہ پردیش حکومت سے منظوری کے بعد اس کی ادھوری تعمیرات کو مکمل کرایا۔ وہاں تعلیم و تدریس کے لیے دار العلوم بھی قائم فرمایا، بعد میں جس کا الحاق دار العلوم ندوۃ العلماء سے ہو گیا۔ اخیر عمر تک وہیں رہے اور 18 اکتوبر 1986ء مطابق 13 صفر 1407ھ میں انتقال ہوا۔[10]

گھریلو زندگی[ترمیم]

عمران خان ندوی ازہری کا نکاح 2 جنوری 1928ء کو ان کے چچا کی لڑکی"آمنہ بنت محمد ادریس خان" (1913ء - 1994ء) سے ہوا، 14 دسمبر 1933ء کو رخصتی ہوئی۔

اولاد:

  • حبیب ریحان خان (13 اگست 1936ء - 8 اگست 2009ء)
  • محمد رضوان خان (3 اگست 1944ء - 18 جون 1994ء)
  • صالحہ سلطان (پیدائش: 12 جنوری 1948ء)
  • محمد صفوان خان (7 اکتوبر 1947ء - 29 اکتوبر 2015ء)
  • محمد حسان خان (پیدائش: 14 مارچ 1952ء)

کتابیں[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کتاب؛ تاریخ قضاۃ ومفتیان بھوپال، مطبع؛ بھوپال بک ہاؤس، سنہ اشاعت؛ 1986ء، صفحہ؛ 92-93۔
  2. کتاب؛ مولانا عمران خان ندوی ازہری، نقوش و تاثرات، مؤلف؛ مسعود الرحمن خان ندوی ازہری، سنہ اشاعت 2016ء صفحہ؛ 11-16-17.
  3. مولانا عمران خان ندوی ازہری، نقوش و تاثرات، صفحہ؛ 21۔
  4. مولانا عمران خان ندوی ازہری، نقوش و تاثرات، صفحہ؛ 21۔
  5. کتاب؛پرانے چراغ، از: ابو الحسن علی ندوی، جلد 3، صفحہ 215۔
  6. مولانا عمران خان ندوی ازہری، نقوش و تاثرات، صفحہ؛ 21۔
  7. حیات عمران، 130/1۔
  8. مولانا عمران خان ندوی ازہری، نقوش و تاثرات، صفحہ؛ 23-24-25۔
  9. پرانے چراغ، 220/3۔
  10. مولانا عمران خان ندوی ازہری، نقوش و تاثرات، صفحہ؛ 27-28-29۔