جمیعت علمائے اسلام (ف)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

{{Infobox political party |name=جمعیت علما اسلام پاکستان |logo= |president=فضل الرحمٰن |leader1_title=Founder |leader1_name=مفتی محمود (founded جمعیت علماء اسلام پاکستان)
|founded=1988ء (1988ء) |predecessor=جمعیت علماء اسلام پاکستان |headquarters= [[ اسلام اباد، پاکستان[[ |student_wing= |youth_wing= |membership_year= |membership= |ideology=سیاست اسلامیہ
Clericalism
Social conservatism
قدامت پرستی |position=Far-right |national=متحدہ مجلس عمل |international= |affiliation1_title= |affiliation1= |colors=   Black & White |colorcode=#696969 |seats1_title=ایوان بالا پاکستان

|seats1=

5 / 104

|seats2_title=قومی اسمبلی پاکستان

|seats2=

15 / 342

|seats3_title=صوبائی اسمبلی بلوچستان

|seats3=

11 / 65

|seats5_title=صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا

|seats5=

16 / 124

|seats6_title=صوبائی اسمبلی سندھ

|seats6=

0 / 168

|seats7_title=پنجاب صوبائی اسمبلی

|seats7=

0 / 371

|seats8_title=گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی

|seats8=

1 / 33

|seats9_title=آزاد کشمیر اسمبلی

|seats9=

0 / 49

|website=www.juipak.org.pk

|symbol=

Book
Book

|flag= |country=Pakistan |footnotes= }} 1945ء میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے جمعیت علما اسلام کی بنیاد رکھی، جو انگریز سے آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کے لیے الگ مملکت کے حصول کے لیے کوشش کر رہی تھی۔ آخر کار 1947ء میں انگریز سے ہند کو آزادی ملی اور مسلمانان ہند کو پاکستان کی صورت میں الگ مملکت ملی۔ 1947ء کے قیام پاکستان سے لے کر آج تک جمعیت علما اسلام ملکی سیاست میں ایک اہم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور ملکی سیاست میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت جو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر 1974ء میں منتج ہوئی، اس کی قیادت کا سہرا بھی جمعیت علما اسلام کو جاتا ہے۔ 1977ء میں تحریک نفاذ مصطفٰی حضرت مولانا مفتی محمودؒکی قیادت میں ہوئی، جس میں پاکستان کی ساری مذہبی اور سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ پارلیمنٹ میں ذو الفقار علی بھٹو کے مقابلے میں ساری جماعتوں کی طرف سے متفقہ اپوزیشن لیڈر حضرت مولانا مفتی محمود رحمة اللہ علیہ تھے، جو 1970ء میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے، جن کے دور وزارت کی نمایاں خصوصیات حصب ذیل ہیں: 1. صوبے میں اسلامی اور مشرقی روایات کو قائم کرنے کے لیے عملی کام کیا۔ 2. شراب پر پابندی لگائی۔ 3. صوبے کی سرکاری زبان اردو کو قرار دیا۔ 4. سرکاری لباس اورسکول یونیفارم قمیض شلوار کو لازمی قرار دیا۔ 5. نصاب تعلیم میں عربی اور اسلامیات کو لازمی قرار دیا۔ 6. سود کی لعنت پر پابندی عائد کی۔ مولانا مفتی محمود ؒکے بعد 1984ء سے مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی قیادت میں جمعیت علما اسلام تاحال اپنا کردار اداء کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے 1988ء سے آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ میں اپنا جمہوری، آئینی، پارلیمانی کردار ادا کر رہی ہے۔ 1988ء سے آج تک جمعیت علما اسلام پاکستان کی سیاسی منظر پر سب سے بڑی سیاسی، مذہبی جماعت ہے۔ اس وقت جمعیت علما اسلام کے موجودہ سیٹ اپ میں قومی اسمبلی، سینٹ، بلوچستان اسمبلی، خیبر پختون خواہ اسمبلی اور گلگت، بلتستان اسمبلیوں میں ارکان کی مجموعی تعداد 50 کے قریب ہے۔ جمعیت علما اسلام کے اہداف: 1. مملکت پاکستان کی عوام کے ایمان اور عقیدے کا تحفظ۔ 2. مسلمانوں کی منتشر قوت کو جمع کر کے علما کرام کی رہنمائی میں اقامت دین اور اشاعت اسلام کے لیے پر امن جد و جہد کرنا۔ 3. شعائر اسلام اور مرکز اسلام یعنی حرمین شریفین کا تحفظ، پاکستان میں موجود مختلف اسلامی اداروں بشمول دینی مدارس، مسجد، دار الیتامی، مکتبات کی حفاظت کرنا۔ 4. قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں میں سیاسی، اقتصادی، معاشی اور مذہبی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنا اور اس کے مطابق مثبت عملی جد و جہد کرنا۔ 5. پاکستان میں اسلامی عادلانہ نظام حکومت کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا۔ 6. پاکستان میں جامع و عالمگیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لیے کوشش کرنا، جو پاکستانی عوام کے ایمان اور عقیدے کے موافق ہو، دینی اقدار اور اسلامی نظام کا تحفظ کرنا۔ 7. پاکستان کے موجودہ آئین کو تحفظ دینا اور خلاف اسلام قوانین کو اسلام کے موافق کرنا اور کسی بھی غیر اسلامی قانون سازی کو بننے کے راستے میں رکاوٹ بننا۔ 8. پاکستان کی حدود میں تقریر و تحریر و دیگر آئینی ذرائع سے باطل فتنوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور خلاف اسلام کاموں کی روک تھام کرنا۔ 9. مسلمانان عالم خصوصا پڑوسی اور قریبی اسلامی ممالک کے ساتھ مستحکم اور برادرانہ روابط استوار کرنا۔ 10. تمام دنیا کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعقات قائم کرنا۔

جے یو آئی (ف) کے نمایاں رہنما[ترمیم]

  • مولانا فضل الرحمٰن
  • مولاناعبدالغفورحیدری
  • سینیٹر طلحہ محمود
  • مولانا فتح اللہ
  • مولانا عبد الواسع
  • مولانا عطاءالرحمان
  • مفتی اسعدمحمود
  • عبد الرشید نعمانی
  • مولانا خالد سیف اللہ

اہم نکات[ترمیم]

  • حکومت کے انتظام و انصرام میں نفاذ شریعت کے خواہاں

درج ذیل شعبوں میں بہتری لانے کی خواہش:

  • تعلیم
  • صحت
  • ملازمت
  • معیشت اور اقتصادیات
  • تجارت
  • تنخواہ
  • زراعت
  • عدلتی نظام
  • انتظامیہ
  • ٹیکس
  • تعلقات عامہ
  • اقلیت
  • خارجہ پالیسی
  • حالات حاضرہ
  • اطلاعات اور مواصلات
  • دفاع
  • 22 اسلامی نکات
  • رفاعی ٹرسٹ

انتخابات 2008[ترمیم]

قومی اسمبلی کی 41 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ خیبر پختونخوا میں 29 نشستوں پر کامیابی ملی۔

انتخابات 2013[ترمیم]

قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے صرف 15 پر سبقت حاصل کر سکی۔

انتخابات 2018[ترمیم]

قومی اسمبلی کے 272 نشستوں میں سے صرف 16 نشستوں پر برتری حاصل کرسکی ۔

اہم سیاسی کارنامے[ترمیم]

  • مولانا فضل الرحمٰن افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کرانے کے حوالے سے بطور ثالث مشہور ہیں۔
  • اسی طرح، جے یو آئی (ف) نے حکومت پر طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے پر بھی دباؤ ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
  • مولانا فضل الرحمٰن پارلیمانی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین کے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ دائیں باوزں کی جماعت ہونے کی وجہ سے کشمیر پر واضح مؤقف رہا۔
  • مولانا فضل الرحمٰن بیان کر چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں کشمیر کے مسئلے کو ترحیج دینے کی ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی اور سفارتی مدد کا اعلان کرے۔
  • 2008 کے انتخابات میں جے یو آئی (ف) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ سیاسی اتحاد کے ذریعے وفاق میں حکومت بنائی اور دسمبر 2010 تک وفاقی کابینہ کا حصہ رہی۔
  • مولانا فضل الرحمٰن نے دسمبر 2017 کو وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا اور قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز کے خلاف مخالفت جاری رکھنے کی قسم کھائی۔

تنقید اور تنازعات[ترمیم]

  • جے یو آئی (ف) نے بھارت کو ‘زیادہ پسند کی جانے والی قوم’ کہلائے جانے کی حمایت کی اور اس کے حق میں دلائل دیے کہ اس طرح تاجربرادری کو فائدہ پہنچے گا۔
  • پارٹی کی پالیسی میں خواتین کے حقوق اورمعاشرے میں ان کے کردار کے حوالے سے متعدد حلقوں میں فساد کا باعث رہا ہے۔
  • جے یو آئی (ف) نے پارلیمانی کمیٹی کے سیشن برائے گھریلو تشدد کے بل کو پاکستان میں ‘مغربی ثقافت’ پھیلانے کی ایک سازش قرار دیا اور دھمکی دی کہ بل نے قانون کا درجہ اختیار کیا تو ملک گیر احتجاج ہوگا۔
  • پارٹی نے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کی سخت مخالفت کی لیکن اب کبھی کبھار حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کی ‘پرو امریکی پالیسی’ قرار دیتی ہے۔
  • 2002 کے انتخابات سے قبل پارٹی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ بنی۔ اس حوالے سے الزام لگایا جاتا ہے کہ انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے ایم ایم اے کی بنیاد رکھی تھی۔
  • ایم ایم اے نے 2003 میں پرویز مشرف کی حمایت میں آکر 17ویں ترمیم منظور کرائی اور یوں صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔
  • بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے وزیر اعلیٰٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے مطالبہ کیا کہ وہ رواں برس 20 مئی سے قبل منصوبہ مکمل کریں ورنہ جے یو آئی (ف) صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرے گی۔

اہداف[ترمیم]

جمعیت علما اسلام کے اہداف حسب ذیل ہیں،

1. مملکت پاکستان کی عوام کے ایمان اور عقیدے کا تحفظ۔

2. مسلمانوں کی منتشر قوت کو جمع کر کے علما کرام کی رہنمائی میں اقامت دین اور اشاعت اسلام کے لیے پر امن جد و جہد کرنا۔

3. شعائر اسلام اور مرکز اسلام یعنی حرمین شریفین کا تحفظ، پاکستان میں موجود مختلف اسلامی اداروں بشمول دینی مدارس، مسجد، دار الیتامی، مکتبات کی حفاظت کرنا۔

4. قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں میں سیاسی، اقتصادی، معاشی اور مذہبی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنا اور اس کے مطابق مثبت عملی جد و جہد کرنا۔

5. پاکستان میں اسلامی عادلانہ نظام حکومت کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا۔

6. پاکستان میں جامع و عالمگیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لیے کوشش کرنا، جو پاکستانی عوام کے ایمان اور عقیدے کے موافق ہو، دینی اقدار اور اسلامی نظام کا تحفظ کرنا۔

7. پاکستان کے موجودہ آئین کو تحفظ دینا اور خلاف اسلام قوانین کو اسلام کے موافق کرنا اور کسی بھی غیر اسلامی قانون سازی کو بننے کے راستے میں رکاوٹ بننا۔

8. پاکستان کی حدود میں تقریر و تحریر و دیگر آئینی ذرائع سے باطل فتنوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور خلاف اسلام کاموں کی روک تھام کرنا۔

9. مسلمانان عالم خصوصا پڑوسی اور قریبی اسلامی ممالک کے ساتھ مستحکم اور برادرانہ روابط استوار کرنا۔

10. تمام دنیا کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعقات قائم کرنا۔

حوالہ جات[ترمیم]