مقبول جہانگیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مقبول جہانگیر
پیدائشمقبول الہٰی
24 جنوری 1928(1928-01-24)ء
وفات24 اکتوبر 1985(1985-10-24) (عمر  57 سال)
لاہور، پاکستان
قلمی ناممقبول جہانگیر
پیشہادیب، مترجم، صحافی، مدیر
زباناردو
نسلپنجابی
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصنافافسانہ، ناول، ترجمہ، ادارت
نمایاں کامحکایاتِ رومی
شکاریوں کا قاتل
انائی کے آدم خور وحشی
ناقابل فراموش
5 خوفناک کہانیاں

مقبول جہانگیر (پیدائش: 24 جنوری، 1928ء - وفات: 24 اکتوبر، 1985ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور ادیب، مترجم، صحافی اور سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر تھے۔ وہ شکاریات، سراغ رسانی، جاسوسی اور خوفناک موضوعات پر لکھنے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔

حالات زندگی و ادبی خدمات[ترمیم]

مقبول جہانگیر 24 جنوری، 1928ء میں پیدا ہوئے[1][2][3]۔ ان کا اصل نام مقبول الہٰی تھا۔ وہ طویل عرصہ سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر رہے۔ انھوں نے متعدد کتابیں تحریر کیں جن میں بیشتر حکایات اور جاسوسی ادب پر مشتمل تھیں۔ انھوں نے جاسوسی ادب کے بین الاقوامی شاہکاروں کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ ان کی تصانیف و تراجم میں موت کے خطوط، بیبت ناک افسانے، 5 خوفناک کہانیاں، ناقابلِ فراموش، فرار ہونے تک، شکاریوں کا قاتل اور انائی کے آدم خور وحشی کے نام سرِ فہرست ہیں۔[3]

تصانیف[ترمیم]

  • ناقابل فراموش
  • جہنم سے فرار
  • ہیبت ناک افسانے
  • 5خوفناک کہانیاں
  • جانباز جاسوس
  • زندہ ممی (بریم اسٹوکر کے ناول The Jewel of Seven Stars کا ترجمہ)
  • فنکار قاتل
  • انائی کے آدم خور وحشی
  • فرار ہونے کے بعد
  • شکاریوں کا قاتل
  • یہ جنگل یہ درندے
  • سنہری مکڑیاں
  • موت کے ساتھی
  • موت کے خطوط(اگاتھا کرسٹی کے ناول The ABC Murders کا ترجمہ)
  • روسی جرنیل کی پُراسرار موت
  • حکایاتِ رومی
  • پپلن کا فرار اور واپسی
  • پاگل خانہ
  • عقابوں کی وادی
  • ٹارزن کی واپسی
  • خوفناک کہانیاں (ترجمہ)
  • اعلٰی حضرت بریلوی
  • سوداگر کی بیٹی
  • کالا ہیرا
  • تاریک جنگل اور ایک لڑکا

وفات[ترمیم]

مقبول جہانگیر 24 اکتوبر، 1985ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔[1][2][3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 842
  2. ^ ا ب مقبول جہانگیر، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
  3. ^ ا ب پ عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 585