پروین شاکر
پروین شاکر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 نومبر 1952ء کراچی |
وفات | 26 دسمبر 1994ء (42 سال) اسلام آباد |
وجہ وفات | ٹریفک حادثہ |
مدفن | اسلام آباد |
شہریت | پاکستان |
شریک حیات | سید نصیر علی |
عملی زندگی | |
صنف | غزل; آزاد نظم |
مادر علمی | جون ایف کینیڈذی سرکاری اسکول |
پیشہ | شاعر ، مصنفہ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی |
شعبۂ عمل | شاعری |
کارہائے نمایاں | خوشبو |
متاثر شخصیات | اردو شاعری; حقوق نسواں اردو شاعری کے ذریعے |
IMDB پر صفحہ | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
پروین شاکر: پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے۔
پروین شاکر کی قبر کے کتبے پر جو اشعار لکھے ہیں وہ یہ ہیں:مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہرو کے کوئی اور بھر جاؤں تو مجھ کو نہ سینے کوئی
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
میں کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے ہے
بزم انیسم میں قباناک کی پینی میں نے
اور لکھا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشید اسر
مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے
ابتدائی حالات
[ترمیم]24 نومبر، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔[2]
حالات زندگی
[ترمیم]سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔
ادبی خدمات
[ترمیم]شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔
نمونہ کلام
[ترمیم]یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے | ||
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے |
اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے | ||
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے |
رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا | ||
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے |
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی | ||
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے |
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر | ||
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے |
تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو | ||
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے |
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال | ||
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے |
تخلیقات
[ترمیم]ان کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔
- خوشبو (1976ء)،
- صد برگ (1980ء)،
- خود کلامی (1990ء)،
- انکار (1990ء)
- کف آئینہ(1994ء)
- ماہ تمام کلیات (1994ء)
تاثرات
[ترمیم]پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہے جو درد کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انھیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں، لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔ اُن کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ماں کے جذبات شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل ان سبھی کو انھوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔
وفات
[ترمیم]26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔تفصیلات کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انھیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئیں اور اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں ۔ ان کی لوح مزار پر انہی کے یہ اشعار کندہ ہیں:
یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے
نگار خانہ
[ترمیم]یہاں سے آپ ان کی قبر پر لگے ہوئے کتبے کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔[3]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ http://teabreak.pk/pride-of-performance-arts-literature-200/17744/
- ↑ وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی صفحہ 56,57,58
- ↑ http://www.mediafire.com/convkey/a0d5/8ia9ffvciebgq71zg.jpg یہاں سے آپ ان کی قبر پر لگے ہوئے کتبے کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
- 1952ء کی پیدائشیں
- 24 نومبر کی پیدائشیں
- کراچی میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 1994ء کی وفیات
- 26 دسمبر کی وفیات
- اسلام آباد میں وفات پانے والی شخصیات
- آدم جی ادبی اعزار کے وصول کنندگان
- اردو شعرا
- بیسویں صدی کی مصنفات
- بیسویں صدی کے پاکستانی شعرا
- بیسویں صدی کے شعرا
- پاکستان میں شارعی حادثہ اموات
- پاکستانی اردو شعرا
- پاکستانی سرکاری ملازمین
- پاکستانی مصنفات
- پاکستانی نسائیت پسند مصنفین
- تمغائے حسن کارکردگی وصول کنندگان
- جامعہ ہارورڈ کی شخصیات
- جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کے فضلا
- کراچی کے مصنفین
- مہاجر شخصیات
- ہارورڈ یونیورسٹی کے فضلا
- بہاری نژاد پاکستانی شخصیات
- کراچی کے شعرا
- فضلا جامعہ کراچی