تفسیر روائی
| |
| |
| |
| |
تفسیر روائی، تفسیر ماثور یا تفسیر نقلی؛ تفسیر قرآن کی ایک روش ہے جس میں تفسیری روایات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ شیعہ، روائی تفاسیر میں پیغمبرؐ اور آئمہ معصومینؑ کی احادیث کو پیش نظر قرار دیتے ہیں۔ شیعہ مفسرین کے نزدیک، پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومینؑ سے منسوب روایات کے ذریعے قرآن کریم کی تفسیر و تبیین، تفسیر کی بہترین اور مستحکم ترین روش ہے۔ اس کے باوجود جعلی روایات بھی تفسیری احادیث کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں۔ تفسیر عیاشی اور تفسیر قمی، شیعہ روائی تفسیر کا نمونہ ہیں جبکہ جامع البیان اہل سنت کی روائی تفسیر کا نمونہ ہے ۔ معاصر قرآنی محقق محمد ہادی معرفت کے بقول اسلامی دنیا کے اہم ترین تفسیری آثار اوائل میں تفسیری روایات کی بنیاد پر تالیف کیے گئے ہیں۔
مفہوم
[ترمیم]تفسیر روائی، تفسیر ماثور یا تفسیر نقلی[1] اہل تشیع کے نزدیک پیغمبر اسلامؐ اور آئمہ شیعہ سے منقول روایات کی روشنی میں تفسیر کرنے کا نام ہے۔[2]
تفسیری روایات کی اہمیت اور اعتبار
[ترمیم]مسلمان مفسرین کے مطابق پیغمبر اسلام ابلاغ وحی کے علاوہ کلام خدا کی تفسیر، تبیین اور تشریح کے بھی ذمہ دار تھے۔[3] وہ اپنی اس رائے کے لیے سورہ نحل کی آیت 44 اور 64 سے استدلال قائم کرتے ہیں۔[4] اس بنا پر شیعہ اور سنی مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبرؐ سے منسوب تفسیری روایات یا کلمات کی صحت ثابت ہونے کی صورت میں یہ تفسیر کی ایک بہترین اور محکم ترین روش ہے۔[5] اہل تشیع نے حدیث ثقلین سے استدلال کرتے ہوئے ائمہؑ کی روایات کو بھی تفسیر روائی کے منابع میں سے قرار دیا ہے۔[6] تفسیری روایات کی اہمیت کے باوجود مفسرین کے نزدیک مذکورہ احادیث کے ضمن میں جعلی روایات بھی موجود ہیں کہ جنہیں کسی نہ کسی صحابی کے مقام و منزلت کو بڑھانے یا گھٹانے کے لیے جعل کیا گیا ہے۔[7] سورہ توبہ کی آیت 113 کے لیے شان نزول کا جعل ان موارد میں سے ایک ہے اور اہل سنت مفسر طبری اور بخاری نے بھی اسے جعلی قرار دیا ہے۔[8] مذکورہ شان نزول کی بنیاد پر سورہ توبہ کی آیت 113 کو امام علیؑ کے والد گرامی حضرت ابوطالبؑ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ان کی موت کے وقت نازل ہوئی اور عمر کے آخری لمحات تک ان کے شرک پر باقی رہنے کو بیان کر رہی ہے جبکہ طبری اور بخاری کے نزدیک ابو طالب ہجرت سے تین سال قبل وفات پا چکے تھے جبکہ یہ آیت سن نو ہجری کو نازل ہوئی ہے۔[9] اس قسم کی جعلی روایات کہ جن میں سے اکثر و بیشتر، نو مسلم یہودیوں کے توسط سے جعل کی گئی ہیں؛ کو اسرائیلیات کہا جاتا ہے۔[10]
تفسیر روائی کے چند نمونے
[ترمیم]معاصر قرآنی محقق اور مفسر محمد ہادی معرفت کے نزدیک اسلاف کی اہم ترین تفسیری کتب تفسیری روایات پر اعتماد کرتے ہوئے تالیف کی گئی تھیں اور قرآن کے فلسفی، کلامی اور ادبی معانی پر اعتماد ان ابتدائی تفاسیر میں سے صرف چند ایک میں نظر آتا ہے۔[11] معرفت کے نزدیک اہم ترین روائی تفاسیر درج ذیل ہیں:
- تفسیر عیاشی، چوتھی صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور محمد بن عمر کشی کے استاد محمد بن مسعود عیاشی کی تالیف ہے۔ عیاشی نے اپنی تفسیر میں شیعہ ائمہؑ سے منقول روایات کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔[12] لیکن تفسیر عیاشی کے چند حصے ہی ہماری دسترس میں ہیں۔[13]
- تفسیر قمی، علی بن ابرہیم قمی سے منسوب ہے کہ جسے ان کے شاگرد ابو الفضل العباس بن محمد جو امام موسی کاظمؑ کی اولاد سے ہیں؛ نے تالیف کیا ہے اور انھوں نے علی بن ابراہیم کے توسط سے نقل ہونے والی روایات کے علاوہ تفسیر ابو جارود سے بھی استفادہ کیا ہے۔[14] علوی اور علی بن ابراہیم کا شاگرد ہونے کے سوا ابو الفضل العباس بن محمد کے بارے میں کسی قسم کی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔[15] اگرچہ مجموعی طور پر اس تفسیر کو بلا اشکال قرار دیا گیا ہے مگر اس میں کچھ مقامات پر ضعیف روایات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔[16]
- جامع البیان، اہل سنت مفسر محمد بن جریر طبری کی تالیف ہے۔ تفسیر کی جامعیت اور ہمہ جہتی کے اعتبار سے طبری کو علم تفسیر کا باپ قرار دیا گیا ہے۔[17] البتہ طبری پر جعلی اور ضعیف روایات کے ذکر اور مجہول راویوں پر اعتماد کرنے کا بھی الزام ہے۔[18]
متعلقہ صفحات
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ایازی، المفسرون: حیاتهم و منهجم، 1414ھ، ص36۔
- ↑ ایازی، المفسرون: حیاتهم و منهجم، 1414ھ، ص36؛ ذهبی، التفسیر والمفسرون، دار الکتب الحديثۃ، ج1، ص152۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج6، ص398؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، قاهره، ج20، ص57؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج12، ص284؛ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، 1984ء، ج14، ص196۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج6، ص398؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، قاهره، ج20، ص57؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج12، ص284؛ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، 1984ء، ج14، ص196۔
- ↑ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، 1984ء، ج6، ص47، ج14، ص163-164۔
- ↑ ایازی، المفسرون: حیاتهم و منهجهم، 1414ھ، ص36-37۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون فی ثوبہ القشیب، 1418-1419ھ، ج2، ص35ـ56؛ ذهبی، التفسیر والمفسرون، دار الکتب الحديثۃ، ج1، ص159-165۔
- ↑ بخاری، صحيح البخاری، 1401ھ، ج5، ص208؛ طبری، جامع البيان، 1322-1330ھ، ج7، ص30۔
- ↑ بخاری، صحيح البخاری، 1401ھ، ج5، ص208؛ طبری، جامع البيان، 1322-1330ھ، ج7، ص30۔
- ↑ ملاحظہ کیجئے: ذهبی، الإسرائيليات في التفسير والحديث، 1405ھ، ص19۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص312۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص322۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص322۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص325۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص326۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص327۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص312-313۔
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون في ثوبہ القشيب، 1419ھ، ج2، ص312-313۔
مآخذ
[ترمیم]- قرآن کریم۔
- ابن عاشور، محمدطاهر بن محمد، تفسیر التحریر والتنویر، تونس، 1984ء۔
- ایازی، محمدعلی، المفسرون: حیاتهم و منهجم، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، 1414ھ/1373شمسی۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، استنبول، 1401ھ/1981ء۔
- ذهبی، محمدحسین، الإسرائیلیات فی التفسیر والحدیث، دمشق، 1405ھ/1985ء۔
- ذهبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون، قاهره، 1409ھ/1989ء۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، بیتا۔
- صغیر، محمدحسین علی، دراسات قرآنیه، ج2: المبادي العامۃ لتفسیر القرآن الکریم، قم، 1413ھ۔
- طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، 1390-1394ھ/1971-1974ء۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بولاق، 1322-1330ھ/1994-1911ء، چاپ افست بیروت، 1400-1403ھ/1980-1983ء۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، قاهره،بیتا، چاپ افست تهران، بیتا۔
- معرفت، محمدهادی، التفسیر والمفسرون فی ثوبہ القشیب، ج2، مشهد، الجامعۃ الرضويۃ للعلوم الإسلاميۃ، 1419ھ۔