اکرام اللہ خان نیازی
اکرام اللہ خان نیازی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 اپریل 1922ء میانوالی |
وفات | 19 مارچ 2008ء (86 سال) لاہور |
شہریت | پاکستان |
زوجہ | شوکت خانم |
اولاد | عمران خان [1] |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
اس مضمون میں قواعد، انشا، ہجے اور املائی غلطیوں کو درست کرنے کی خاصی گنجائش ہے۔جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) ( |
انجینئر اکرام اللہ خان نیازی عمران خان کے والد ہیں اور ضلع میانوالی کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹر محمد عظیم خان نیازی ضلع میانوالی کی بہت بڑی اور نامور شخصیت تھی۔ اکرام اللہ خان نیازی کے چار بھائی ہیں، بڑے بھائی ریٹائرڈ کرنل فضل اللہ خان، میجر ظفر اللہ خان اور معروف قانون دان امان اللہ خان نیازی.
اکرام اللہ خان کو اپنے والد ڈاکٹر محمد عظیم خان نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان (برطانیہ) بھیجا وہاں انجینئری کے بعد انھوں نے آئی سی ایس کا امتحان نمایاں طور پر پاس کیا۔ پھر پاکستان آکر آئی سی ایس امتحان پاس کیا ان کی نوکری کا آغاز PWD سے ہوا۔ 1954ء میں بطور سپرنٹنڈنگ انجینئر ملتان ڈویژن تعینات ہوئے وہاں سے تبدیل ہوکر لاڑکانہ میں سپرنٹنڈنگ انجینئر PWD تعینات ہوئے وہاں سے وہ بطور چیف انجینئر پرموٹ ہو گئے۔ عمران خان کے خاندان میں امان اللہ خان نیازی پاکستان کے نامور مسلم لیگی رہنما تھے اور پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین کے عہدہ پر فائز رہے۔ جب انجینئر اکرام اللہ خان PWD کے چیف انجینئر بنے تو گورنر امیر محمد خان نے انھیں سیاسی مخالفت کی وجہ سے پریشان کرنا شروع کر دیا جس پر 1967ءمیں انجینئر اکرام اللہ خان نے چیف انجینئر PWD کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور ریپبلیکن انجینئری کارپوریشن کے نام سے ایک کمپنی بنائی جس کا دفتر سن لائٹ بلڈنگ لاہور کے چوتھے فلور پر قائم کیا۔ گورنر امیر محمد خان کی مخالفت کی وجہ سے انھوں نے سیم تھور کے خاتمہ کے سلسلے میں مشرقی پاکستان جاکر ٹھیکا جات لے کر کام شروع کیا۔ امیر محمد خان گورنر نے مشرقی پاکستان میں بھی ان کی مخالفت کی اور اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالقہیم کو کہا انجینئر اکرام اللہ خان کو پریشان کریں اور ان کے کاموں کے بل روک دیں جس پر انجینئر اکرام اللہ خان 1968ءمیں مشرقی پاکستان میں واپس پاکستان آ گئے۔ ان کی ری پبلکن انجینئری کارپوریشن میں واپڈا کے سابق چیئرمین انجینئر شاہ نواز خان انجینئر ڈاکٹر مبشر حسن سابقہ وزیر خزانہ بھی شامل تھے۔ 2019ء میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے عمران خان پر جھوٹا الزام لگایا کہ عمران خان کے والد انجینئر اکرام اللہ خان کو ذو الفقار علی بھٹو سابق وزیر اعظم نے محکمہ واپڈا میں ایکسین کے عہدہ سے بددیانتی میں نکال دیا، جب کہ ذو الفقار علی بھٹو تو 1971ءمیں وزیر اعظم پاکستان مقرر ہوئے اور PWDکے محکمہ میں چیف انجینئر کے عہدہ سے انجینئر اکرام اللہ خان نے استعفیٰ 1967ءمیں دے دیا تھا۔ انجینئر اکرام اللہ خان نے ذو الفقار علی بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے تین سے قبل محکمہ PWD کے محکمہ سے استعفیٰ دے دیا تھا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب انجینئر اکرام اللہ خان لاڑکانہ میں بطور چیف انجینئر PWD تعینات تھے تو ذو الفقار علی بھٹو محض ایک وکیل تھے۔
جس وقت ذو الفقار علی بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی بنانے کی تحریک کے سلسلے میں گرفتار ہوئے تو انھیں سنٹرل جیل میانوالی میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اپنے ساتھ ممتاز علی بھٹو کے بھائی عاشق علی بھٹو کے ہمراہ ذو الفقار علی بھٹو کی میانوالی سنٹرل جیل ملاقات کے لیے تشریف لائیں تو اکرام اللہ خان امان اللہ خان نیازی نے اپنے گھر میانوالی میں رہائش دی اور دوسرے دن صبح انھوں نے ذو الفقار علی بھٹو سے میانوالی جیل میں جاکر ملاقات کی۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی