ریاست بھوپال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بھوپال
Bhopal
بھوپال
Bhopal
1723[1]–1949
پرچم Bhopal
شعار: 
ریاست بھوپال (1949–56)
ریاست بھوپال (1949–56)
حیثیتہندوستان کی نوابی ریاست (1818–1949)
دارالحکومتبھوپال
اسلام نگر (ایک مختصر مدت کے لیے)
عمومی زبانیںفارسی (سرکاری), ہندوستانی
مذہب
اسلام اور ہندو مت
حکومتبادشاہت
نواب بھوپال 
• 1723–1728
دوست محمد خان (اول)
• 1926–1949
حمید اللہ خان (آخر)
تاریخ 
• 
1723[1]
• 
1 جون 1949
ماقبل
مابعد
مغلیہ سلطنت
ڈومنین بھارت

ریاست بھوپال (Bhopal State) اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔ جبکہ 1818ء سے 1947ء تک برطانوی ہندوستان میں ایک نوابی ریاست تھی اور 1947ء سے 1949ء تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی۔ اس کا پہلا دار الحکومت اسلام نگر تھا جو بعد میں بھوپال منتقل کر دیا گیا۔

ریاست دوست محمد خان نے قائم کی جو مغل فوج میں ایک افغان سپاہی تھے۔ جو شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد ایک باغی ہو گئے اور کئی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر لی۔ ریاست بھوپال تقسیم ہند کے وقت دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، جبکہ پہلی ریاست حیدرآباد تھی۔ 1949ء میں ریاست کو ڈومنین بھارت میں ضم کر دیا گیا۔جو پرچم نواب اپنی ریاست میں استعمال کرتا تھا آج ان کی قوم نورزئی اسے اپنی قومی پرچم کھتےهے

فہرست بھوپال کے حکمران[ترمیم]

  • نواب دوست محمد خان (1723-1728)
  • نواب یار محمد خان (1728-1742)
  • نواب فیض محمد خان (1742-1777)
  • نواب حیات محمد خان (1777-1807)
  • نواب غوث محمد خان (1807-1826)
  • نواب وزیر محمد خان (غوث محمد خان کی مخالفت میں) - (1807-1816)
  • نواب نذر محمد خان (وزیر محمد خان کے بیٹے) - (1816-1819)
  • نواب سلطان قدسیہ بیگم (غوث محمد کی بیٹی اور نذر محمد خان کی بیوی) - (1819-1837)
  • نواب جہانگیر محمد خان (سکندر جہاں بیگم کے شوہر) - (1837-1844)
  • نواب سکندر جہاں بیگم (1860-1868)
  • نواب سلطان شاہجہاں بیگم (1844-1860 اور 1868-1901)
  • کاخورو جہان، بیگم بھوپال (1901-1926)
  • نواب حمید اللہ خان (1926-1949)

ہندوستان کی ازادی کے بعد[ترمیم]

بھارت کے 15 اگست 1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد، بھوپال الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے والی آخری ریاستوں میں سے ایک تھی۔ آخری نواب حمید اللہ خان نے مارچ 1948 میں ریاست بھوپال کو ایک علاحدہ اکائی کے طور پر برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نواب کے خلاف احتجای تحریک دسمبر 1948ء میں ہوئی اور شنکر دیال شرما سمیت اہم رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ بعد ازاں سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا اور نواب بھوپال نے 30 اپریل 1949ء کو انضمام کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے۔[3]

نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی اور ممکنہ وارث عابدہ سلطان نے تخت پر ان کا حق چھوڑ دیا اور 1950ء میں پاکستان ہجرت کر گئیں۔ انھوں نے پاکستان کے محکمہ خارجہ میں بھی خدمات انجام دیں۔

لہذا، بھارت کی حکومت نے انھیں جانشینی سے خارج کر دیا گیا اور اس کی چھوٹی بہن بیگم ساجدہ سلطان کو خطاب عطا کر دیا۔ 1995ء میں بیگم ساجدہ کے انتقال پر، خطاب ان کی سب سے بڑی بیٹی نوابزادی صالحہ سلطان بیگم کوعطا کر دیا گیا۔[4]

تصاویر[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Merriam Webster's Geographical Dictionary, Third Edition۔ Merriam-Webster۔ 1997۔ صفحہ: 141۔ ISBN 978-0-87779-546-9۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013 
  2. Roper Lethbridge (2005)۔ The golden book of India (illustrated ایڈیشن)۔ Aakar۔ صفحہ: 79۔ ISBN 978-81-87879-54-1 
  3. S. R. Bakshi and O. P. Ralhan (2007)۔ Madhya Pradesh Through the Ages۔ Sarup & Sons۔ صفحہ: 360۔ ISBN 978-81-7625-806-7 
  4. Henry Soszynski (8 March 2012)۔ "Bhopal (Princely State)"۔ World of Royalty۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2012