حافظ محمد گوندلوی
حافظ محمد گوندلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1897ء گوندلانوالہ |
وفات | 4 جون 1985ء (87–88 سال) ضلع گوجرانوالہ |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | طبیہ کالج |
استاذ | عبدالمنان وزیر آبادی ، حکیم اجمل خان |
پیشہ | عالم |
ملازمت | جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ |
درستی - ترمیم |
حافظ محمد محدث گوندلوی جید عالم دین اور بلند پایہ مصنف،مدرس اور مبلغ تھے۔ تمام علوم اسلامیہ میں بحر پیکراں تھے ۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، فقہ الحدیث،تاریخ وسیر، اسماء الرجال، لغت، عربیت، معانی وبیان، فرائض، فلسفہ، منطق،علم کلام اور صرف ونحو پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ طب اسلامی میں بھی مہارت حاصل تھی۔[1]
حافظ محمد گوندلوی اپنے وقت کے امام تھے۔ ان کی تدریس اور تالیف کے میدان میں نمایاں خدمات ہیں۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع اور فکر میں انتہائی گہرائی تھی ۔ ان کے حافظے کی پختگی کی وجہ سے لوگ انھیں چلتی پھرتی لائبریری کہا کرتے تھے۔[2]
پیدائش
[ترمیم]استاد پنجاب حافظ ابو عبد اللہ محمدبن میاں فضل الدین گوندلوی 6 رمضان المبارک 1315ھ بمطابق 1897ء ضلع گوجرانوالہ کے مشہور قصبہ گوندلانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میاں فضل الدین رحمہ اللہ نے آپ کا نام اعظم رکھا تھا اور آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کا نام محمد رکھا لیکن آپ والدہ صاحبہ کے تجویز کیے ہوئے نام ہی کے ساتھ معروف ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔[3]
حلیہ
[ترمیم]مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ جو آپ کے معروف و مشہور شاگرد ہیں انھوں نے آپ کا حلیہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
میانہ قد و قامت، سرخ و سفید رنگ، کشادہ جبیں، تقویٰ و طہارت کے جھومر سے آراستہ، موٹی موٹی سیاہ آنکھیں جن میں شب زندہ داری کے سرخ سرخ ڈورے مچلتے ہوئے، سیدھی مانگ والے گھنے اور گھنگھریالے مگر چمکدار سفید بال، قبضہ سے فراواں خوبصورت سفید ریش، لمبا اور اجلا سفید لباس مگر شلوار ٹخنوں سے اوپر اٹھی ہوئی، کلاہ والی رنگ دار دستار، دیسی پاپوش، ہاتھ میں چھڑی (کھونڈی) پُر وقار اور وجیہ شخصیت۔
تعلیم
[ترمیم]پانچ سال کی عمر میں آپ کو حفظِ قرآن کے لیے ایک حافظ صاحب کے پاس بٹھا دیا گیا، تھوڑے ہی عرصے میں حفظ کی صلاحیت خاصی بڑھ گئی۔ ایک دن والد محترم کہنے لگے کہ ایک ربع پارہ روزانہ یاد کر کے سنایا کرو، ورنہ تمھیں کھانا نہیں ملے گا۔ اس دن سے آپ نے روزانہ ربع پارہ یاد کر کے سنانا شروع کر دیا۔
حفظ قرآن کا کام مکمل ہوا تو والدہ ماجدہ نے مزید تعلیم کے لیے آپ کو جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں (چوک اہل حدیث) شہر گوجرانوالہ میں مولانا علاؤ الدین کے پاس بھیجا، جہاں آپ نے عربی ادب اور صرف و نحو کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ پھر آپ کو گوندلانوالہ کے ایک نیک سرشت بزرگ عبد اللہ ٹھیکیدار کشمیری کی معیت میں مدرسہ تقویۃ الاسلام امر تسر میں داخل کے لیے بھیج دیا۔ ٹھیکیدار موصوف بہت صالح انسان اور علمائے غزنویہ کے پرانے عقیدت مند تھے۔
یہ مدرسہ اس وقت حضرت الامام عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ کے زیر نگرانی و سرپرستی چل رہا تھا۔ یہاں آپ نے چار سال کی قلیل مدت میں حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علوم و فنون کی تمام کتب سے فراغت حاصل کی۔
طب کی تعلیم
[ترمیم]درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد آپ نے طبیہ کالج دہلی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں طب کا چار سالہ کوس مکمل کر کے آپ نے ’’فاضل الطب و الجراحت‘‘ درجہ اول کی سند اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ طبیہ کالج کے آپ کے اساتذہ میں سب سے زیادہ قابل، مشہور بلکہ بین الاقوامی شخصیت حکیم اجمل خان مرحوم تھے۔ ماشاء اللہ حافظ صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا
اساتذہ کرام
[ترمیم]- مولانا علاؤ الدین (گوجرانوالہ)
- حضرت الامام سید عبد الجبار غزنوی
- مولانا سید عبد الاول غزنوی
- مولانا سید عبد الغفور غزنوی
- جامع المعقول و المنقول مولانا محمد حسین ہزاروی (داماد حضرت الامام عبد الجبار غزنوی
- مولانا عبد الرزاق
- مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی
تدریسی خدمات
[ترمیم]1927ء میں آپ مدرسہ رحمانیہ دہلی تشریف لے گئے اور 1928ء تک وہیں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر آپ گوجرانوالہ واپس تشریف لے آئے یہاں مولانا عطاء اللہ حنیف اور حافظ عبد اللہ بڈھیمالوی جیسے بڑے علما آپ سے اسی دور میں مختلف کتابیں پڑھتے رہے۔ 1933ء میں آپ عمر آباد تشریف لے گئے، چند سال یہاں تدریس کے بعد آپ واپس پھر گوجرانوالہ تشریف لے آئے اور 1947ء تک آپ یہیں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1956ء میں جب جامعہ سلفیہ فیصل آباد قیام عمل میں آیا تو شیخ الحدیث کی مسند کے لیے حضرت حافظ محمد رحمہ اللہ کو موزوں سمجھا گیا۔ 1963ء تک آپ جامعہ سلفیہ میں شیخ الحدیث کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1964ء کے لگ بھگ مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو تدریس کے لیے مدعو کیا گیا تو آپ وہاں تشریف لے گئے، مدینہ یونیورسٹی سے واپس آ کر جامعہ اسلامیہ کے بعد جامعہ محمدیہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور وفات تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔
اہل علم کی رائے
[ترمیم]- حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ جن کا علمی مقام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں وہ حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:[4]
ہماری جماعت میں یہ شخص علم کے ایسے سمندر ہیں جس کا کوئی کنارا نہیں اور علمی میدان میں اتنی اونچی پرواز پر چلے گئے ہیں جہاں تک کسی دوسرے کی رسائی نہیں۔
- مناظر اسلام مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:[5]
ہماری پوری جماعت میں ان کے علم و فضل کا کوئی ثانی نہیں۔
- برصغیر پاک و ہند میں طب کے امام حکیم اجمل خان رحمہ اللہ صاحب، جو طب میں آپ کے استاذ ہیں، فرماتے ہیں:[5]
اس جیسا ذہین شاگرد میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جب مجھے اس کے سامنے لیکچر دینا ہوتا ہے تو مجھے بہت زیادہ تیاری کر کے آنا پڑتا ہے۔‘
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ نے عبد الحق پادری کے رسالہ ’’إثبات التثلیث‘‘ کی تردید ’’إثبات التوحید فی إبطال التثلیث‘‘ کے نام سے لکھی اور یہ کتاب کتابت کے لیے کاتب کے حوالے کر دی۔ اس مسودہ کے علاوہ آپ کے پاس کوئی اور کاپی یا اس کا کوئی نسخہ نہ تھا۔ کچھ دنوں کے بعد کاتب نے اطلاع دی کہ اس کتاب کا مسودہ گم ہو گیا ہے، مل نہیں رہا۔ عام قسم کا کوئی مصنف ہوتا تو وہ کتاب کے ضائع ہونے پر پریشان ہو جاتا اور دوبارہ ہو بہو انھیں الفاظ میں مسودہ تیار کرنے پر ہرگز قادر نہ ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطا فرمایا تھا، آپ نے بلا کسی پریشانی کے دوبارہ مسودہ تیار کر کے کاتب کے حوالے کر دیا، اتفاق سے کاتب کو وہ گم شدہ مسودہ بھی مل گیا، موازنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں مسودوں کی عبارت بالکل ایک ہی ہے اس میں کسی ایک فقرے کا بھی فرق نہیں۔
اس موجودہ دور میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو قوتِ حافظہ میں آپ کا ثانی ہو۔ فتح الباری تقریباً آپ کو حفظ تھی، دورانِ درسِ بخاری متعلقہ مقامات سے لمبی لمبی عربی عبارات سنا دیا کرتے تھے۔ (الاعتصام، محدث گوندلوی نمبر، ص: 27،28)
علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ سے جب مدینہ یونیورسٹی میں حافظ صاحب کی کتب کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے تاریخی جواب دیا کہ ’’مجھ کو ان کی کسی بڑی کتاب کا تو پتہ نہیں لیکن ایک چھوٹی سی کتاب میں احسان الٰہی ظہیر ہوں۔‘‘
علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے داماد بھی تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ کو فتح الباری حفظ ہے۔
ایک دفعہ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ سے سعودی عرب طلبہ کی ایک مجلس کو خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے:
’’جب ہم حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے علم حاصل کرتے تھے اس وقت ہمارا علمی مستوی اتنا بلند نہ تھا، طالب علمی کا دور تھا، ہم ان سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکے اور اب اس لائق ہوئے ہیں کہ ان سے مستفید ہو سکیں لیکن افسوس کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔‘‘یہ کہہ کر علامہ صاحب کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ علامہ صاحب کو اپنے سسر اور شیخ سے والہانہ محبت تھی، وہ علمی محافل میں اکثر ان کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اور یہ علامہ صاحب کی شہادت سے تقریباً چالیس دن قبل کی بات ہے۔
ان کے شاگرد رشید مولانا محمد حنیف صاحب ندوی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
’’گذشتہ ڈیڑھ صدی میں یہاں حضرت گوندلوی جیسی ہمہ گیر شخصیت پیدا نہیں ہوئی جو تمام اسلامی علوم و فنون پر یکساں دسترس رکھتی ہو۔‘‘
(الاعتصام، محدث گوندلوی نمبر، ص: 32)
حضرت الاستاذ حافظ صاحب رحمہ اللہ کے شاگرد رشید شیخ تاج الدین ازہری (ازہر یونیورسٹی مصر) کہتے ہیں کہ حافظ صاحب کے تبحرِ علمی سے صرف اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی متاثر تھے اور بیرون ملک بھی میں نے ان لوگوں سے، جنہیں اس زمانے میں (جبکہ حافظ صاحب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شیخ الحدیث تھے)، ان سے تحصیل علم کا اتفاق ہوا یا جنہیں اس زمانے میں جامعہ اسلامیہ جانے کا اتفاق ہوا، ان کی تعریف ہی سنی ہے۔ سب کو ان کے تبحر علمی کا معترف اور ان کا مداح پایا ہے۔
(الاعتصام، محدث گوندلوی نمبر، ص:49)
علامہ گوندلوی جب مدینہ یونیورسٹی گئے تو مشائخ جامعہ نے یہ کہہ دیا،لم نر احداً مثل ھذا الشیخ۔ کہ ہم نے اپنی زندگی میں اس بزرگ عالم دین جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا ۔ سبحان اللہ
مولانا عبد الرحمن ضیاء لکھتے ہیں ’’علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کے علم و فضل کے بڑے قدر شناس تھے۔ پچھلے دنوں حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد مولانا محمد ریاض بن محمد شریف سیالکوٹی سے راقم الحروف کی ملاقات ہوئی تو وہ بتانے لگے کہ جب میں علامہ البانی رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے کے لیے مرکز الجنوب عمان میں واقع ان کے مکتبہ میں گیا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ سے اپنے تلمذ کا ذکر کیا تو علامہ البانی رحمہ اللہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کا ذکر سن کر بڑے خوش ہوئے اور فرمانے لگے:
’’ما رأیت تحت أدیم السماء أعلم من الحافظ المحدث محمد الجوندلوی، و کان إمامً فی کل فن، و ہو من أکبر العلماء فی القارۃ الہندیۃ۔‘‘
(مقالات محدث گوندلوی)
آپ کی چند کتب
[ترمیم]آپ کی چند کتب: [1]
- صلوۃ مسنونۃ
- اثبات التوحید بإبطال التثلیث
- رد مولود
- الإصلاح (3 حصے) [2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ircpk.com (Error: unknown archive URL)
- اہداء ثواب
- تنقید المسائل
- ختم نبوت
- معیار نبوت
- ایک اسلام بجواب دو اسلام
- دوام حدیث بجواب مقام حدیث [3]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ircpk.com (Error: unknown archive URL)
- اسلام کی پہلی کتاب
- اسلام کی دوسری کتاب
- کتاب الایمان
- تحفۃ الإخوان
- بغیۃ الفحول
- سنت خیر الانام و تربہ یک سلام
- شرح مشکوۃ(کتاب العلم تک)
- البدور البازغۃ (ترجمہ)
- حدیث کی دینی حجیت (’’الاعتصام‘‘ میں شائع شدہ مقالہ)
- إرشاد القاری إلی نقد فیض الباری
- التحقیق الراسخ فی أن أحادیث رفع الیدین لیس لہا ناسخ
- خیر الکلام فی وجوب الفاتحۃ خلف الإمام
- زبدۃ البیان فی تنقیح حقیقۃ الإیمان و تحقیق زیادتہ و النقصان
آپ کے تلامذہ
[ترمیم]آپ کے تلامذہ میں سے چند یہ ہیں:
- مولانا ابو البرکات احمد، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ
- مولانا حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی
- مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی
- مولانا عبیداللہ خان عفیف
- مولانا محمد صادق خلیل، فیصل آباد
- مولانا نذیر احمد رحمانی
- مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
- مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ ، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
- علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ
- مولانا عبد الخالق قدوسی رحمہ اللہ
- مولانا حافظ عبد المنان، مدرس جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ
- مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی
- مولانا ارشاد الحق اثری
- مولانا محمد اسحاق چیمہ
- مولانا محمد عبدہ الفلاح، فیصل آباد
- شیخ ڈاکٹر عاصم عبد اللہ قریوتی، استاذ مدینہ یونیورسٹی
- شیخ محمد مجذوب، استاذ مدینہ یونیورسٹی
- شیخ محمد ابراہیم شقرہ الأردنی، مدینہ یونیورسٹی
- شیخ عطیہ سالم۔
وفات
[ترمیم]حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی وفات 14 رمضان المبارک 1405ھ، 4 جون 1985ء کو ہوئی۔ ان کے جنازہ میں علما کرام کے جم غفیر نے شرکت کی، آپ کی نماز جنازہ شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ آف گوجرانوالہ نے پڑھائی۔
تعلیقات
[ترمیم](استفادہ از مقالات محدث گوندلوی) (الاعتصام، محدث گوندلوی نمبر)
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "اصحاب تدریس وشارحین حدیث -"۔ www.usvah.org۔ مجلہ اسوہ حسنہ کراچی۔ 24 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2020
- ↑ "تذکرہ حافظ محمد گوندلوی ؒ"۔ کتاب و سنت۔ مکتبہ قدوسیہ لاہور
- ↑ "حضرت الامام حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ"۔ اردو مجلس فورم۔ 25/03209 [مردہ ربط]
- ↑ الاعتصام، محدث گوندلوی نمبر، ص: 30، 13
- ^ ا ب الاعتصام، محدث گوندلوی نمبر، ص: 30