مندرجات کا رخ کریں

فریڈرک بارباروسا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جرمنی کے ایک شہر میں نصب باربروسا کا مجسمہ

فریڈرک اول المعروف باربروسا (1122ء تا 10 جون 1191ء) 4 مارچ 1152ء کو شاہ جرمنی اور 18 جون 1155ء کو مقدس رومی سلطنت کا سربراہ بنا۔ وہ 1154ء سے 1186ء کو شاہ اٹلی بھی رہا۔

فریڈرک تیسری صلیبی جنگ کے دوران 10 جون 1190ء کو جنوب مشرقی اناطولیہ کے ایک دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اس کی موت کے حقیقی اسباب کے بارے میں یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا تاہم رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اسے گھوڑے نے دریا کے ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا اور زائد العمری کے باعث وہ دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا۔ جبکہ اس سے اس وقت اپنی زرہ بھی پہن رکھی تھی اس لیے وزن کے باعث سطح آب پر نہ آسکا۔

فریڈرک کی موت سے اس کی فوج میں زبردست پھوٹ اور افراتفری پڑ گئی اور اکثریت ترکوں کے حملوں کا نشانہ بن گئی اور کئی نے بھوک و افلاس کے باعث خود کشیاں کر لیں۔ عکہ کا محاصرہ کرنے والی صلیبی فوج میں کے دستے کے صرف 5 ہزار فوجی بچے۔ باربروسا کا بیٹا فریڈرک ششم اپنے باپ کی لاش یروشلم دفنانے کی تمنا لیے صلیبی جنگ میں شریک تھا لیکن ایک تو مسیحی صلاح الدین ایوبی سے بیت المقدس واپس نہ چھین سکے دوسرا اس کے جسم کو محفوظ کرنے کی تدابیر بھی ناکام ہوگئیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941ء میں سوویت یونین پر جرمن جارحیت کو فریڈرک کے نام پر ہی "آپریشن باربروسا" کا نام دیا گیا تھا۔

شاہی رتبہ ملنے سے پہلے انھیں ڈیوک آف سوابیا کی کرسی وراثہ میں ملی تھی (1147 سے 1152، فریڈرک سوم)۔ وہ حوہینسٹافن سلطنت کے ڈیوک فریڈرک دوم کے صاحبزادہ تھے۔ ان کی والدہ جوڈتھ، ہینری دہم، ڈیوک آف باواریا کے مقابل ہاؤس آف ویلف کی صاحبزادی تھیں۔ یعنی وہ ماں باپ دونوں کیطرف سے جرمنی کے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اسی لیے شاہی رتبے کے لیے نامزد ہوئے۔

زندگی اور دور حکومت

[ترمیم]

ابتدائی سال

[ترمیم]

فریڈرک سہ 1122 میں پیدا ہوئے اور 1147 میں ڈیوک آف سوابیا بنے، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنے چچا کونارڈ سوم (جرمنی کے بادشاہ) کے ساتھ دوسری صلیبی جنگ میں مشرق کا سفر کیا۔ یہ سفر بڑا تباہ کار رہا مگر اس نے فریڈرک کو نمایاں کر دیا اور وہ بادشاہ کا مکمل اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فروری 1152 میں کونارڈ کے انتقال کے وقت بستر مرگ کے قریب صرف فریڈرک اور شہزادہ بشپ آف بیمبرگ موجود تھے۔ ان دونوں کی گواہی پر فریڈرک کو کونارڈ کی فرمائش کے مطابق ان کے چھ سالہ بیٹے فریڈرک چہارم، ڈیوک آف سوابیا پر فوقیت دیتے ہوئے بادشاہ بنا دیا گیا۔ فریڈرک نے جوش و جذبہ سے اس تاج کو اپنایا اور فرینکفرٹ میں تاج کنندائوں نے ان کو جرمنی کا نیا بادشاہ منتخب کر لیا۔ ان کی تاج پوشی کئی دن باد آچن میں ہوئی۔ ان کو مقدس رومی تاج 18 جون 1155 میں پوپ نے روم میں پہنایا۔[1]

ہینری چپارم، مقدس رومن شہنشاہ اور ہینری پینجم، مقدس رومی شہنشاہ کے ادوار میں جرمنی کی سلطنت بدنظمی کا شکار ہو گئی تھی۔ طاقت تنازع بخشش کے بوجھ کے وزن تلے دب کر بدنظمی کا شکار ہو گئی تھی۔ بادشاہ کا انتخاب شہزادے کرتے تھے اور بادشاہ کو اپنی جاگیر سے آگے وسائل حاصل نہیں ہوتے تھے اور ان کو اصل اختیارات استعمال کرنے کی اجازت نہیں پوتی تھی۔ مزید جرمن بادشاہ کا تاج ایک خاندان سے دوسرت خاندان کو منتقل کر دیا جاتا تھا۔ جب ہوہینسٹافن کے فریڈیک اول نے 1152 میں تخت سنبھالا اس وقت شاہی اثر رسوخ کے تعطل کو پچیس سال ہو چکے تھے، بلکہ اس کو اسّی سال ہو چکے تھے۔ جرمن بادشاہ کے زیر اثر اٹلی کی بس کچھ ہی امیر ریاستیں آتی تھیں۔ 1125ہینری پنجم کی موت کے ساتھ سالیان نسل ختم ہو چکی تھی۔ جرمن شہزادوں نے تاج اس ڈر سے اس کے بھتیجے (ڈیوک آف سوابیا) کو نہیں دیا کے کہیں وہ ہینری پنچم کا شاہی اثر رسوخ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس کی جگہ لوتھیئر (1125 - 1137) کو چنا گیا جس کا ہوہنسٹافینوں سے پرانا جھگڑا چل رہا تھا اور اس کی شادی ویلف میں ہوئی تھی۔ ایک ہوہنسٹافن نے کونارڈ سوم آف جرمنی (1137-1152) کے طور پر تخت سنبھالا۔ جب فریڈرک بارباروسا نے 1152 اپنے چچا کا تخت سنبھالا اس وقت اس خاندانی رقابت کو ختم کرنے کا بہترین راستہ نظر آنے لگا، کیونکہ وہ ماں کی طرف سے ویلف تھے۔ مگر ویلف ڈیوک آف سیکسونی ہینری دی لائن کو اس سے تشفی نہیں ملنی تھی۔ وہ ہوہنسٹافن سلسلہ کا بدستور دشمن رہا۔ بارباروسا کے پاس سوابیا اور فرانکونیا کی ریاستوں، اپنی خود کی شخصیت کے علاوہ سلطنت بنانے کے لیے بہت تھوڑے وسائل حاصل تھے۔

جس جرمنی کو فریڈتک نے متحد کرنے کی کوشش کی وہ سولہ سو ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ان میں باواریا اور سیکسونی بڑی ریاستیں تھیں اور زیادہ تر کو یقشہ پر دکھانا بھی مشکل تھا۔ نتیجہ پسند طبیعت کے حامل فریڈرک نے شہزادوں کے ساتھ دو طرفہ مفادات کا رشتہ رکھا اور ہینری دؤم کے برعکس قروں وسطی کی رقبطوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کو سہارا دیا۔ مگر یہ سب اس کی بساط سے باہر تھا۔ جرمن خانہ جنگی کے بڑے کھلاڑیوں میں پوپ، شہشاہ، گھلبنیس اور گیولف تھے اور ان میں سے کوئی بھی کامیاب کا حامل نہیں ہو سکا۔

طاقت کا دور

[ترمیم]
فریڈرک بارباروسا, بیچ میں, براب میں ان کے دو بچے, بادشاہ ہینری چہارم سیدھے پاتھ پر اور دیوک فریڈرک چہارم الٹے ہاتھ پر (ویلف کرونیکل)

اس نئے بادشاہ نے جرمنی میں نظام کی باقائدگیوں کے لیے شاہی حقوق کی بحالی کی اہمیت کا فوراّ اندازہ لگا لیا۔ اس نے امن کے قیام کے لیے ایک عام اعلان کیا جس کے تحت امرا کو بے دھڑک رعایتیں دیں۔ ڈینش خانہ جنگی ختم کرانے کے لیے فریڈرک نے سیوینڈ اور والیمار اول آف ڈینمارک کے بیچ میں دخل اندازی کی اور مشرقی رومی شہنشاہ مینوئل اول کومنیس کے ساتھ بات چیت شروع کرائی۔ اسی دور میں فریڈرک نے ایڈلہائڈ آف ووبرگ سے شادی کی جس سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے قسطنطنیہ کے درباد میں رشتہ کرنے کی کوشش کی۔ اپنے ایتخاب کے بعد فریڈرک نے یہ خبر ہوپ یوجین کو پہنچائی، مگر پاپل سے تصدیق حاصل نہیں کی۔ مارچ 1153 کو فریڈرک نے کونسٹانس معاہدہ کو حتمی شکل دی۔ اپنی تاج پوشی کے بدلے میں پاپیسی کی حفاظت کا وعدہ اور روجر دوم آف سسلی یہ چرچ کے کسی بھی دشمن سے یوجین کی مرضی کے بغیر صلح نہ کرنے اور روم فتح کرنے میں ساتھ دینے کا عہد کیا ۔

دور حکومت اور اٹلی میں جنگ

[ترمیم]

فریڈرک نے جرمنی چھ مہموں کا آغاز کیا۔ پہلی دفعہ کے بعد ان کو پوپ ایڈرین چہارم نے رومی شپنشاہ کے اعزاز سے نوازا۔ 1155 میں فریڈرک نے پوپ ایڈرین چہارم کی افواج کے ساتھ ریپبلکن شہر کو آرنلڈ آف بریسکا کی فوج سے واپس حاصل کیا۔ آرنلڈ آف بریسکا ایبرالڈ کا شاگرد تھا جس کو بعد میں بغاوت اور سرکشی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ اپنی مذہب کے مرترادف تعلیمات کے باوجود آرنلڈ پر برعت کا الزام نہیں لگایا گیا۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]
  1. Le Goff, J., p. 266, "Medieval Civilization, 400-1500", Barnes and Noble, New York, 2000

بیرونی روابط

[ترمیم]
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔