محاصرہ ویانا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محاصرہ ویانا
سلسلہ یورپ میں عثمانی جنگیں اور Ottoman–Habsburg wars

Engraving of clashes between the Austrians and Ottomans outside ویانا, 1529
تاریخ27 ستمبر–15 اکتوبر 1529[1]
مقامویانا، مقدس رومی سلطنت
(آج کے دور کا آسٹریا)
نتیجہ مسیحی اتحادیوں کی فیصلہ کن فتح
مُحارِب
 مقدس رومی سلطنت
بوہیمیا کا پرچم سلطنت بوہیمیا
Rhinish Palatinate
 سلطنت ہسپانیہ
سلطنت عثمانیہ
 مولداوی
کمان دار اور رہنما
Niklas Graf Salm (زخمی)
Philipp der Streitbare
Wilhelm von Roggendorf
سلطان سلیمان اول
وزیر اعلیٰ پارگلی ابراہیم پاشا
طاقت
c. 17,000-21,000[2] c. 120,000-125,000, بعض ذرائع کا دعوی 300,000[3]
ہلاکتیں اور نقصانات
نامعلوم لیکن بھاری[4] 15,000 زخمی، ہلاک یا گرفتار کیے گئے[5]

محاصرہ ویانا سے مراد عثمانی ترکوں کی جانب سے آسٹریا کے دار الحکومت ویانا کے وہ دو محاصرے ہیں جو 1529ء اور 1683ء میں کیے گئے لیکن ترک شہر کو حاصل کرنے میں ناکام رہے اور نہ صرف پورا وسطی یورپ ترک مسلم افواج کے زیر نگیں نہ آسکا بلکہ محاصرہ ویانا کی ناکامی سلطنت عثمانیہ کے زوال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔ محاصرہ ویانا کی 1529ء میں ہونے والے محاصرے کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسرا محاصرہ جنگ ویانا کہلاتا ہے۔

یہ محاصرے یورپ کی مسیحی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ جس طرح بلاط الشہداء میں شکست سے مغربی یورپ میں مسلم پیش قدمی رک گئے بالکل اسی طرح محاصرہ ویانا میں ناکامیاں وسطی یورپ میں مسلم پیش رفت کو روکنے کا باعث بنیں۔ دونوں جنگیں مسیحی یورپ کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں اس امر کا فیصلہ ہوا کہ یورپ کا مستقبل مسیحیت ہوگا اسلام نہیں۔

ترکوں کی جانب سے کیے گئے ویانا کا پہلا محاصرہ سلطان سلیمان اعظم کے دور میں جبکہ دوسرا محاصرہ سلطان محمد چہارم کے دور میں ہوا۔ پہلے محاصرے کی ناکامی کی وجہ اہلیان ویانا کی بے مثال شجاعت اور بہادری اور موسم کی خرابی تھی جبکہ دوسرے محاصرے کی ناکامی کی وجہ ترک صدر اعظم قرہ مصطفٰی پاشا کی نا اہلی تھی جس کے باعث ترکوں کو جنگ میں بد ترین شکست ہوئی۔

ویانا کا پہلا محاصرہ[ترمیم]

عثمانیوں نے ویانا کا پہلا محاصرہ 1529ء میں سلطان سلیمان قانونی کے عہد میں کیا جب چارلس پنجم جرمنی، اسپین اور آسٹریا کا حکمران تھا اور اس کا بھائی آرک فرڈیننڈ حکومت آسٹریا کے لیے مقرر تھا۔ آسٹریا کا شہنشاہ چارلس پنجم اس وقت یورپ کا سب سے بڑا فرماں روا تھا وہ اسپین، نیدرلینڈ، سسلی اور جرمنی کی مملکتوں کا تنہا۔الک تھا محاصرہ ویانا کے وقت وہ اٹلی میں فرانسس اول ، شاہ فرانس سے جنگ میں مصروف تھا اس لیے ترکوں کے خلاف اپنی فوج نہ بھیج سکا اور آسٹریا کو اپنی فوج پر اکتفا کرنا پڑا محاصرہ 27 ستمبر سے 14 اکتوبر تک جاری رہا، مگر ترک اسے فتح نہ کر سکے کریسی نے لکھا محاصرہ کی ناکامی کی وجہ موسم کی شدت جس کے ترک عادی نہ تھے اور دوسرا ینی چری کی شرکسی تھی جو موسم میں حوصلہ چھوڑ بیٹھے، یہ یورپ کے دروازے پر پہلی دستک تھی جو ناکام ثابت ہوئی، چنانچہ سلیمان نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلے گئے، ( بہ حوالہ سلطنت عثمانیہ جلد اول صفحہ 173 تحریر عرفان علی عزیز)

شہر کے محاصرے کے لیے ترک فوج ستمبر 1529ء میں ویانا کی دیواروں تلے پہنچی۔

اسباب[ترمیم]

  1. ہنگری میں بڈاپسٹ کی فتح کے بعد سلیمان نے جان زاپولیا کو وہاں حکمران مقرر کیا لیکن اس سے ہنگری میں خانہ جنگی ہوئی جس میں شہنشاہ چارلس کے بھائی آرک بوک فرڈیننڈ نے تخت کا دعوی کیا اور زاپولیا سے جنگ کر کے اس سے یہاں کی حاکمیت چھین لی اور زاپولیا کو ملک سے باہر کر دیا۔ زاپولیا نے سلیمان سے مدد مانگی اور سلطان نے مدد فراہم کر کے زاپولیا کو دوبارہ تخت پر بٹھایا۔ یہ واقعہ سلطان اور فرڈیننڈ کے درمیان تعلقات کی خرابی کا باعث بنا۔ اور تعلقات کی یہی خرابی آسٹریا کی جانب توجہ کا باعث بنی۔
  2. فتح ہنگری سے عثمانی سرحد آسٹریا سے مل گئی تھی اس لیے سلیمان کا اس جانب توجہ کرنا ضروری تھا۔
  3. سلیمان جب آسٹریا کی جانب متوجہ ہوا تو اس نے پیش قدمی کے طور پر اپنے فوجی دستوں کو "لٹیروں" کے طور پر بے لگام چھوڑ دیا۔ ان دستوں سے ہر علاقے میں زبردست تباہی پھیلائی اور کئی شہروں کو فتح کیا۔ اس پیش قدمی اور ابتدائی فتوحات سے نہ صرف عثمانی افواج کا حوصلہ بڑھا بلکہ ان کی ہیبت میں بھی اضافہ ہوا۔ اور یہی ابتدائی فتوحات ویانا کے محاصرے کا سبب بنیں۔

اہل ویانا کی دفاعی تیاریاں[ترمیم]

ترکوں کی پیش قدمی کی خبر سنتے ہی آسٹریا اپنی دفاعی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ ابتدا میں اہل ویانا نے اپنی تمام ممکن کوششیں کر کے زیادہ سے زیادہ فوج اکٹھی کی اور ہر دسویں شخص کو فوجی خدمت کے لیے طلب کیا گیا اور ہمسایہ ریاستوں سے بھی فوجی امداد طلب کی گئی۔ شہر کے دفاعی استحکامات پرانے اور انتہائی بوسیدہ تھے شہر کی فصیل بمشکل چھ فٹ موٹی تھی اور باہر کی دفاعی باڑھ کمزور تھی۔ اسے مضبوط بنانے کے لیے فصیل کے قریب واقع تمام مکانات گرا دیے گئے اور کمزور اور ناقابل مرمت مقامات پر خندق کھود کر اس کے گرد ایک مضبوط باڑھ قائم کر دی گئی۔ شہر کے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ دفاع کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے شہر کے تمام نواحی علاقے تباہ کر دیے گئے تاکہ محاصرہ کرنے والی ترک فوج گرد و نواح سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ غرض اہل ویانا نے دفاع کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ شہر کو ترکوں سے بچا سکیں۔

محاصرہ[ترمیم]

آسٹریا کی بھرپور کوششوں کے باوجود سلیمان قانونی نے 27 ستمبر 1529ء ویانا کا محاصرہ کر لیا اور عظیم شکر کے ہزارہا خیمے شہر کے باہر نصب کر دیے گئے۔ محاصرے کے لیے 2 لاکھ عثمانی فوجی شہر کے باہر موجود تھے جبکہ دریائے ڈینیوب کی جانب 400 ترک جہاز بھی شہر کے گرد حصار ڈالے ہوئے تھے۔

ویانا پہنچنے سے قبل راستے میں بارش اور راستوں کی خرابی کے باعث ترک اپنی تمام بھاری توپیں چھوڑ آئے تھے اس لیے اب وہ شہر پر گولہ باری نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم انھوں نے شہر پر قبضے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن اہل شہر نے شجاعت و بہادری سے تمام حملوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور ترک شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ تین دن بعد حتمی حملے کا فیصلہ ہوا اور کامیابی کی صورت میں انعامات و اکرامات کی بارش کا اعلان کیا گیا اور ینی چری اور دیگر ترک دستے شہر پر آخری وار کے لیے آگے بڑھے لیکن پوری قوت سے کیا گیا یہ حملہ بھی ناکام رہا اور سلیمان کو بالآخر 14 اکتوبر 1529ء کو شہر کا محاصرہ اٹھانا پڑا اور ترک فوج نامراد واپس لوٹ آئی۔ یہ وسطی یورپ کی تاریخ کا یادگار ترین دن تھا جب عثمانی طوفان کی موجیں ویانا کی دیواروں سے ٹکرا کر ہمیشہ کے لیے واپس آ گئیں اور پھر عثمانیوں کے قدم کبھی اس شہر کی فصیل سے آگے نہ بڑھ سکے۔

ناکامی کے اسباب[ترمیم]

ویانا کا پہلا محاصرہ 27 ستمبر سے 14 اکتوبر 1569ء تک جاری رہا۔ اس محاصرے کے لیے سلیمان اعظم نے انتہائی ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا لیکن آخر کار چند وجوہات کی بنا پر اسے یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔

مغربی مورخین کے مطابق ترکوں کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں حتٰی کہ ینی چری نے بھی دل برداشتہ ہو کر حملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ناکامی کی ایک اہم ترین وجہ یہ تھی کہ ترک افواج ایک طویل عرصے سے بر سر پیکار تھیں اور ویانا تک پہنچنے کے لیے انھیں طویل سفر طے کرنا پڑا تھا اور محصورین کی بھرپور شجاعت نے ان کے رہے سہے حوصلے بھی پست کر دیے اور بالآخر سلیمان کو محاصرے کو مزید طول نہ دینے کا فیصلہ کر کے اٹھانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

محاصرہ اٹھانے کی ایک وجہ سرد موسم کا قریب آ جانا تھا کیونکہ سردی و برف باری میں محاصرے کا جاری رکھ پانا بالکل ممکن نہ تھا اور سلیمان موسم کی خرابی سے قبل دارالحکومت واپسی چاہتا تھا۔

اہل ویانا نے شہر کی دفاع کی بھرپور تیاریاں کی تھیں اور وہ کسی قیمت پر شہر کو عثمانیوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس جذبے نے شہر کے دفاع کو عثمانیوں کی توقعات سے کہیں زیادہ مضبوط بنا دیا تھا۔

ینی چری کی سرکشی بھی محاصرہ اٹھانے کی اہم وجہ تھی۔ اصل میں سلیمان کے ابتدائی عہد میں ینی چری مصر میں بغاوت کر بیٹھے تھے اور سلیمان ان کی سرکشی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اس لیے اس نے حالات مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے محاصرہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

ناکامی میں ایک فیصلہ کن کردار اہلیان شہر کی قسمت کا بھی تھا کیونکہ راستے میں بارش کے باعث ترک اپنی بڑی توپیں نہ لا سکتے تھے جو یقیناً جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتیں اور اہل ویانا کے دفاع کے پرخچے اڑا دیتیں دوسری جانب موسم کی شدت اور خرابی بھی حملہ آور فوج کے حوصلے پست کرنے کا باعث بنی۔

ویانا کا دوسرا محاصرہ[ترمیم]

عہد سلیمانی میں محاصرہ ویانا کی ناکامی کے بعد 1628ء میں محمد چہارم کے دور میں ویانا کا دوسرا محاصرہ کیا گیا جس کی قیادت صدر اعظم قرہ مصطفٰی پاشا نے کی۔ اس محاصرے کے دوران ترکوں کو بد ترین شکست ہوئی اور اس شکست کے ساتھ ہی وسطی یورپ میں ان کی پیش قدمی ہمیشہ کے لیے رک گئی بلکہ یہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Stanford J. Shaw (29 اکتوبر 1976)۔ History of the Ottoman Empire and Modern Turkey۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 93۔ ISBN 978-0-521-29163-7۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2011 
  2. Turnbull says the garrison was "over 16,000 strong". The Ottoman Empire, p 50; Keegan and Wheatcroft suggest 17,000. Who's Who in Military History, p 283; Some estimates are just above 20,000, for example: "Together with Wilhelm von Roggendorf, the Marshal of Austria, Salm conducted the defense of Vienna with 16,000 regulars and 5,000 militia." Dupuy, Trevor, et al., The Encyclopedia of Military Biography, p 653.
  3. Turnbull suggests Suleiman had "perhaps 120,000" troops when he reached Osijek on 6 August. The Ottoman Empire, p 50; Christopher Duffy suggests "Suleiman led an army of 125,000 Turks". Siege Warfare: Fortresses in the Early Modern World 1494–1660, p 201. For higher estimates, see further note on Suleiman's troops.
  4. Turnbull, Stephen. The Ottoman Empire 1326–1699. New York: Osprey, 2003.pg 51