"آفتاب ہند" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
تجویزی سانچہ برائے منتقلی
سطر 1: سطر 1:
{{منتقلی|مخدوم سید اس الدین چشتی}}
مخدوم سیداسدالدین چشتی المعروف بہ آفتاب ہند سہروردی ( ۱۲۶۳- ۱۳۹۱) جونپور، بنارس ہندوستان کے ایک بہت بڑے ولی کامل اور مجاہد اعظم تھے ۔ ۲۹ رجب المرجب ۶۶۱ ہجری بمطابق ۹ جون ۱۲۶۳ عیسوی کو واسط، عراق میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں والدین کے ہمراه ہندوستان چلے آئے۔ کچھ عرصہ دہلی میں گذارا پھر کٹڑہ مانک پورہ تحصیل [[منجھن پور]] [[الہ آباد]] میں آئے۔ بیس برس کی عمر میں تحصیل علوم ظاہری سے فراغت پالی فقه اصول تفسیر اور حدیث میں دسترس حاصل کی۔ [[حافظ قرآن]] اور قاری ہفت قرأت تھے -
مخدوم سیداسدالدین چشتی المعروف بہ آفتاب ہند سہروردی ( ۱۲۶۳- ۱۳۹۱) جونپور، بنارس ہندوستان کے ایک بہت بڑے ولی کامل اور مجاہد اعظم تھے ۔ ۲۹ رجب المرجب ۶۶۱ ہجری بمطابق ۹ جون ۱۲۶۳ عیسوی کو واسط، عراق میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں والدین کے ہمراه ہندوستان چلے آئے۔ کچھ عرصہ دہلی میں گذارا پھر کٹڑہ مانک پورہ تحصیل [[منجھن پور]] [[الہ آباد]] میں آئے۔ بیس برس کی عمر میں تحصیل علوم ظاہری سے فراغت پالی فقه اصول تفسیر اور حدیث میں دسترس حاصل کی۔ [[حافظ قرآن]] اور قاری ہفت قرأت تھے -



نسخہ بمطابق 12:13، 1 نومبر 2018ء

اس مضمون کا عنوان مخدوم سید اس الدین چشتی سے تبدیل کرنے کا قصد ہے۔ تبادلۂ خیال پر رائے دیجیۓ۔


مخدوم سیداسدالدین چشتی المعروف بہ آفتاب ہند سہروردی ( ۱۲۶۳- ۱۳۹۱) جونپور، بنارس ہندوستان کے ایک بہت بڑے ولی کامل اور مجاہد اعظم تھے ۔ ۲۹ رجب المرجب ۶۶۱ ہجری بمطابق ۹ جون ۱۲۶۳ عیسوی کو واسط، عراق میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں والدین کے ہمراه ہندوستان چلے آئے۔ کچھ عرصہ دہلی میں گذارا پھر کٹڑہ مانک پورہ تحصیل منجھن پور الہ آباد میں آئے۔ بیس برس کی عمر میں تحصیل علوم ظاہری سے فراغت پالی فقه اصول تفسیر اور حدیث میں دسترس حاصل کی۔ حافظ قرآن اور قاری ہفت قرأت تھے -

آپ نے علوم باطنی کی تعلیم اپنے نانا مخدوم ضیاء الدین کڑھی سے حاصل کی پھر ملتان جا کر حضرت شاہ رکن الدین رکن عالم کے مرید ہوئے۔ وہیں سے آفتاب ہند کا لقب پایا اور تبلیغ دین کی وصیت لے کر دلی آئے اور حضرت نظام الدین اولیاء سے مز یدعلم باطنی حاصل کیا۔ اس کے بعدکنتھ ضلع مرزاپور چلے آئے یہاں کا راجہ گھردار قوم سے تھا ۔آپ نے اسے وعظ ونصیحت سے دعوت اسلام دی۔ لیکن مجبورا جنگ کرنا پڑی۔ اور راجہ شکست کھاکر مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد آپ الہ آباد کے ایک گاؤں سا تھرڈیہہ میں چلے گئے۔ یہاں کا راجہ بآسانی اسلام لے آیا ۔ اس کے بعدبنادی ضلع اعظم گڑھ کے راجہ کے سات چھ ماہ تک جہاد کیا بعدازاں راجہ نے اسلام قبول کر لیا۔

سب سے آخر میں آپ ظفر آباد آئے اور یہاں بھی مخدوم چراغ شاہ کے ہمراہ ، ۷۲۱ ہجری/ ۱۳۲۱ عیسوی میں ایک بہت بڑا معرکہ سر کیا۔ اس میں غیاث الدین تغلق کا بیٹا ظفرخان چھ ہزار کی فوج لے کر آپ کی مدد کر آیا تھا۔


۲۰ جمادی الاول ۷۹۳ ہجری کو نماز عصر کے بعد ایک مجلس میں آپ کو شیخ سعدی کے اس شعر پر وجد آگیا اور رقت طاری ہوگئی ؀

اگر ہلاکت سعدی به تیغ فرقت تست | حلال باشد ایں خونے کہ دوستاں ریزند

اسی شب کو فالج نے حملہ کیا اور ۱۶ جمادی الاول/ ۲۱ اپریل ۱۳۹۱ عیسوی کوتہجدکے وقت انتقال کیا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاءنے نیابت وسجادگی کا حق ادا کیا جب نواب آصف الدولہ کے بھائی نواب سعادت علی خان نے تمام جائدادیں ضبط کرلیں تویہ خاندان جونیور کے مفتی محلہ میں آکر آباد ہوگیا اور امامیہ مذہب اختیارکرلیا جس کے بعد سجادگی ختم ہوگئی۔

حضرت مخدوم آفتاب ہند اپنے وقت کے امام طریقت تھے۔ آپ صاحب زہد وتقوی واہل حال وقال تھے۔ تمام عمر عبادت اور ریاضت میں بسر کی۔ بادشاہ وزرأ اور امراء آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے آپ نے چند کتابیں بھی تصنیف کیں ان میں “عشقيه “ فن سلوک و معرفت کی ایک اچھی کتاب ہے۔[1]


حوالہ جات

  1. ‎شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا، جلد اوّل ، صفحہ ۲۹،۳۰