مندرجات کا رخ کریں

مجاہد الاسلام قاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مجاہد الاسلام قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1936ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دربھنگہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 4 اپریل 2002ء (65–66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم مئو   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مولانا مجاہد الا سلام قاسمیؒ (1936ء- 2002ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین ،مفکر، مصنف اور فقیہ تھے، ان کو براہِ راست حسین احمد مدنی، محمد ابراہیم بلیاوی، اعزاز علی امروہی اور محمد طیب قاسمی جیسے اکابر علمائے دیوبند سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی، المعہد العالی للتدریب فی القضاء و الافتاء اور دار العلوم اسلامیہ پٹنہ کے بانی اور سکریٹری جنرل و مجمع الفقہ الاسلامی جدہ میں ہندوستان کے واحد رکن، آل انڈیا ملی کونسل کے بانی اور امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے قاضی القضاۃ اور نائب امیر شریعت بھی تھے۔

تعلیم

[ترمیم]

ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، متوسطات کی تعلیم مدرسہ محمود العلوم دملہ، مدھوبنی، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور دار العلوم مئوناتھ بھنجن میں حاصل کی، اعلی تعلیم کے حصول کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ 1951ء سے لے کر 1955ء تک چار سال مستقل دار العلوم دیوبند میں زیر تعلیم رہے اور امتیازی نمبرات سے سند فراغت حاصل کی۔

درس و تدریس

[ترمیم]

تحصیل علم کے بعد مولانا درس و تدریس سے منسلک ہو گئے، جامعہ رحمانی میں انھیں علیا درجات کی کتابیں پڑھانے کو ملیں، جامعہ رحمانی کی علمی فضا میں ان کی تدریسی صلاحیت اور قابلیت کے جوہر کھلے۔ اور اپنے وقت کے مقبول ترین اساتذہ میں ان کا شمار ہونے لگا ۔

امارت شرعیہ

[ترمیم]

امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کو اللہ تعا لی نے جوہر شناسی کا خوب ملکہ عطا کیا تھا، انھوں نے ان کو افتاء و قضا کی ذمہ داری سونپ کر امارت شرعیہ بھیج دیا اور وہ پھر امارت شرعیہ کی تعمیر و ترقی میں ایسے منہمک ہو گئے کہ امارت شرعیہ ان کی زندگی کا حصہ بن گیا اور اپنی زندگی کے تقریبا 35 سال امارت شرعیہ میں گزار دیا۔ اس درمیان وہ منصب قضا پر فائز ہوکر ہزاروں مشکل اور پیچیدہ مسائل کے فیصلے کیے، اللہ تعا لی نے فیصلہ سازی کا بہترین ملکہ ان کو عطا کیا تھا، پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کو بھی آپ منٹوں میں حل کر دیتے۔ امارت شر عیہ کے نظام قضا و افتاء کو ملک و بیرون ملک پہنچایا اور ملک کے مختلف علاقوں میں دارالقضاء قائم کروائے، یہاں تک کہ قاضی ان کے نام کی شناخت بن گئی۔ انھوں نے اپنی مسلسل اور مخلصانہ جدوجہد سے امارت شر عیہ کو ایک معتبر اور با وقار ادارہ بنانے میں پورا ساتھ دیا امارت شرعیہ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی خدمات کے دائرہ کو وسیع کرنے میں ان کا اہم رول ہے، یوں تو حضرت قاضی صاحب ؒ متنوع خصوصیات کے حامل تھے، وہ بیک وقت ایک بے مثال فقیہ، نامور عالم دین، کامیاب مدرس، با بصیرت قاضی، شعلہ بیاں مقرر، مایہ ناز مفکر اور مدبر تھے تو وہیں ایک بہترین انشا پرداز، صاحب طرز ادیب اور بلند پایہ نثر نگار بھی تھے۔

ادب و صحافت

[ترمیم]

حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اصل میدان فقہ و فتاوی تھا لیکن انھوں نے اپنے آپ کو کبھی صرف ایک خانے میں بند نہیں رکھا، بلکہ ملت کے دیگر ضروری کاموں سے کبھی چشم پوشی نہیں کی اور ملی و قومی مسائل میں صبح و شام اس قدر گھرے رہے کہ شعر و ادب میں سنجیدگی کے ساتھ وقت نہیں دے سکے، لیکن اگر وہ اس کے لیے الگ سے وقت فارغ کرتے تو شاید چوٹی کے ادیبوں اور شاعروں کی فہرست میں شامل ہو سکتے تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے جو کچھ تحریر کیا وہ ان کے ادبی ذوق اور انشا پردازی کا زندہ ثبوت ہے۔ وہ اپنے زور قلم سے ادب اور صحافت کے افق پر بھی روشن ستارہ بن کر چمکے۔ بحث و نظر کا اجرا حضرت قاضی صاحبؒ نے نوجوان فضلاء کی تربیت اور نئے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے ایک سہ ماہی فقہی مجلہ ” بحث و نطر “ کے نام سے جون 1988ء میں جاری کیا، جس کے آپ تا دم زیست مدیر رہے، جس میں آپ کے تحقیقی مضامین کے علاوہ بصیرت افروز اداریے بھی ہوتے ۔ اہل علم و قلم اسے پسندیدگی کی نظر سے پڑھتے۔ ”بحث ونظر“ کے اداریے میں قومی اور بین الا قوامی مسائل پر بے لاگ تبصرے کرتے، سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی اور مذہبی موضوعات پر لکھے گئے آپ کے اداریے آج بھی اہل علم کے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ ان کا ادبی ذوق بہت بلند تھا ، وہ بنیادی طور پر فقیہ تھے اور قضاء و افتاء ان کا مشغلہ تھا ۔ فقہ و ادب دونوں میں تناقض تو نہیں لیکن تنافر ضرور ہے، اس کے با وجود خالص فقہی موضوعات پر بھی ان کی تحریریں شگفتہ، شستہ اور گل کی طرح ترو تازہ ہوتیں۔ فقہ جیسے خشک موضوع کو انھوں نے اپنے قلم کی رعنائی اور اسلوب کی دلکشی سے تازگی پیدا کر دی۔ ان کی تحریریں ان کے ادبی ذوق کا بین ثبوت ہیں۔ نامور عالم دین اور اردو و عربی کے ممتاز ادیب پروفیسر محسن عثمانی ندوی حضرت قاضی صاحبؒ کے ادبی پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”ان کی تحریروں کے پڑھنے سے ان کے ادبی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی اگر انھوں نے ادب کو گلے لگایا ہوتا تو اس میدان میں بھی لگاتار جیت کا ہار وہ زیب گلو کر لیتے اور ان کی شناوری پر اچھے اچھوں کو رشک آتا ، بحث و نظر میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے انتقال کے بعد جو مضمون لکھا تھا وہ خاکہ نگاری اور انشا پردازی کا نہایت اعلی نمونہ تھا، زبان میں وہ بہاﺅ تھا جو دریا میں ہوتا ہے۔ قلم میں وہ تاثیر تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ غم کی موجیں متلاطم ہیں اور ایسا لگتا تھا کہ قلم کو خون دل میں ڈبو دیا گیا ہے یا آنسوﺅ ں کے درمیان کاغذ کی کشتی نازک رواں ہے“۔ [1]

طرز تحریر و خاکہ نگاری

[ترمیم]

قاضی صاحب کی تحریریں ششتہ، شائستہ اور ادبی رنگ کی حامل ہوتیں ، موضوع کے اعتبار سے اس میں جوش و خروش اور درد و سوز ہوتا۔ خاکہ نگاری کا اچھا ملکہ تھا ، انھوں نے مختلف اہم شخصیتوں کے انتقال پر بہترین خاکے لکھے۔ حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے سراپا کا نقشہ کھینچتے ہوئے رقم طراز ہیں: ” دراز قد، روشن آنکھیں، چمکتا ہوا با رعب چہرہ، کشادہ پیشانی، ذہانت اور جرأت و عزیمت کے گہرے نقوش چہرے سے عیاں، جہاں مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمنؒ، مفکر ملت مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ، صاحب قلم اور معروف عالم دین مولانا منظور احمد نعمانیؒ جیسے بزرگ اور با وقار علما کی مجلس ہو ، وہاں ان تازہ وارد، کم عمر عالم دین اور رکن مجلس شوریٰ کی گفتگو ، ذہانت، جرأت، اصابت رائے اور قوتِ استدلال کے ساتھ مختلف نقاطِ نظر کو ایک لڑی میں پرو کر اور مسئلہ زیر بحث کی مختلف نزاکتوں کو توازن و اعتدال کے ساتھ سمیٹ کر جامع تجویز تحریر کر دینے کی بہترین صلاحیت کا سکہ پہلی ہی مجلس میں بیٹھ گیا“۔ (بحث ونظرص207) قاضی صاحبؒ اپنی تحریروں میں آسان اور سہل زبان استعمال کرتے ، جچے تلے الفاظ لاتے ، جملے چھوٹے مگر تراشے ہوئے ہوتے ، دل کی زبان سے لکھتے اور بات دل کے نہاں خانے میں اتر جاتی، موقع اور محل کی مناسبت سے استعارہ ، تشبیہ اور تلمیح کے ذریعہ تحریر میں حسن کا جادو جگاتے۔ خطیب تھے اس لیے تحریر میں بھی خطیبانہ رنگ کی جھلک محسوس ہوتی۔ پروفیسر محسن عثمانی کی رائے ملاحطہ کیجئے: ”ہر تحریر اور ہر تقریر وسعتِ نظر اور مطالعہ کی گہرائی کی غماز ہوتی، ان کے قلم کی ہر کاوش میں سوزِ دل اور خونِ جگر دونوں شامل نظر آتا،؛وہ فکر و نظر اور بحث و تمحیص کے تیشے سے دشوار گزار اور ناہموار مسئلہ کو بھی ہموار کر دیتے، تحریر اگر چہ سادہ ہوتی لیکن سلیس اور شگفتہ ہوتی اور دل کے اندر تیر نیم کش کی طرح اتر جاتی اور پھر نہیں نکلتی۔ فکر انگیز بھی اور دلنشیں بھی، بہت زیادہ مرصع کاری کے بغیر مؤثر ترسیل کے نمونے اگر تلاش کیے جائیں تو فقیہ ملت قاضی مجاہد الا سلام قاسمیؒ کے فقہی مباحث اور دیگر تحریروں میں آسانی کے ساتھ مل جائیں گے“۔[2]

خطابت

[ترمیم]

قاضی صاحبؒ کی تقریر یں بھی تحریرہی کی طرح جامع اور پر سوز کے ساتھ ساتھ ادب کا اعلیٰ شاہکار ہوتیں، موضوع اور موقع و محل کے اعتبار سے آپ گفتگو کرنے کا ہنر جانتے تھے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ”قاضی صاحبؒ کی تقریریں بھی تحریر ہی کی طرح الفاظ کے در وبست سے آراستہ ہوتی تھیں،اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی نے الفاظ کے کوزہ میں خونِ جگر ڈھال کر رکھ دیا ہے“۔ قاضی صاحب کی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے: ”میں یہاں بیٹھ کر آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہوں، کیونکہ میرے کانوں میں شیخ الاسلام کی آوازیں ایک کونے سے اب بھی آرہی ہیں ، صاف و شفاف آواز ، عشق رسول ﷺ کے آب زلال سے دھلی ہوئی زبان کی پر سوز آواز ، حدیثِ رسول کی تلاوت کی آواز،ان کا عربی لہجہ،ان کا مدنی طرز ادا ،ان کی عالمانہ شان، ان کی مجاہدانہ آن بان ،ان کا منور و پاکیزہ چہرہ، یقین پرور انداز کلام، دلوں میں گھر کر جانے والا خلوص، میں کہاں سے الفاظ لاوں اور کس طرح میں الفاظ کو معانی و حقائق کی صحیح صحیح تجسیم کی طاقت بخشوں کہ وہ ان احساسات و جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کر سکیں، جو دار العلوم میں آنے کے بعد میرے قلب کی پنہائیوں میں ، دلوں کی اتھاہ گہرائیوں میں موجزن ہوتے ہیں، میں جذبات کے طوفان کو زبان سے کانوں تک منتقل کرنے سے قاصر ہوں، یہاں کے چپہ چپہ پر مہر وفا کی جلوہ گری ہے،عشق بے خطر کی دولت بے بہا کا جو دریا یہاں رواں ہے،مکتب کی جو کرامت اور فیضانِ نظر کا جو کرشمہ یہاں ہر آن نظر آتا ہے، علم و فضل کی بے پناہی کے پہلو بہ پہلو آدم سازی اور قلب کی صیقل گری کا جو کارخانہ یہاں مصروف کار ہے ، دین وسط اور توازن واعتدال کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کا جو درس یہاں دیا جاتا ہے سچی بات یہ ہے کہ اس کی تصویر کشی کرنے سے عاجز ہوں،یہاں آکر طالب علمانہ معصومیت ، حوصلہ مندانہ نو عمری، لا پروا کم سنی، خودرائی شعار نوجوانی،یادوں کی بارات، ماضی کے خوبصورت نقوش، اساتذہ کی شفقتیں، ان کی فیاضانہ ساقی گری سبھی باتیں حافظے کے کینوس پر[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. بحث ونظرص527
  2. بحث ونظر ص529
  3. بحث ونظر ص210