مندرجات کا رخ کریں

آندھرا پردیش تشنیل نو ایکٹ 2014

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آندھرا پردیش تشنیل نو ایکٹ 2014
بھارتی پارلیمان
آندھرا پردیش تشنیل نو ایکٹ 2014
Territorial extentIndia
نفاذ بذریعہلوک سبھا
تاریخ منظوری18 فروری 2014
نفاذ بذریعہراجیہ سبھا
تاریخ منظوری20 فروری 2014
تاریخ رضامندی1 مارچ 2014
تاریخ دستخط1 مارچ 2014
دستخط کنندہپرنب مکھرجی
تاریخ آغاز2 جون 2014
تاریخ تنفیذ2 جون 2014
قانون سازی کی تاریخ
بل متعارف لوک سبھا13 فروری 2014
تاریخ اشاعت18 فروری 2014
متعارف کردہ بدستمیرا کمار
راجیہ سبھا میں بل پیش ہوا20 فروری 2014
تاریخ اشاعت20 فروری 2014
متعارف کردہ بدستپی جے کورین
صورت حال: نامعلوم

آندھرا پردیش تشکیل نو ایکٹ 2014 (انگریزی: Andhra Pradesh Reorganisation Act, 2014) ایک بھارتی قانون ہے جو بھارتی پارلیمنٹ نے 2014 میں منظور کیا۔ اس قانون کے تحت آندھرا پردیش کی ریاست کو دو الگ الگ ریاستوں، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں تقسیم کیا گیا۔ یہ قانون 2 جون 2014 کو نافذ ہوا، جس کے ساتھ ہی تلنگانہ بھارت کی 29ویں ریاست بن گئی۔[1]

پس منظر

[ترمیم]

آندھرا پردیش کی تقسیم کی جڑیں تلنگانہ تحریک میں ہیں، جس کا آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا۔ تلنگانہ کے عوام نے ایک الگ ریاست کی تشکیل کے لیے جدوجہد کی تاکہ اپنی زبان، ثقافت اور وسائل کی حفاظت کر سکیں۔ کئیییی دہائیوں کے احتجاج کے بعد، 2013 میں بھارتی حکومت نے تلنگانہ کی تشکیل کے منصوبے کا اعلان کیا۔[2]

ایکٹ کی اہم شقیں

[ترمیم]

آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ کی اہم شقیں درج ذیل ہیں:

  • تلنگانہ کی تشکیل: آندھرا پردیش کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: آندھرا پردیش اور تلنگانہ۔ حیدرآباد کو تلنگانہ کا دارالحکومت قرار دیا گیا، جبکہ آئندہ 10 سال کے لیے یہ دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت رہا۔[3]
  • ریاستوں کے وسائل کی تقسیم: پانی، بجلی، اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے اصول طے کیے گئے۔
  • پبلک سروسز: ریاستی سرکاری ملازمین کو ان کی پسند کے مطابق دونوں ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔
  • نئی یونیورسٹیاں اور ادارے: دونوں ریاستوں میں تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے گئے۔

سیاسی اور سماجی اثرات

[ترمیم]

تلنگانہ کی تشکیل کے بعد، دونوں ریاستوں میں سماجی اور سیاسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ تلنگانہ نے اپنی الگ شناخت کو فروغ دیا، جبکہ آندھرا پردیش نے اپنا نیا دارالحکومت امراوتی بنانے پر توجہ مرکوز کی۔ تاہم، وسائل کی تقسیم اور پانی کے تنازعات دونوں ریاستوں کے درمیان مسائل کا باعث بنے۔[4]

تنازعات

[ترمیم]

آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے درمیان کچھ اہم تنازعات درج ذیل ہیں:

  • پانی کے وسائل: کرشنا اور گوداوری ندیوں کے پانی کی تقسیم ایک اہم مسئلہ رہا۔
  • دارالحکومت: آندھرا پردیش کے نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول میں مسائل پیدا ہوئے۔
  • ملازمین کی تقسیم: ریاستی ملازمین کے لیے دو ریاستوں کے درمیان نقل و حرکت ایک متنازع مسئلہ رہی۔[5]

نتیجہ

[ترمیم]

آندھرا پردیش تنظیم نو ایکٹ 2014 بھارتی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس کے ذریعے بھارت میں ریاستوں کی تنظیم نو کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اگرچہ اس عمل سے کئیییی چیلنجز پیدا ہوئے، دونوں ریاستیں اپنی الگ شناخت اور ترقی کی طرف گامزن ہیں۔[6]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Andhra Pradesh Reorganisation Act 2014"۔ India Code۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
  2. "The Story of Telangana"۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
  3. "Division of Andhra Pradesh"۔ Business Standard۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
  4. "Post-Bifurcation Challenges"۔ The Hindu Business Line۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
  5. "Disputes Between Andhra Pradesh and Telangana"۔ Financial Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03
  6. "Impact of Andhra Pradesh Reorganisation Act"۔ Down to Earth۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-03

بیرونی روابط

[ترمیم]