توریہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

توریہ کا معنی چھپانا اور کنایہ کرنا ہے۔
ایسا لفظ یا فعل جس کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر دوسرا معنی مراد لیا جائے جو صحیح ہے۔ مثلاً کسی کو کھانے کے لیے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھا لیا۔ اس کے ظاہر معانی یہ ہیں کہ اس وقت کا کھانا کھا لیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے۔[1]

معنی کی تحقیق[ترمیم]

توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہر معانی ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معانی مراد لیے جو صحیح ہیں، ایسا کرنا بلا حاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے۔ علامہ زبیدی لکھتے ہیں ’’ وری الخبر توریہ‘‘ کا معنی ہے : اصل خبر کو چھپا کر کچھ اور ظاہر کیا‘ حدیث میں ہے کہ جب آپﷺ سفر کا ارادہ کرتے تو سفر کو چھپا کر یہ وہم ڈالتے کہ آپ کسی اور چیز کا ارادہ کر رہے ہیں۔[2]
علامہ تفتازانی توریہ کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ توریہ کو ابہام بھی کہتے ہیں اور اس کی تعریف یہ ہے کہ "ایک لفظ کے دو معانی ہوں : قریب اور بعید‘ اور بولنے والا کسی خفی قرینہ کی بنا پر اس لفظ کا بعید معنی مراد لے اور مخاطب اس سے قریب سمجھے"مطلب یہ کہ بولنے والا باطنی معنی مراد لے رہا ہو اور مخاطب کو ظاہری معنی سمجھ میں آ رہا ہو ۔[3]

توریہ احادیث میں[ترمیم]

امام بخاری روایت کرتے ہیں
ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین (ظاہری) جھوٹ بولے۔[4]
اس حدیث میں توریہ پر جھوٹ کا اطلاق کیا گیا ہے کیونکہ وہ ظاہرا اور صورۃ جھوٹ ہوتا ہے حقیقتہ جھوٹ نہیں ہوتا۔ قرآن اور حدیث میں تعریض اور توریہ کی بہ کثرت مثالیں ہیں : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’ فقال انی سقیم (الصفت : 89)حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : میں بیمار ہوں
سقیم کا قریب معنی ہے : جسمانی بیمار اور بعید معنی ہے : روحانی بیمار‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جسمانی بیمار نہ تھے‘ انھوں نے اس لفظ سے توریہ کرکے روحانی بیماری مراد لی‘ یعنی قوم کی بت پرستی کی وجہ سے ان کی روح بیمار تھی یا مستقبل میں بیمار ہونا مراد لیا۔
’’ قالوا ءانت فعلت ھذا بالھتنا یابرھیم قال بل فعلہ کبیرھم ھذا فسئلوھم ان کانوا ینطقون (الانبیاء : 63۔ 62) انھوں نے کہا : اے ابراہیم! کیا آپ نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : بلکہ ان کے اس بڑے (بت) نے یہ کام کیا ہے‘ اگر یہ بولتے ہیں تو تم ان سے پوچھ لو
اس آیت میں ’’ کبیرھم ھذا‘‘ کا قریب معنی ہے : اس بڑے بت نے‘ اور اس کا بعید معنی ہے : قوم کے اس بڑے شخص نے‘ لوگوں نے یہی سمجھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس بڑے بت نے باقی بتوں کو توڑا ہے‘ حالانکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ قوم کے اس بڑے شخص یعنی خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کو توڑا ہے اور آپ نے اس بڑے بت کی طرف اسناد کا ابہام اس لیے کیا ہے کہ ان کی قوم خود کہے کہ یہ بت تو ہل جل بھی نہیں سکتے‘ بتوں کو کس طرح توڑ سکتے ہیں اور ان کے خلاف حجت قائم ہو جائے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں :
ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سارہ ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں گئے‘ اس بادشاہ کو بتایا گیا کہ اس ملک میں ایک شخص آیا ہے‘ اس کے ساتھ ایک عورت ہے جو تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت ہے بادشاہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلوایا اور پوچھا کہ یہ عورت کون ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : یہ میری بہن ہے۔
’’ اخت‘‘ کے دو معنی ہیں‘ قریب معنی ہے : نسبی بہن اور بعید معنی ہے : دینی بہن‘ بادشاہ نے اس لفظ سے نسبی بہن سمجھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دینی بہن کا ارادہ کیا اور یہ توریہ ہے۔
امام بخاری روایت کرتے ہیں
انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر ایک شخص نے سواری طلب کی‘ آپ نے فرمایا : میں تم کو اونٹ کے بچہ پر سوار کروں گا‘ اس شخص نے کہا : یا رسول اللہ! میں اونٹ کے بچے کا کیا کروں گا‘ آپ نے فرمایا : جو اونٹ پیدا ہوتا ہے وہ اونٹ کا بچہ ہی ہوتا۔[5]
امام بخاری روایت کرتے ہیں : انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ کا بیٹا فوت ہو گیا‘ انھوں نے (بیوی سے ) کہا : لڑکے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے جو کہا کہ ’’بیٹا پر سکون ہے اور مجھے امید ہے کہ اس کو راحت مل گئی‘‘ اس کا قریب معنی یہ تھا کہ اس کو بیماری سے شفا مل گئی ہے اور بعید معنی یہ تھا کہ وہ فوت ہو گیا اور اس کو ابدی راحت مل گئی ہے‘ام سلیم نے اس معنی کا ارادہ کیا تھا کیونکہ ابوطلحہ اسی وقت سفر سے آئے تھے اور وہ ان کو آتے ہی کوئی تکلیف دہ بات سنانا نہیں چاہتی تھیں‘ اس لیے انھوں نے صراحۃ یہ نہیں کہا کہ وہ فوت ہو گیا اور توریہ سے کلام کیا۔
امام ترمذی روایت کرتے ہیں
ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ ہم سے خوش طبعی کرتے ہیں‘ آپ نے فرمایا : میں حق کے سوا اور کچھ نہیں کہتا۔[6]

توریہ فقہا کی نظر میں[ترمیم]

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
"غرض صحیح کے لیے توریہ اور تعریض جائز ہے مثلا مزاح میں‘ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی (یعنی بڑھیا بہ حیثیت بڑھیا نہیں جائے گی بلکہ جوان ہو کر جائے گی)‘ نیز فرمایا : تیرے شوہر کی آنکھ میں سفیدی ہے‘ نیز فرمایا : ہم تم کو اونٹ کے بچہ پر سوار کریں گے (کیونکہ ہر اونٹ کسی اونٹ کا بچہ ہوتا ہے) [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بہارشریعت، ج3،حصہ16،ص518
  2. تاج العروس ج 10 ص 389‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ‘ مصر
  3. مختصر المعانی ص 457، مطبوعہ میرمحمد کتب خانہ‘ کراچی
  4. صحیح بخاری ج 1 ص‘ 473 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع‘ کراچی
  5. الادب المفروص 77‘ مطبوعہ مکتبہ اثریہ‘ سانگلہ ہل
  6. جامع ترمذی ص 293۔ مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب‘ کراچی
  7. ردالمختار ج 5 ص 378‘ مطبوعہ مطبع عثمانیہ‘ استنبول