مندرجات کا رخ کریں

موسی صدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موسی صدر
(فارسی میں: موسى صدر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 اپریل 1928ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قم [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1998ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لیبیا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاريخ غائب 31 اگست 1978[2]  ویکی ڈیٹا پر (P746) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش قم
تہران
نجف
صور   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پہلوی ایران
لبنان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت تحریک امل   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ تہران
حوزہ علمیہ نجف   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم فقہ اور سیاسیات   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ آیت اللہ منتظری ،  محسن الحکیم ،  سید ابو القاسم خوئی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان ،  الٰہیات دان ،  آخوند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  عربی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت حوزہ علمیہ قم   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

موسیٰ صدر شیعہ عالم دین اور مجتہد تھے۔ انقلابی اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے، مسلکی طور پر اہل تشیع جب کہ سیاسی طور پر عام مذہبی شیعہ رہنماؤں سے مختلف تھے، لبنان میں اہل تشیع کی حالت زار دیکھ کر وہیں قیام کرنے کے بعد وہاں سب سے مل جل کر رہنا اور عمومیت پسند تھے، سب کے ہاں جاتے اور سارے مذہب والوں کو آپس میں جوڑ لیتے، جس وقت عیسائیوں کا پکا کھانا عام طور پہ اس وقت شیعہ کھانا پسند نہیں کرتے تھے تو موسیٰ صدر آرام سے کھا لیا کرتے جس وجہ سے ان کی شخصیت عمومی ہو گئی۔

پیدائش

[ترمیم]

1928ء میں ایران کے شہر قم میں پیدا ہوئے، تہران یونیورسٹی سے 1956ء میں اسلامی شریعت اور سیاسیات میں ڈگریاں حاصل کیں، اعلی تعلیم کی خاطر نجف چلے گئے۔

لبنان کا سفر

[ترمیم]

1960ء میں نجف سے لبنان کی طرف سفر کیا اور لبنان میں شیعوں کی حالت زار کو دیکھ کر وہیں پر قیام پزیر ہو گئے اور رفاہی کاموں کا اجرا کیا۔ جن میں بہت سے اسکولز، چیرٹی سنٹرز شامل ہیں۔ ان شعلہ انگیز تقاریر اتنی سنی جاتیں دوران تقریر اگر کوئی گارڈ جذبات میں ہوائی فائر کرتا تو اسے کہتے کہ میرے الفاظ ہی گولیاں ہیں تمھیں فائرنگ کی ضرورت نہیں اس طرح سامعین کی توجہ کا شدید مرکز بنے یہ وہ زمانہ تھا جب اسرائیل نے لبنان کے خلاف مسلح کارروائیوں کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی اور آئے دن جہازوں اور توپوں سے چھوٹے بڑے حملے کرتا رہتا تھا۔

فلسطینیوں کے ہیرو

[ترمیم]

وہ فلسطینی جو یہودیوں کی مذہبی جنگ کی وجہ سے اپنے علاقے چھوڑ گئے تھے ابہوں نے لبنان میں مختلف کیمپوں میں پناہ گزینی کے دوران فلسطیوں کی حالت ناگفتہ بہ کو تونگری میں بدلنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی اسی لیے فلسطینی مسلماں ان کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔

اسرائیل کے حملوں سے شیعہ علاقوں کے دفاع کے لیے امل نامی مسلح تنظیم کی بنیاد رکھی۔ لبنان میں شیعوں کے متحد کرنے کے لیے المجلس الاسلامی الشیعی الاعلی کی بنیاد رکھی۔

وفات

[ترمیم]

1978ء میں لیبیا کے سرکاری دورے میں اغوا کر لیے گئے اور ابھی ان کے زندہ یا فوت ہونے کا کچھ علم نہیں ہے۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]