حدیث زیارت اربعین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

طبری اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: عن عطیّة العوفی: خَرَجتُ مَعَ جابِرِ بنِ عَبدِ اللّه ِ الأَنصارِیِّ زائِرَینِ قَبرَ الحُسَینِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبی طالِبٍ علیه السلام، فَلَمّا وَرَدنا کَربَلاَ دَنا جابِرٌ مِن شاطِئِ الفُراتِ فَاغتَسَلَ، ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزارٍ وَارتَدى بِآخَر، ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فیها سُعدٌ فَنَثَرَها عَلى بَدَنِه، ثُمَّ لَم یَخطُ خُطوَةً إلّا ذَکَرَ اللّه َ تَعالى. حَتّى إذا دَنا مِنَ القَبرِ قال: ألمِسنیهِ فَأَلمَستُهُ فَخَرَّ عَلَى القَبرِ مَغشِیّا عَلَیهِ فَرَشَشتُ عَلَیهِ شَیئا مِنَ الماءِ فَلَمّا أفاقَ قال: یا حُسَینُ ثَلاثا ثُمَّ قال: حَبیبٌ لا یُجیبُ حَبیبَهُ. ثُمَّ قال: وأنّى لَکَ بِالجَوابِ وقَد شُحِطَت أوداجُکَ عَلى أثباجِک، وفُرِّقَ بَینَ بَدَنِکَ ورَأسِک، فَأَشهَدُ أنَّکَ ابنُ خاتَمِ النَّبِیّین وَابنُ سَیِّدِ المُؤمِنین وَابنُ حَلیفِ التَّقوى وسَلیلِ الهُدى وخامِسُ أصحابِ الکِساءِ وَابنُ سَیِّدِ النُّقَباءِ وَابنُ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ النِّساءِ وما لَکَ لا تَکونُ هکَذا وقَد غَذَّتکَ کَفُّ سَیِّدِ المُرسَلین ورُبّیتَ فی حِجرِ المُتَّقین ورُضِعتَ مِن ثَدیِ الإِیمانِ وفُطِمتَ بِالإِسلام فَطِبتَ حَیّا وطِبتَ مَیِّتا غَیرَ أنَّ قُلوبَ المُؤمِنینَ غَیرُ طَیِّبَةٍ لِفِراقِک ولا شاکَّةٍ فِی الخِیَرَةِ لَکَ فَعَلَیکَ سَلامُ اللّه و رِضوانُهُ وأشهَدُ أنَّکَ مَضَیتَ عَلى ما مَضى عَلَیهِ أخوکَ یَحیَى بنُ زَکَرِیّا.

میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لیے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادر پہنا، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اور اپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ حسینؑ ابن علیؑ کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابر نے کہا: میرا ہاتھ قبر حسینؑ پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسینؑ پر رکھا۔ اس نے قبر حسینؑ ابن علیؑ کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبه) کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھر جابر خود جواب دیتا ہے کہ آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس کو جسم سے جدا کیا گیا ہے؟، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں اور آپ اس طرح کیوں نہ ہوں، کیونکہ خدا کے رسولؑ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپؑ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپؑ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے، اگرچہ مومنین آپ کی شہادت سے محزون ہیں۔ خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسولؑ خدا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی، جیسے یحییٰ بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

ثُمَّ جالَ بِبَصَرِهِ حَولَ القَبرِ وقال: السَّلامُ عَلَیکُم أیَّتُهَا الأَرواحُ الَّتی حَلَّت بِفِناءِ الحُسَینِ وأناخَت بِرَحلِهِ وأشهَدُ أنَّکُم أقَمتُمُ الصَّلاةَ وآتَیتُمُ الزَّکاةَ ، وأمَرتُم بِالمَعروفِ ونَهَیتُم عَنِ المُنکَرِ وجاهَدتُمُ المُلحِدین وعَبَدتُمُ اللّه َ حَتّى أتاکُمُ الیَقینُ. وَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالحَقِّ نَبِیّا لَقَد شارَکنا کُم فیما دَخَلتُم فیهِ. قالَ عَطِیَّةُ: فَقُلتُ لَهُ: یا جابِرُ ! کَیفَ ولَم نَهبِط وادِیا ولَم نَعلُ جَبَلاً ولَم نَضرِب بِسَیفٍ وَ القَومُ قَد فُرِّقَ بَینَ رُؤوسِهِم وأبدانِهِم، واُوتِمَت أولادُهُم و أرمَلَت أزواجُهُم ؟! فَقال: یا عَطِیَّةُ ! سَمِعتُ حَبیبی رَسولَ اللّه ِصلى الله علیه و آله یَقولُ: مَن أحَبَّ قَوما حُشِرَ مَعَهُم و مَن أحَبَّ عَمَلَ قَومٍ اُشرِکَ فی عَمَلِهِم وَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالحَقِّ نَبِیّا إنَّ نِیَّتی ونِیَّةَ أصحابی عَلى ما مَضى عَلَیهِ الحُسَینُ علیه السلام وأصحابُهُ خُذوا بی نَحوَ أبیاتِ کوفانَ۔ اس کے بعد جابر نے سید الشہداء علیہ السلام کے اطراف میں موجود قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ لوگوں پر اے پاکیزہ ہستیاں کہ آپ لوگوں نے حسینؑ ابن علیؑ علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا، ہم بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں، جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے۔ نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہے، لیکن ان لوگوں کے سروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں؟۔ جابر نے مجھے جواب دیا اے عطیہ! میں نے اپنے محبوب رسولؑ خدا سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی کسی گروہ کو چاہتا ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور ہوں گے اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نے محمدؑ مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ بھی وہی ہے، جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کا تھا۔ پھر اس کے بعد جابر نے کہا: میرا ہاتھ پکڑو اور مجھے کوفہ کی طرف لے چلو۔

فَلَمّا صِرنا فی بَعضِ الطَّریقِ قالَ: یا عَطِیَّةُ ! هَل اُوصیکَ وما أظُنُّ أنَّنی بَعدَ هذِهِ السَّفَرَةِ مُلاقیک؟ أحبِب مُحِبَّ آلِ مُحَمَّدٍ صلى الله علیه و آله ما أحَبَّهُم وأبغِض مُبغِضَ آلِ مُحَمَّدٍ ما أبغَضَهُم وإن کانَ صَوّاما قَوّاما، وَارفُق بِمُحِبِّ مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ ، فَإِنَّهُ إن تَزِلَّ لَهُ قَدَمٌ بِکَثرَةِ ذُنوبِهِ ثَبَتَت لَهُ اُخرى بِمَحَبَّتِهِم ، فَإِنَّ مُحِبَّهُم یَعودُ إلَى الجَنَّةِ ، ومُبغِضَهُم یَعودُ إلَى النّارِ. جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے: اے عطیہ! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں۔ اے عطیہ! آل محمدؑ کے چاہنے والوں سے محبت کرو، جب تک کہ وہ آل محمدؑ سے محبت اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمدؑ کے دشمنوں سے عداوت کرو، جب تک کہ وہ آل محمدؑ سے دشمنی کرتے ہیں، گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہو اور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمدؑ کے چاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو، کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی بوجھ کو برداشت نہ کر سکے، تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمدؑ کی محبت کی وجہ سے مضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے، جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارة المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62