مندرجات کا رخ کریں

سید علی بلگرامی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید علی بلگرامی
معلومات شخصیت
پیدائش 10 نومبر 1851ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلگرام ،  ہردوئی ضلع ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 مئی 1911ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہردوئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
ریاست حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی لکھنؤ یونیورسٹی
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی
جامعہ لندن   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ڈاکٹر آف لیٹرز ،  پی ایچ ڈی ،  فاضل القانون   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محقق ،  مصنف ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی ،  سنسکرت ،  فرانسیسی ،  فارسی ،  اردو ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت ریاست حیدرآباد ،  جامعہ کیمبرج   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
شمس العلماء (1893)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

شمس العلماء ڈاکٹر سید علی بلگرامی (پیدائش: 1851ء - وفات: 3 مئی 1911ء) ریاست حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور مصنف، محقق، مترجم اور جامعہ کیمبرج میں مرہٹی زبان کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے کیننگ کالج لکھنؤ، پٹنہ کالج، روڑکی انجینئرنگ کالج اور جامعہ لندن سے تعلیم پائی۔ نصف درجن سے زائد محققانہ اور نہایت عالمانہ تصانیف یادگار چھوڑیں۔ جن میں سے کچھ کے نام فارسی کی قدر و قیمت بہ مقابلہ سنسکرت، رسالہ در تحقیق کتاب قلیلہ و دمنہ، تمدنِ عرب (ترجمہ) اور تمدنِ ہند (ترجمہ) شامل ہیں۔[1] نامور ماہر تعلیم، سول سرونٹ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما عماد الملک سید حسین بلگرامی ان کے بڑے بھائی تھے۔

خاندانی پس منظر و تعلیم

[ترمیم]

انگریز سرکار نے نواب واجد علی شاہ کو مٹیا برج میں لے جانے کے دوسرے سال جب بہادر شاہ ظفر کو رنگون پہنچا دیا گیا تو اودھ و صوبہ شمالی و مغربی جسے اب اتر پردیش کہتے ہیں، خوب ہی لوٹا گیا۔ اس وسیع علاقے میں دو چار ہی ایسے مسلمان گھرانے ہوں گے جن کو ان مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان میں ایک ساداتِ بلگرام کا وہ کنبہ بھی تھا جس میں سید علی بگرامی 1851ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے جدِ امجد مولوی سید کرامت حسین گورنر جنرل ہند کے دربار میں نواب وزیر آف اودھ کے دربار کے نمائندے تھے۔ سید کرامت حسین نے اپنے دونوں بیٹوں اعظم الدین حسن اور زین الدین حسن کو کلکتہ کے مدرسہ عالیہ میں تعلیم دلائی۔[2] یہ دونوں انگریزی دان ہونے کے علاوہ مشرقی علوم کے عالم بھی تھے۔ آگے چل کر ان دونوں بھائیوں کو انگریز حکومت میں ملازمت بھی ملی۔ اعظم الدین حسن گورنر جنرل کے مشرقی زبانوں کے ترجمان کی حیثیت سے اے ڈی سی بنے اور پھر سندھ کے پولیٹیکل ایجنٹ ہو گئے، صوبہ بہار میں ڈپٹی کلکٹر اور بندوبست کے حاکم رہے، سی ایس آئی کا خطاب پایا۔ دوسرے بھائی زین الدین حسن صوبہ بہار و بنگال میں 1878 میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر ریاست حیدرآباد میں کمشنر انعام بن کر آئے۔ سید علی بلگرامی انہی کے فرزند تھے۔ 1866ء میں سید علی نے فارسی و عربی کی تعلیم گھر پر ختم کر کے انگریزی مدرسہ میں داخل ہوئے۔ دو سال انھوں نے کیننگ کالج لکھنؤ میں بھی تعلیم پائی تھی،اس کے بعد 1874 میں پٹنہ کالج سے شریک ہو کر کلکتہ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ بی اے میں ان کے اختیاری زبان سنسکرت تھی۔ دو سال قانون و ادب کی تحصیل میں گزار کر انھیں روڑکی انجینئرنگ کالج میں تعلیم کے لیے تھامسن اسکالرشپ ملی۔ نواب سالار جنگ دوم نے 1876ء میں یورپ کا سفر کیا تو ان کے ساتھ سید علی کے بڑے بھائی سید حسین بلگرامی بھی ہمراہ تھے۔[3] اس سفر میں جو کچھ سید حسین بلگرامی نے دیکھا اس سے متاثر ہو کر ارادہ کر لیا کہ حیدرآباد سے چند ہونہار نوجوان ہر سال انگلستان تعلیم کے لیے روانہ کیے جائیں جو واپس آ کر ریاست کے مختلف عہدوں کو سنبھال سکیں۔ جب نواب سالار جنگ دوم اور سید حسین بلگرامی ہندوستان لوٹے تو سید علی بلگرامی کو روڑکی سے بلوا کر کچھ ماہ اپنے اسٹاف میں رکھا اور تکمیلِ تعلیم کے لیے انگلستان بھیج دیا۔ انھوں 1879ء میں جامعہ لندن کا امتحانِ داخلہ اعلیٰ درجہ میں پاس کر لیا۔اس امتحان میں ان کی اختیاری زبان جرمن اور فرانسیسی تھی۔ انھوں نے کیمسٹری، طبیعات، معدنیات اور ان کے متعلقہ مضامین کی تعلیم چند سال میں ختم کر لی۔ اپنی ذہانت و قابلیت کے تحسینی صداقت نامے با کمال پروفیسروں سے لے کر انگلستان سے روانہ ہوئے۔ جرمنی، فرانس اور اسپین سے ہوتے ہوئے کچھ ماہ اٹلی میں اطالوی زبان سیکھنے کے لیے قیام کیا۔ سنسکرتے اور بنگالی تو پہلے ہی سے جانتے تھے۔ حیدرآباد میں انھوں نے مرہٹی او تیلگو بھی سیکھ لی۔ ان کا حافظہ بڑا زبردست تھا، جو ایک دفعہ پڑھ لیتے بھولتے نہ تھے۔ فرانسیسی زبان میں بلا تکلف باتیں کرتے تھے اور قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ چودہ زبانیں ایسے لہجے میں بولتے تھے کہ یہ سب گویا ان کی مادری زبانیں ہیں۔ یورپ سے واپسی پر انھیں انسپکٹر جنرل معدنیات مقرر کر دیا گیا۔[4] 1902ء میں وہ جامعہ کیمبرج میں مرہٹی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ سالار جنگ دوم اور سر آسماں جاہ کی وزارت میں مختلف الجھنیں ان کی علمی اور ادبی زندگی میں رخنہ انداز ہوئیں۔ ان حالات سے بد دل ہو کر انھیں وکالت کا خیال آیا۔ 1891ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے بی ایل کے امتحان یونیورسٹی بھر میں اول آ کر طلائی تمغے اور یونیورسٹی کی اسکالرشپ کے حقدار قرار پائی۔[5]

خطابات، ادبی و علمی خدمات

[ترمیم]

سید علی بلگرامی ریاست میں تو کسی خطاب کے مستحق نہ ٹھہرے مگر گورنمنٹ آف انڈیا نے ان کی علمی خدمات کا اعتراف شمس العلماء کا خطاب 1893ء میں دے کر کیا۔برطانوی جامعہ نے ان کو پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر آف لیٹرز (ڈی لٹ) کی ڈگریان دیں۔ دورانِ ملازمت انھوں نے عربی زبان میں سہ ماہی رسالہ الحقائق نکالا تھا۔ اس میں عماد الملک اور علامہ شوستری اور مولوی سید کرامت حسین کے جو 1908ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے مضامین شائع ہوتے تھے۔ یہ رسالہ چل نہ سکا اور جلد بند ہو گیا۔ انھوں نے میڈیکل جورس پروڈنس کا اردو ترجمہ اصول قانون متعلق بہ طب کے نام کیا۔ اس کاوش اور محنت کا معاوضہ سر آسماں جاہ کی وزارت کے زمانے میں سرکار ریاست حیدرآباد سے چھ ہزار روپیہ بطور انعام ملا۔ نواب وقار الامراء کے زمانے میں وہ طوفان جو سید علی کو پریشان کرنے کے لیے اٹھایا گیا تھا بہت کم ہو گیا اور ان کے علمی کاموں میں وقار الامراء سے مدد بھی ملی۔ انھوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر ایک سرشتہ علوم و فنون قائم کرا لیا اور اپنی نگرانی میں دکن کی تاریخ اور بہت سی کتابیں تالیف و ترجمہ کرائیں۔ انھوں نے مولانا شبلی نعمانی کا تقرر بحیثیت ناظم سرشتہ علوم و فنون کرایا۔ یہ سرشتہ ایک عرصہ تک قائم رہا۔ مولوی سید احمد دہلوی (مولف فرہنگ آصفیہ) 50 روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کیا۔[6] ان کی تالیفات پر انعام دینے کے لیے انھوں نے خود گزارش پیش کی اور سرکار سے ایک گراں قدر رقم منظور کرا کے ان کے حوالے کر دی۔ آل انڈیا ایجویشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ جو اس زمانے میں علی گڑھ میں ہوا تھا اس میں انھوں نے ایک تحقیقاتی مقالہ کلیلہ و دمنہ پڑھا۔ انھوں بڑی محنت سے پتہ چلایا تھا کہ یہ کتاب اصل میں کہاں سے نکلی ، کہاں کہاں گھومی، کس کس زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور اس میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی گئی اور اصل سے موجودہ نسخے کتنے مختلف ہوتے گئے۔وہ انگلستان میں جب کیمبرج کے پروفیسر ہو کر گئے تو الف لیلہٰ کے متعلق بھی ایسی ہی تحقیقات شروع کی تھی۔[7] ڈاکٹر گستاؤ لی بان کی دو فرنسیسی تصانیف تمدن ہند اور تمدن عرب کا اردو ترجمہ ان کے شاہکار کام مانے جاتے ہے۔ ان کتابوں کا ترجمہ انھوں نے اس طرح سے کیا کہ پہلے پورا پیراگراف پڑھ لیتے تھے، پھر قلم اٹھا کر اپنی زبان اردو میں لکھنا شروع کر دیتے تےے اور مجال نہیں کہ مصنف کا منشا فوت ہو جائے۔ ایلورا کے غاروں پر انھیں بڑی چھان بین کی اور ان پر گائیڈ کے طور پر ایک کتابچہ لکھا جس آئندہ چل کر ان لوگوں کو جنھوں نے پرانی یادگاروں کی تحقیق میں بڑی رہنمائی ہوئی۔ انھوں نے فارسی اور سنسکرت زبانوں کے تعلیمی فوائد کا تقابل کیا اور اس پر ایک پورا رسالہ فارسی کی قدر و قیمت بہ مقابلہ سنسکرت لکھا، جس کی افادیت اب تک قائم ہے۔ انھیں کتابوں کا بے حد شوق تھا۔ ان کی لائبریری ان کے ڈرائنگ روم سے زیادہ شاندار تھی اور بہت با ترتیب۔ بعض انگریز کتب فروشوں کو انھوں نے مستقل آرڈر دے رکھا تھا۔ یورپ کی کسی زبان میں اسلام یا تاریخ پر کتاب شائع ہوتے ہی ان کے پاس آ جاتی تھی۔ بعض رسائل کے وہ مستقل خریدار تھے۔[8]

علمی اداروں اور سوسائٹیز سے وابستگیاں

[ترمیم]
  • ایسوسی ایٹ رائل اسکول آف مائینس لندن
  • ممبر آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف گریٹ برٹن اینڈ آئرلینڈ
  • ممبر آف نارتھ انگلینڈ انسٹی ٹیوٹشن آف مائیننگ انجینئرز
  • ممبر ایشیاٹک سوسائٹی بنگال و بمبئی
  • ممتحن سنسکرت مدراس یونیورسٹی
  • معتمد تعمیرات و ریلوے و معدنیات سرکار ریاست حیدرآباد

وفات

[ترمیم]

گرمیوں کا زمانہ تھا۔ 3 مئی 1911ء کو رات کھانا کھانے کے بعد وہ ہردوئی کے اپنے مکان پر ٹینس کورٹ پر بیٹھے ہوئی اپنی بہن فاطمہ بیگم، بیگم صاحبہ اور اپنی بچی رقیہ بیگم اور اپنی بہن کی لڑکی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے کہ حرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال کر گئے۔[9][1]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب محمد انصار اللہ، تاریخ ادب اردو (جلد ہفت دہم)، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، ص 456
  2. سید غلام حسین پنجتن شمشاد، حیدرآباد کے بڑے لوگ، سلسلہ مطبوعات ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد، 1957، ص 87
  3. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 88
  4. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 89
  5. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 91
  6. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 93
  7. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 94
  8. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 95-96
  9. حیدرآباد کے بڑے لوگ، ص 105-104