آندھرا پردیش تشنیل نو ایکٹ 2014
آندھرا پردیش تشنیل نو ایکٹ 2014 | |
---|---|
بھارتی پارلیمان | |
آندھرا پردیش تشنیل نو ایکٹ 2014 | |
Territorial extent | India |
نفاذ بذریعہ | لوک سبھا |
تاریخ منظوری | 18 فروری 2014 |
نفاذ بذریعہ | راجیہ سبھا |
تاریخ منظوری | 20 فروری 2014 |
تاریخ رضامندی | 1 مارچ 2014 |
تاریخ دستخط | 1 مارچ 2014 |
دستخط کنندہ | پرنب مکھرجی |
تاریخ آغاز | 2 جون 2014 |
تاریخ تنفیذ | 2 جون 2014 |
قانون سازی کی تاریخ | |
بل متعارف لوک سبھا | 13 فروری 2014 |
تاریخ اشاعت | 18 فروری 2014 |
متعارف کردہ بدست | میرا کمار |
راجیہ سبھا میں بل پیش ہوا | 20 فروری 2014 |
تاریخ اشاعت | 20 فروری 2014 |
متعارف کردہ بدست | پی جے کورین |
صورت حال: نامعلوم |
آندھرا پردیش تشکیل نو ایکٹ 2014 (انگریزی: Andhra Pradesh Reorganisation Act, 2014) ایک بھارتی قانون ہے جو بھارتی پارلیمنٹ نے 2014 میں منظور کیا۔ اس قانون کے تحت آندھرا پردیش کی ریاست کو دو الگ الگ ریاستوں، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں تقسیم کیا گیا۔ یہ قانون 2 جون 2014 کو نافذ ہوا، جس کے ساتھ ہی تلنگانہ بھارت کی 29ویں ریاست بن گئی۔[1]
پس منظر
[ترمیم]آندھرا پردیش کی تقسیم کی جڑیں تلنگانہ تحریک میں ہیں، جس کا آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا۔ تلنگانہ کے عوام نے ایک الگ ریاست کی تشکیل کے لیے جدوجہد کی تاکہ اپنی زبان، ثقافت اور وسائل کی حفاظت کر سکیں۔ کئیییی دہائیوں کے احتجاج کے بعد، 2013 میں بھارتی حکومت نے تلنگانہ کی تشکیل کے منصوبے کا اعلان کیا۔[2]
ایکٹ کی اہم شقیں
[ترمیم]آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ کی اہم شقیں درج ذیل ہیں:
- تلنگانہ کی تشکیل: آندھرا پردیش کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: آندھرا پردیش اور تلنگانہ۔ حیدرآباد کو تلنگانہ کا دارالحکومت قرار دیا گیا، جبکہ آئندہ 10 سال کے لیے یہ دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت رہا۔[3]
- ریاستوں کے وسائل کی تقسیم: پانی، بجلی، اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے اصول طے کیے گئے۔
- پبلک سروسز: ریاستی سرکاری ملازمین کو ان کی پسند کے مطابق دونوں ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔
- نئی یونیورسٹیاں اور ادارے: دونوں ریاستوں میں تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے گئے۔
سیاسی اور سماجی اثرات
[ترمیم]تلنگانہ کی تشکیل کے بعد، دونوں ریاستوں میں سماجی اور سیاسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ تلنگانہ نے اپنی الگ شناخت کو فروغ دیا، جبکہ آندھرا پردیش نے اپنا نیا دارالحکومت امراوتی بنانے پر توجہ مرکوز کی۔ تاہم، وسائل کی تقسیم اور پانی کے تنازعات دونوں ریاستوں کے درمیان مسائل کا باعث بنے۔[4]
تنازعات
[ترمیم]آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے درمیان کچھ اہم تنازعات درج ذیل ہیں:
- پانی کے وسائل: کرشنا اور گوداوری ندیوں کے پانی کی تقسیم ایک اہم مسئلہ رہا۔
- دارالحکومت: آندھرا پردیش کے نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول میں مسائل پیدا ہوئے۔
- ملازمین کی تقسیم: ریاستی ملازمین کے لیے دو ریاستوں کے درمیان نقل و حرکت ایک متنازع مسئلہ رہی۔[5]
نتیجہ
[ترمیم]آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ 2014 بھارتی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس کے ذریعے بھارت میں ریاستوں کی تنظیم نو کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اگرچہ اس عمل سے کئیییی چیلنجز پیدا ہوئے، دونوں ریاستیں اپنی الگ شناخت اور ترقی کی طرف گامزن ہیں۔[6]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Andhra Pradesh Reorganisation Act 2014"۔ India Code۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
- ↑ "The Story of Telangana"۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
- ↑ "Division of Andhra Pradesh"۔ Business Standard۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
- ↑ "Post-Bifurcation Challenges"۔ The Hindu Business Line۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
- ↑ "Disputes Between Andhra Pradesh and Telangana"۔ Financial Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
- ↑ "Impact of Andhra Pradesh Reorganisation Act"۔ Down to Earth۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
بیرونی روابط
[ترمیم]- Bill on the Official site (archived)
- As introduced in LOK SABHA Bill No. 8 of 2014 (PDF)
- AS PASSED BY LOK SABHA ON 18-02-2014 Bill No. 8-C of 2014 (PDF)۔ آرکائیو شدہ 27 مارچ 2014 بذریعہ وے بیک مشین۔
- Reorganization Andhra Pradesh