ضمیر کا اسیر
Appearance
ضمیر کا اسیر (انگریزی: prisoner of conscience) ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جسے اس کی نسل، جنسی رجحان، مذہب، سیاسی خیالات کی وجہ سے قید و بند کی سزا چھیلنا پڑا ہو۔ یہ اصطلاح کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے جو تاحال قید میں ہوں یا جنہیں عدم تشدد کے طریقوں کے ذریعے اپنے باشعور طور پر قائم افکار کے اظہار کی وجہ سے سزاؤں یا معاندانہ رویے کا شکار ہونا پڑا ہے۔
زیادہ تر یہ اصطلاح انسانی حقوق ادارہ جات سے جڑی ہے اور اس کا اکثر استعمال ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ہوتا رہا ہے۔ اس اصطلاح کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے بانی پیٹر بینینسن نے 28 مئی 1961ء کے اپنے ایک مضمون ("بھولے بسرے قیدی") میں لندن کے اخبار دی ابزرور کے لیے وضع کیا۔
کچھ متنازع معاملات
[ترمیم]- 2005ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار کی طرف سے شائع کردہ کارٹون اور پھر 2015ء میں فرانسیسی زبان کے رسالے چارلی ہیبڈو کی اس کی دوبارہ اشاعت کرنے پر مسلمانوں اور یہ تنظیمیں سڑکوں پر آئی ہیں اور اس کا الٹا ہی اثر ہوتا آیا ہے۔ مغرب میں اس کو اظہار رائے پر حملہ کی صورت دیکر مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ کو بڑھکایا جاتا ہے۔[1] تاہم دوسری جانب مسلمانوں میں یہ شدید دلآزاری کے اظہار کے طور پر سمجھا گیا اور حالاں کہ کئی مسلمان حملوں اور تشدد کے مخالف تھے، تاہم وہ کارٹوںوں کو اظہار خیال کا ذریعہ یا اس حملے کے متاثرین کو ضمیر کے اسیر مقتولین قبول کرنے ہرگز بھی تیار نہیں تھے۔
- فقیر ایپی آزاد مملکت پختونستان کا حامی اور اس کے لیے کوشاں تھا۔ وہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے افغانستان میں پناہ گزیں ہو گیا۔پاکستان کے سفارتی دباؤ سے مجبور ہو کر 7 ستمبر 1948ء کو افغانستان نے ایپی فقیر کو ایک کھلی دھمکی دی کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہر قسم کی سرگرمیوں سے باز آ جائیں۔ اس کی وجہ سے 16 اپریل 1960ء کو دمہ کے مرض میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا مزار تحصیل دتہ خیل میں واقع ہے جہاں ان کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد آج بھی حاضری دیتی ہے۔[2] اس طرح دباؤ سے ایک آواز کے کچلنے کو بھی کچھ انسانی حقوق کے کارکن ضمیر کے اسیر شخص پر ظلم سے تعبیر کر رہے تھے۔