رفیق احمد نقش

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رفیق احمد نقش
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 مارچ 1959ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میر پور خاص   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 مئی 2013ء (54 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش ضلع میرپور خاص   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ سندھ
جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ لسانیات ،  شاعر ،  معلم ،  غالبیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل غالبیات ،  غزل ،  ادارت ،  ترجمہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت بحریہ کالج کارساز کراچی ،  بیکن ہاؤس اسکول سسٹم ،  محمد علی جناح یونیورسٹی ،  کیڈٹ کالج پٹارو   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک حلقہ ارباب ذوق   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

رفیق احمد نقش (پیدائش: 15 مارچ، 1959ء - وفات: 15 مئی، 2013ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، ماہر لسانیات، محقق اور ماہر غالبیات تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ درس و تدریس میں گزارا۔ انھوں نے گورنمنٹ سٹی کالج کراچی، کیڈٹ کالج پٹارو، بحریہ کالج کارساز اور محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

رفیق احمد نقش 15 مارچ، 1959ء میں میرپور خاص، صوبہ سندھ، پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔[1] ان کے والد کا نام محمد حسین اور والدہ کا نام زہرا تھا۔ پرائمری تعلیم 1969ء میں مرزا غالب اسکول میرپور خاص سے حاصل کی۔ بعد ازاں 1974ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول سے درجہ اول میں پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم جامعہ ملیہ ڈگری کالج کراچی سے حاصل کی۔ جامعہ سندھ سے بی اے (آنرز) کرنے کے بعد 1980ء میں اسی جامعہ سے ایم اے (اردو) میں اول پوزیشن حاصل کر کے وائس چانسلر تمغے کے حقدار ٹھہرے۔ اس کے بعد جامعہ کراچی سے 1991ء میں ایم اے (لسانیات) کی ڈگری میں اول پوزیشن کے ساتھ بابائے اردو گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جامعہ کراچی سے سندھی اور ہندی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما بالترتیب 1993ء اور 1994ء میں حاصل کیے۔[2]

درس و تدریس[ترمیم]

  • لیکچرار (اردو)، کیڈٹ کالج پٹارو، ضلع دادو (نومبر 1982ء تا مئی 1983ء)
  • لیکچرار (اردو)، گورنمنٹ کالج نصیرآباد، ضلع لاڑکانہ (31 مئی 1983ء تا 23 اپریل 1986ء)
  • لیکچرار (اردو)، گورنمنٹ ڈگری سائنس اینڈ کامرس کالج، لانڈھی، کراچی (27 اپریل 1986ء تا 3 نومبر 1992ء)
  • استادِ اعزازی، شعبہ اردو ، جامعہ کراچی (1992ء تا 1994ء)
  • لیکچرار (اردو)، گورنمنٹ سٹی کالج، کراچی (4 نومبر 1992ء تا 31 اگست 1996ء)
  • استادِ اعزازی، شعبہ اردو ، محمد علی جناح یونیورسٹی، کراچی (فروری 2007ء تا جون 2007ء)
  • اسٹنٹ پروفیسر (اردو)، گورنمنٹ سٹی کالج، کراچی (یکم ستمبر 1996ء تا 14 مئی 2009ء)
  • ایسوسی ایٹ پروفیسر (اردو)، گورنمنٹ سٹی کالج، کراچی (15 مئی 2009ء تا 15 مئی 2013ء)
  • استادِ اردو، بحریہ کالج کارسازاور بیکن ہاؤس اسکول سسٹم بہادر آباد کراچی (22 فروری 2011ء تا 15 مئی 2013ء)[3]

ادبی خدمات[ترمیم]

رفیق احمد نقش بہت اچھے شاعر، ماہر لسانیات، ماہر غالبیات اور محقق تھے۔ اصلاحِ املا ان کا خاص موضوع تھا۔ ادبی پرچے تحریر کے 9 شمارے اور مشہور جریدے سب رنگ (ڈائجسٹ) کے 4 شمارے ان کی ادارت میں نکلے۔ رفیق نقش حلقہ ارباب ذوق کراچی برانچ کے اساسی ارکان میں شامل تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ کراچی کے چند اہم کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا۔ انھوں نے مشہور مصور ایم ایف حسین کی خود نوشت ایم ایف حسین کی کہانی اپنی زبانی کو ہندی زبان سے اردو میں منتقل کیا۔ محمد شمس الحق کی مشہور تالیف اردو کے ضرب المثل اشعار کی تدوین بھی انھوں نے ہی کی تھی۔ وہ مرزا غالب پر تحقیق کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ غالب پر ان کی تصانیف میں نامہ ہائے فارسیِ غالب، رموزِ غالب، مآثرِ غالب، غالبیات کے چند فراموش شدہ گوشے، غالب شناس مالک رام، غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین اور نوادرِ غالب شامل ہیں۔[4]

تصانیف[ترمیم]

  • 1999ء - نامہ ہائے فارسیِ غالب
  • 1999ء -رموزِ غالب
  • 2000ء - مآثرِ غالب
  • 2000ء - تصحیح و تحقیقِ متن
  • 2001ء -غالب کی اردو نثر اور دوسرے مضامین
  • 2002ء -نوادرِ غالب
  • 2002ء -غالب شناس مالک رام
  • 2002ء -غالبیات کے طند فراموش شدہ گوشے
  • 2003ء -اردو کے ضرب المثل اشعار
  • 2004ء -ایم ایف حسین کی کہانی، اپنی زبانی
  • 2005ء -یادِ ایام
  • 2006ء -مصطلحات الشعرا[3]

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

نیند آتی کہاں ہے آنکھوں میں رات ہر دم جواں ہے آنکھوں میں
ہونٹ تو مسکراتے رہتے ہیںدولتِ غم نہاں ہے آنکھوں میں
وہ بظاہر ذرا نہیں بدلیاجنبیت عیاں ہے آنکھوں میں
ڈار سے کونج کوئی بچھڑی ہےوحشتوں کا سماں ہے آنکھوں میں
ہم جہاں روز چھپ کے ملتے تھےوہ کھنڈر سا مکاں ہے آنکھوں میں
آنکھوں آنکھوں میں ہوتی ہیں باتیںنقش گویا زباں ہے آنکھوں میں

غزل

ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیاہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا
تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حالتنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا
تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسوبھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا
منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیبکھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا
ہر سمت ہیں اداس منظر کھلے ہوئےویران ہے نگاہ مگر تم کو اس سے کیا
سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیںبے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا
اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ درشاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا
گر تجزیہ کرو تو عیاں ہو نظر پہ نقشظاہر سفید و سیاہ مگر تم کو اس سے کیا

فرمانِ قائد

ہے علاج دردِ دوراں
مشکلیں ہوں جس سے آساں
قائدِ اعظم کا فرماں
اتحاد و نظم و ایماں

ایک شعر

تجھ سے بچھڑ کے بارہا محسوس یہ ہواخوش بو ترے بدن کی مرے آس پاس تھی

وفات[ترمیم]

رفیق احمد نقش 15 مئی، 2013ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب رفیق احمد نقش، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  2. ڈاکٹر ذو الفقار علی دانش، حیاتِ نقش: سنین کے آئینے میں، مشمولہ: پہچان (میرپور خاص) شمارہ 26 - رفیق احمد نقش نمبر، جنوری تا ستمبر 2014ء، ص 15
  3. ^ ا ب ڈاکٹر ذو الفقار علی دانش، حیاتِ نقش: سنین کے آئینے میں، مشمولہ: پہچان (میرپور خاص) شمارہ 26 - رفیق احمد نقش نمبر، جنوری تا ستمبر 2014ء، ص 16
  4. عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ پبلی کیشنز، کراچی، 2018ء