"خس و خاشاک زمانے" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
غیر ضروری مواد کا اخراج |
م ←مواد |
||
سطر 17: | سطر 17: | ||
==مواد== |
==مواد== |
||
"خس و خاشاک زمانے" کو [[پاکستان]] کی ایک ایسی دستاویز کہا جاسکتا ہے جو پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار اور اس کے بدلتے رویوں کو بیان کرتی ہے۔"خس و خاشاک زمانے" ضخیم [[ناول]] ہے جس میں دو خاندانوں کی کئی نسلوں پر پھیلی داستان بیان کی گئی ہے۔[[تقسیم ہند|تقسیم برصغیر]] کے بارے میں لکھ گیا یہ [[ناول]] ان تاریخی حقائق کو بیان کرتا ہے جن پہ بات کرنا پسند نہیں کیا |
"خس و خاشاک زمانے" کو [[پاکستان]] کی ایک ایسی دستاویز کہا جاسکتا ہے جو پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار اور اس کے بدلتے رویوں کو بیان کرتی ہے۔"خس و خاشاک زمانے" ضخیم [[ناول]] ہے جس میں دو خاندانوں کی کئی نسلوں پر پھیلی داستان بیان کی گئی ہے۔[[تقسیم ہند|تقسیم برصغیر]] کے بارے میں لکھ گیا یہ [[ناول]] ان تلخ تاریخی حقائق کو بیان کرتا ہے جن پہ بات کرنا پسند نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان موضوعات پر بحث کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ |
||
==تبصرے و آراء== |
==تبصرے و آراء== |
نسخہ بمطابق 11:15، 12 اپریل 2016ء
مصنف | مستنصر حسین تارڑ |
---|---|
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
صنف | ناول |
ناشر | سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور |
تاریخ اشاعت | اول 2010ء، دوم 2014ء |
طرز طباعت | مطبوعہ (مجلد) |
صفحات | 740 |
خس و خاشاک زمانے پاکستان سے 2010ء میں شائع ہونے والا اردو ناول ہے جسے مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا ہے۔
مواد
"خس و خاشاک زمانے" کو پاکستان کی ایک ایسی دستاویز کہا جاسکتا ہے جو پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار اور اس کے بدلتے رویوں کو بیان کرتی ہے۔"خس و خاشاک زمانے" ضخیم ناول ہے جس میں دو خاندانوں کی کئی نسلوں پر پھیلی داستان بیان کی گئی ہے۔تقسیم برصغیر کے بارے میں لکھ گیا یہ ناول ان تلخ تاریخی حقائق کو بیان کرتا ہے جن پہ بات کرنا پسند نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان موضوعات پر بحث کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
تبصرے و آراء
ریاض شاہد کتاب اور مصنف کے بارے میں کہتے ہیں[1]،
” | اس ناول میں تارڑ کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے خصوصا فلیش بیک کی ٹیکنیک بار بار استعمال کی گئی ہے ۔ الفاظ کا چناو اور ان کا استعمال بڑی سوچ اور نفاست سے کیا گیا ہے ۔ ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کا وہ ماحول میں جو تارڑ اپنے ڈائیلاگ کی مدد سے پیدا کر دیتا ہے کہ قاری ناول کے اختتام تک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور یہ انہیں کا خاصہ ہے ۔ حقیقت پسندی کا درس ناول کا تھیم ہے جسے تارڑ علامات کے ذریعے واضح کرتا ہے مثلا اچھو شیخ کا کردار جو مذہبی انتہا پسندی کا مظہر ہے گاؤں کا فاترالعقل نوجوان ہے جو بار بار اپنی ماں سے نظر بچا کر گلی میں غلاظت کے ڈھیر سے شیشہ تلاش کر کے اپنی گردن پر پھیرنا شروع کر دیتا ہے جس سے اسے لذت ملتی ہے۔ پتہ چلنے پر اس کی ماں آ کر اٹھا کر گھر لے آتی ہے لیکن وہ پھر موقع ملنے پر یہی عمل دہراتا رہتا ہے ۔ ناول میں 1947ء کے فسادات میں ہونے والی قتل و غارت ، معاشرے میں لوٹ مار کے رحجان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ | “ |