ابن قولویہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابن قولویہ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش قم  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 978ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد کاظمیہ،  بغداد،  عراق  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم،  محدث،  فقیہ،  مورخ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابن قولویہ قمی (وفات: 367ھ/ 978ء) شیعی محدث، فقیہ تھے۔ابن قولویہ شیعی محدثین شیخ ابن بابویہ قمی اور الکلینی کے استاد ہیں۔ابن قولویہ اپنے زمانے کی ایک جانی پہچانی علمی شخصیت تھے۔ان سے منقول روایات آج تک حدیثی مجوعوں میں ذکر ہوتی ہیں اور ان سے استناد کیا جاتا ہے ۔ شیعہ علما اور فقہا ان کے خاص احترام کے قائل ہیں اور ان کا بہت سے راویوں سے احادیث نقل کرنا ان راویوں کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے ۔

سوانح[ترمیم]

نام جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی بن مسرور بن قولِوَیْہْ قمی ہے۔ ابن قولویہ قمی کے نام سے شہرت پائی جبکہ کنیت ابو القاسم ہے۔ غالباً قم میں پیدا ہوئے۔ سنہ پیدائش معلوم نہیں ہو سکا۔ بچپن سے ہی حصول علم کے لیے اپنے باپ اور بھائی کے درس میں حاضر ہوتے تھے جن کا شمار شیعہ راویوں میں ہوتا تھا۔ 341ھ مطابق 952ء میں ابن قولویہ نے تحصیل علم کے لیے مصر کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے علما سے استفادہ کیا۔ امام ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ محمد بن سلیم صابونی نے مصر میں ان سے حدیث نقل کی ہے۔[1]

وفات[ترمیم]

ابن قولویہ کی وفات 367ھ مطابق 978ء میں بغداد میں ہوئی۔ اُن کی تدفین مشہد امام موسیٰ الکاظم معروف بہ الکاظمین میں کی گئی۔آفندی اصفہانی کا خیال ہے کہ ابن قولویہ قم میں مدفون ہیں۔[2]

تصانیف[ترمیم]

کامل الزیارات ابن قولویہ قمی کی مشہور تالیف ہے جس میں فضیلت زیارات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کے مزارات و مقابر کی زیارات کے متعلق روایات جمع کی گئی ہیں۔اسے الزیارات، جامع الزیارات اور کامل الزیارة کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔كامل الزيارات شیعہ منابع میں ایک اہم اور معتبر ترین روایات اور دعاؤں کے مجموعے کی حیثیت سے جانی جاتی ہے ۔

تعداد روایات[ترمیم]

شیعہ فقہ میں ابن قولویہ سے منقول روایات کی تعداد 500 ہے۔ سید ابو القاسم خوئی کی تحقیق کے مطابق 465 روایات میں اُن کا نام جعفر بن محمد بن جعفر بن موسیٰ اور 28 روایات میں اُن کا نام جعفر بن محمد بن قولویہ آیا ہے۔[3]

علما کی آراء[ترمیم]

  • علمائے رجال میں سے نجاشی کہتے ہیں: لوگ جس قدر بھی ان کی زیبائی ،علم اور فقہ کی تعریف کریں وہ اس سے کہیں برتر ہیں۔[4]
  • علامہ حلی نے لکھا ہے کہ: ابو القاسم حدیث و فقہ میں ذی ثقہ اور جلیل القدر شخصیت ہیں۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ابن حجر عسقلانی: لسان المیزان، جلد 2، صفحہ 125۔
  2. آفندی اصفہانی: ریاض العلماء، جلد 6، صفحہ 32۔
  3. سید ابو القاسم خوئی: معجم رجال الحدیث، جلد 5، صفحہ 67/68۔
  4. نجاشی: رجال نجاشی،  صفحہ 123۔
  5. علامہ حلی: خلاصۃ الاقوال، صفحہ 88۔