فقیر ایپی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فقیر ایپی1892 تا 1960ء) جن کا اصل نام مرزا علی خان تھا، شمالی وزیرستان کے ایک پشتون تھے۔ ان کے معتقدین ان کو حاجی صاحب کہتے تھے۔ آپ کی وفات 1960 کو دمے کی بیماری سے ہوئی

برطانیہ کے خلاف جہاد[ترمیم]

فقیر ایپی نے 1938ء سے لے کر 1947ء تک برطانوی سامراج کے خلاف گوریلا کارروائیاں جاری رکھیں

اور ان کی منصوبے خاک میں ملائے ۔ ایک وقت میں تو 40،000 برطانوی افواج بھی ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ صرف 1000 افراد اور معمولی اسلحہ کے باوجود انھوں نے گوریلا کارروائیاں کامیابی سے جاری رکھیں۔

فقیر ایپی کو انگریز بھی ایک قابل عزت دشمن اور اصول پرست شخص مانتے ہیں۔ انھوں نے موجودہ دور کے برخلاف کسی غیر ملکی طاقت کی مدد قبول نہ کی۔

15 اپریل 1938 میں ایک ہندو لڑکی رام کوری جس کا اسلامی نام اسلام بی بی رکھا گیا اس نے ایک مسلمان لڑکے سید امیر نور علی شاہ سے شادی کی جن کا تعلق بنوں سے تھا۔ اور پناہ لینے کے لیے وزیرستان آگئے طوری خیل قبائل نے انھیں پناہ دی

انگریزوں نے اپنے روایتی تعصب سے کام لیتے ہوئے طوری خیل قبائل اور مدہ خیل قبائل پر نہایت دباؤ ڈالا کہ اس لڑکی کو اپنے والدین کو واپس کیا جائے۔ کیونکہ لڑکی نابالغ ہے

پشتونوں نے کہا کہ لڑکی اپنی مرضی جرگہ کے سامنے بتائے اگر ایساں ہے تو ہم لڑکی کو واپس کر دیں گے

مگر انگریز خفیہ طور پر اس لڑکی کو اغوا کرنے میں کامیاب ہو گئے

بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے سید امیر نور علی شاہ کو گرفتار کر کے انگریزی قوانین کے مطابق 2 سال سزا دلوائی۔ اور جیل بیجھ دیا

اس سے وزیرستان میں آگ بھڑک اٹھی حاجی مرزا علی خان نے قوم طوری خیل قبائل کے سامنے اپنے جنگی عزائم رکھے اور لڑکی کی بے عزتی کا بدلہ لینے کا اعلان کیا حاجی مرزا علی خان نے اپنے خاندان طوری خیل کو جنگ پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر طوری خیل و مدہ خیل قبائل نے انگریز سے لڑنے سے انکار کر دیا

قوم سے مایوسی کے بعد اپ نے علما وزیرستان سے رجوع کیا

( مولانا قمرزمان دیوبندی امیر جمعیت علما ہند قبائل )اور (منتظم اعلی جمعیت علما ہند قبائل مولانا عبد الرحمن دیوبندی تور مولوی) نے گاؤں عیدک کے مقام پر ایک عوامی جرگہ (ملک رستم خان اور ملک شیر افضل خان ملک جلال خان و دیگر ) کی مدد سے منعقد کیا

عاقل عبید خیلوی کی تصنیف " تاریخ بنوں کے مطابق یہی رام کوری کا واقعہ اس تنظیم کے وجود کا مرکز بنا

مئی 1938 کو عیدک کے مقام پر دیوبندی علما و عمائدین اتمانزئی کی موجودگی میں تحریک ریشمی رومال اور جمعیت علما ہند قبائل کے اولین امیر مولانا قمرزمان دیوبندی نے وزیرستان کی سرزمین پر پہلا جہاد کا فتوی جاری کیا اور انگریز کے خلاف میدان جنگ میں اوتر گئے

مولانا قمرزمان دیوبندی نے اسی جرگہ میں ایک جنگی تنظیم بنائی جس کو " غازی " کا نام دیا گیا اور ایپی فقیر حاجی مرزا علی خان ، علما دیوبند کی بھرپور تائید سے جرگہ نے( تنظیم غازی) کے لیے ( ایپی فقیر حاجی مرزا علی خان کو امیر جب کہ مولانا عبد الرحمن دوبندی کو منتظم اعلی اف پختونستان منتخب کر لیا) دیگر میں مولانا ظاہر شاہ دوبندی کو پروپیگنڈا سکٹریری جب کہ ملک رستم خان ۔ ۔ ملک جلال کو خزانچی بنا دیا

اس کے بعد فقیر ایپی نے انگریزوں کے خلاف بڑی کارروائیاں کیں۔

1939میں ، برطانوی راج نے وزیرستان میں فقیر ایپی کو کچلنے کے لیے 40،000 سے زیادہ برٹش_ہندوستانی فوجی جس میں (زیادہ تر سکھ) بھیجے گئے

 یہ آپریشن جنوبی وزیرستان میں فوج کے قافلے کے خلاف  گھات لگائے ہوئے  حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے کیا گیا تھا جس میں 50 سے زیادہ  برطانوی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

1939 کے دوران ، سرحدی خطے میں قبائلی شورشوں اور چھاپوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا ۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے 15 نومبر 2001 کو ایک مضمون میں کہا تھا کہ برطانوی حکومت نے اس بغاوت سے نمٹنے اور ایپی کے فقیر کا سراغ لگانے کے لیے 40،000 سے زیادہ فوج تعینات کی اور 15 لاکھ ڈالر خرچ کیے تھے

لیکن یہ سب بیکار تھی

ناکامی کے بعد دسمبر تک ، برطانوی حکومت نے تمام فوجیں وزیرستان سے واپس اپنے چھاؤنیوں میں لے گئیں۔ برطانوی حکومت نے " بینیٹو " مسولینی کی سربراہی میں اٹلی کی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ فقیر ایپی کے لشکر کی جنگی صلاحیت کو بڑھا رہا ہے

  1. ڈیلی ہیرالڈ کی 16 اپریل 1938 کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ "اٹلی کا ڈکٹیٹر مسولینی صوبہ سرحد میں برطانوی حکومت کے خلاف قبائلی بغاوت کی سرپرستی کررہا ہے۔" لیکن کابل میں انٹیلیجنس نگرانی کے باوجود ، انگریزوں کو اطالوی ملوث ہونے کے درست ثبوت نہیں ملے ، پھر بھی یہ افواہیں جاری رہی
فقیر ایپی کی سربراہی میں قبائلی بغاوت 1947 تک جاری رہی 

جب دوسری جنگ عظیم اٹلی اور جرمنی کی اتحادیوں کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی

اس کے باوجود ، غازی 1938 کے مقابلے میں زیادہ متحد اور طاقتور بن کر ابھریں ۔ محسود ، وزیر ، بھٹنی اور داوڑ قبائل نے فقیر ایپی کے لشکروں کی مکمل حمایت کی۔

 1946 میں ایک بار پھر ، برطانوی وائسرائے نے قبائلی لشکروں سے نمٹنے کی کوشش کی ، لیکن آخر کار ، برطانوی "محاذوں پر فارورڈ پالیسی" ناکام ہو گئی۔
بہر حال ، فقیر ایپی  کی گوریلا پالیسی   اگست 1947 میں قیام پاکستان کے بعد بھی   جاری رہی ۔
21 جون 1947 کو پشتون قوم اور حاجی مرزا علی خان غازی تنظیم کے مجاہدین  نے پشتونوں کے مستقبل کے فیصلے کے لیے ضلع بنوں میں ایک  جرگہ کا اہتمام کیا جو خیبر پختون خواہ (اس وقت صوبہ سرحد) ہے۔  جرگہ نے ایک آزاد ریاست پشتونستان کی حمایت کی۔  فقیر ایپی نے جرگہ اور پشتونستان کے اعلان کی بھرپور حمایت کی۔  مزید یہ کہ قبائلی لشکروں نے قیام پاکستان کو برطانوی سامراج کا تسلسل قرار دیا۔
1948 میں ، فقیر ایپی نے دتہ خیل کا کنٹرول سنبھال لیا اور پشتونستان کی آزاد ریاست کے قیام کی طرف بڑھا۔  اس سلسلے میں ، انھوں نے علاقائی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے جن میں پنڈت نہرو اور شہزادہ سردار داؤد خان ، جو پشتونستان کے ایک حامی حمایتی ہیں
29 مئی 1949 کو ،  فقیر ایپی نے گورو یک ، شمالی وزیرستان میں ایک قبائلی جرگہ منعقد کیا اور پاکستان سے کہا کہ وہ پشتونستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرے۔  اپنے لشکروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ، پاکستان نے قبائلی بغاوت کو کمزور کرنے کے لیے ان کی محفوظ پناہ گاہوں پر بمباری کی حمایت کی۔  1953-54 میں ، پاک فضائیہ کے نمبر 14 اسکواڈرن نے میران شاہ ایئربیس سے ایک آپریشن کی قیادت کی اور   فقیر ایپی پر بھاری بمباری کی۔
طاقتور طاقت کے استعمال کے باوجود ، فقیر ایپی نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور بالآخر 16 اپریل 1960 کو ایک دمے کی بیماری سے وفات پاگئے 
 آج تک ، انھیں نوآبادیات اور استعمار کی افواج کے خلاف پشتون مزاحمت اور جدوجہد کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 
ترتیب صوفی ابرار بیتاب  _ حوالہ جات و دیگر مواد  (انڈین آفس لائبریری لندن )

مفصل واقعات[ترمیم]

حاجی مرزا علی خان جو بعد میں فقیر آف ایپی مشہور ہوئے قبیلہ طوری خیل وزیر سے تعلق رکھتے تھے

۔ وہ موضع ایپی میں ارسلا خان کے ہاں 1892/1898 میں پیدا ہوئے۔ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے

ابتدا ہی سے طبعیت میں سادگی ، درویشی اور خلوص پایا جاتا تھا۔

دینی شوق انھیں بنوں لے آیا 1928ء کو علاقہ نورڑ بنوں کے ایک دینی مدرسے میں حصول علم کے لیے داخل ہوئے۔

واقعہ نمبر 1 ۔ ایک دن شہر بنوں کی ایک مسجد (ٹانچی بازار) کے بڑے دروازے کے سامنے جم غفیر جمع تھی حاجی مرزا علی خان ادھر متوجہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ کسی غیر مسلم نے تحریر کردہ کلمہ طیبہ پر غلاظت ملی ہے وہ سمجھا کہ یہ ہنود اور عیسائیوں کی مشترکہ شرارت ہے جس پر یہ بہت دکھی ہوئے مگر کچھ نا کرسکے دل ان کا جذباتی پن کا شکار ہوا اور انقلاب ان کے اندر چنگاریاں مارنا شروع ہو گیا

واقعہ نمبر 2 ۔ 15 اپریل 1938 ء کے دوران اسلام بی بی کا واقعہ پیش آیا ۔ جس نے اس کو جھنجوڑ کے رکھ دیا یہ واقعہ ان کے لیے اس لیے بھی اہم تھا کیوں کہ لڑکی اور لڑکے دونوں نے وزیرستان بھاگ کر شادی کی اور ایپی فقیر کے قبیلہ طوری خیل قبائل کے ہاں پناہ لی تھی اب انگریز سرکار نے پورا دباؤ طوری و مدہ خیل قوم پر ڈالا کہ لڑکی حکومت کے حوالے کریں جس کے بعد طوری خیل قبائل انگریز سرکار کے سامنے بے بس ہوئے اور لڑکی انگریز سرکار کے حوالے کردی جس پر حاجی صاحب بہت ناراض اور دل برداشتہ ہوئے

فقیر ایپی بہت ٹھنڈے دل اور معتدل مزاج انسان تھے۔ وہ جلد اشتعال میں آنے والے انسان نہ تھے انھوں نے اس واقعے پر فوری جذباتی رد عمل نہ دکھایا۔ لڑکی انگریز سرکار کے حوالے کرنے بعد اپنے خاندان طوری خیل قوم کو سمجھایا کہ یہ ہمارے غیرت پر حملہ ہے اس کے خلاف ہمیں اوٹھ کھڑا ہونا چاہیے مگر طوری خیل و مدہ خیل قبائل نے انگریز سرکار کے سامنے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا حاجی مرزا علی خان انھیں دنوں نورڈ بنوں سے وزیرستان آئے تھے جب یہ واقعہ ہوا

انگریز سرکار نے بڑی چالاکی سے لڑکی والدین کے حوالے کی اور امیر نور علی شاہ کو گرفتار کرکے 2 سال سزا سنائی اور جیل بیجھ دیا

امیر نور علی شاہ کی گرفتاری اور لڑکی کی واپسی ،،، اب ان سے رہا نہ گیا۔ فیصلہ کیا کہ ان حالات میں جب اسلام ،، چادر اور چاردیواری ، انسانی حقوق کو حقیقی خطرہ لاحق ہو ۔ تو چپ سادھ لینا اور کچھ نہ کرنا جرم اور گناہ ہے۔ چنانچہ اسی لمحہ اپنے مسکن ایپی میں واپس ہوئے اپنے عزیز و اقارب کو اپنے عزائم اور ارادے سے آگاہ کیا

( سرزمین وزیرستان پر تحریک ریشمی رومال کے بعد ، دوسری اسلامی جنگی تنظیم غازی کی تشکیل نو مئی 1938ءمیں ہوئی)

حاجی مرزا علی خان کو خاندان کی جانب سے خاطرخواہ حمایت نا ملنے پر حاجی صاحب نے علما وزیرستان سے " رجوع کیا

جنھوں نے عیدک میرعلی کے مقام مدرسہ نظامیہ کے عقب میں ایپی فقیر کی تجویز پر علما وزیرستان و دیگر نے ایک عوامی جرگہ منعقد کیا اس جرگہ میں ایک جنگی تنظیم بنائی جس کو " غازی " کا نام دیا گیا

( جنگی تنظیم غازی کے پہلے رہبر معظم انقلاب )

حاجی مرزا علی خان عرف ایپی فقیر جنگی لشکر "" غازی "" کے پہلے سربراہ منتخب ہوئے جب کہ مولانا عبد الرحمن دیوبندی کو "" لشکر غازی ""کا منتظم اعلیٰ اف پختونستان بنا دیا گیا لشکر غازی کا مرکزی آفس گرویک میں بنایا گیا

جرگہ میں شریک علما وزیرستان و عمائدین نے اس انتخاب کی بھرپور تائید و حمایت کی اور ہر قسم کی جانی مالی قربانی کا یقین دلایا


( سرزمین وزیرستان پر پہلا جہادی فتوی )

منعقدہ جرگہ میں تحریک ریشمی رومال و جمعیت علما ہند قبائل کے امیر مولانا قمرزمان دیوبندی " مشر استاد " نے وزیرستان کے جید علما کرام و عمائدین کی موجودگی میں قبائلی سرزمین پر فرنگی کے خلاف مئی 1938 ء کو پہلا جہاد کا فتوی جاری کیا جس کی تائید وتوثیق جرگہ میں موجود علما کرام نے کی جس میں وزیرستان بھر کے جید دیوبندی علما موجود تھے تاریخی اعدادوشمار کے مطابق جرگہ میں 300 افراد سے زائد نے شرکت کی جن میں علما کرام و عمائدین سمیت بڑی تعداد میں عوام موجود تھے

اس کے بعد حاجی مرزا علی خان خیسور منتقل ہوئے انگریز حکام کے خلاف صف بندی کی تیاریاں شروع کر دی


( تنظیم میں غازیوں کی آمد )

۔ چند ایک غازی ان کے شریک محفل بلکہ شورش شریک محفل ہوئے اور غازی بننے کا اعلان کرتے گئے بہت جلد ان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا۔ پولیٹکل حکام نے ان کا اور تنظیم کے منتظم اعلی کے گھر جلانے کی کوشش کی مگر عیدک قوم نے چیغا کیا انڈین برٹش آرمی کا رستہ روکا

( 40 ایف سی آر کے تحت پہلی گرفتاری )

منتظم اعلی کے بڑھے بھائی اور رستم خان کے صاحبزادے اسکول ماسٹر نے 1938 ء کو " 20 پل " عیدک کے مقام پر ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا جس میں انھوں نے علما وزیرستان کے فتوے کے مطابق انگریزی سرکار سے جنگ کو جائز قرار دے دیا اور فقیر ایپی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ، گھروں کی بحرمتی پر انگریز سرکار کی ناپاک حرکت کو ناکام بنایا اور انگریز حکومت کو باز رہنے کا کہا ، آپ پیشے کے لحاظ سے ایک اسکول ماسٹر تھے مگر علما کے صحبت کا اثر ان پہ بہت گہرا تھا آپ مولانا قمرزمان دیوبندی سے جنون کی حد محبت و عقیدت رکھتے تھے اپ ایپی فقیر کے خاص دوستوں میں تھے اگر چہ تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا انگریزوں نے ماسٹر صاحب کے سپیچ کو بہت دل پہ لیا انگریز انٹیلجنس نے اپنی رپورٹ میں اس تقریر کو ( دا ڈینجر سپیچ آف 20 پل NWFP ) کا نام دیا اور 40 ایف سی آر کے تحت پہلی گرفتاری ان کی عمل میں لائی گئی بعد میں ان کو عمر قید کی سزا دی گئی آپ رحمۃ اللہ علیہ پہلے وزیرستانی ہے جن کا جنازہ جیل سے نکلا ۔

( تحریک کے سرکردہ شخصیات کی گھر مسماری )

اس واقعہ کے بعد فقیر ایپی کا طوری خیل میں ، مولانا قمرزمان دیوبندی کا گھر حیدر خیل میں ، مولانا عبد الرحمن دیوبندی کا گھر مماخیل میں اور دیگر رہنماو اور تحریک کے سرکردی شخصیات کے گھر انگریز سرکار نے اتمانزئی جرگہ کی موجودگی میں نذر آتش کر دیے

جو قیام پاکستان کے بعد اب تک قبائل میں انگریز کے 40 ایف سی آر کے تحت گھر مسماری جیسی قبیح فعل آج بھی جاری ہے

( دیگر علاقوں سے غازیوں کی آمد )

بنوں سے کافی لوگ غازی بن کر ان کے صف میں شامل ہو گئے۔ جن میں گلنواز خان سوارنی جو بعد میں خلیفہ گلنواز کہلائے سابقه وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے داداتھے - ایوب نواز ممشش خیل جو جرنیل ایوب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ شیری اور رب نواز خان برادران ممش خیل

جنھوں نے بعد میں بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنوں کے نزدیک ایک فوجی دستے پر حملہ کیا۔ کچھ غازی بھی شہید ہوئے مگر ایک فوجی دستے کے کمانڈر کو ہلاک کرکے اس کا سر تن سے جد کیا اور اسے ساتھ لے گئے۔ بعد میں علاقے کے باسیوں کو وحشیانہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

شیر دل خان جرنیل سروبڈا۔ محمد امین خان شہید حسن خیل، فضل استاد جی شہید سورانی، ماسٹر امیر صاحب خان، مشک عالم سپرکئی وزیر جو نیظیم بازار بنوں میں ایک کشمکش کے دوران شہید ہوئے۔

مہر دل خٹک جو بعد میں خلیفہ بنے اور خلیفہ مہر دل مشہور ہوئے۔ وہ بنوں شہر کو لوٹنے کے دن کے اجالے میں معہ لشکر نکلے اور کامیاب لوٹ مار کے بعد بڑا نام پایا۔ مہر دل خٹک کے واقعے کی وجہ سے حکومت نے سورانی کے باسیوں پر بھاری جرمانہ عاید کیا کیونکہ انھوں نے لشکر کی ضیافت کی اور یہ کہ انھوں نے لشکر کا راستہ نہیں روکا تھا۔ ریلوے گیٹ کو ہتھکڑی لگا دی گئی اور اسے مقفل کر دیا ۔ کیونکہ اسی دروازے سے خلیفہ مہر دل خٹک بنوں شہر میں داخل ہوئے تھے۔

(عمومی جائزہ)

یوں اگر دیکھا جائے تو حاجی امیر ز علی خان کی مزاحمتی کارروائیوں نے شمالی وزیرستان میں انگریزوں پر زندگی تنگ کر دی تھی ۔ وہ شب و روز فوجی دستوں پر شب خون مارتے رہے۔ اور گوریلا جنگ کا آغاز کرکے سرکاری فوجوں کو زبردست مالی اور جانی نقصان پہنچاتے رہے۔ انھوں نے بہت سارے محازوں پر انگریزوں کا سامنا کیا۔ اورکامیاب مقابلہ کیا ۔ لیکن وہ ایک عکسری مزاحمت کار اور حریت پسند ہی نہ تھا بلکہ لوگوں کو ان سے روحانی وابستگی بھی رہی۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم تو سسٹم کے خلاف لڑنے والے لوگ تھے۔ آزادی تو مل گئی لیکن ایسی آزادی کا کیا فائدہ کہ ہم لوگ اپنا نظام یعنی اسلامی نظام یہاں لاگو کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے پوتے مولانا جمال الدین صاحب اصلاحی کمٹی شمالی وزیرستان سربراہ ہیں۔ جو ان کے مشن کو آگے لے کر چلتے ہے حاجی امیر ز علی خان کے مزار پر آج بھی ان کے عقیدت مندوں کی بھیڑ لگھی رہتی ہے۔ ان کا عرس بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔

ترتیب صوفی ابرار بیتاب

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]