عبد اللہ بن وہب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابن مسلم
شيخ الإسلام الإمام أبو محمد الفهري

معلومات شخصیت
اصل نام عبد الله بن وهب بن مسلم المصري
تاریخ پیدائش سنہ 743ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 812ء (68–69 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب شيخ الإسلام
عملی زندگی
استاد مالک بن انس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو محمد عبد اللہ بن وہب بن مسلم ہے ، آپ عباسی دور کے مالکی فقیہ تھے۔آپ مصر میں 125 ہجری میں پیدا ہوئے، آپ نے بیس سال سے زیادہ عرصہ امام مالک کے ساتھ رہے۔ اور اپنی ساری زندگی علم کی تلاش میں گزار دی۔ [5]

نام ونسب[ترمیم]

عبد اللہ نام، ابو محمد کنیت تھی، قریش کے ایک خاندان بنو فہر کے غلام تھے، ابائی وطن مصر تھا اور یہیں یہ سنہ125ھ میں پیدا ہوئے۔ [6]

تعلیم[ترمیم]

ایک مدت تک ان کو حصولِ علم کا موقع نہ مل سکا یا طبیعت کا میلان نہیں ہوا؛ مگر جب ان کی عمر 17/سال کی ہوئی توحصولِ علم کا شوق ہوا، مصر میں اس وقت لیث بن سعد کے درس فقہ وحدیث کی ہرطرف شہرت تھی، ابن وہب نے بھی اُن سے کسب فیض کیا، مصر میں اس وقت فقہ وحدیث کی متعدد ممتاز مجلسیں موجود تھیں؛ اس کے باوجود ابنِ وہب کے ذوق طلب کوتسکین نہیں ہوئی اور انھوں نے مکہ، مدینہ، بغداد وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں کے ائمہ علم و فضل سے استفادہ کیا، بغداد کے زمانۂ قیام یعنی سنہ 146ھ میں یہ ممتاز تابعی ہشام بن عروہ کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ مگران سے کسب فیض کا موقع نہ مل سکا اور اسی سال ان کا انتقال ہو گیا، ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے تقریباً چارسوارباب فضل وکمال سے اکتساب علم کیا تھا۔ [7] ان کے طلب علم کا سب سے طویل زمانہ امام مالک کی خدمت میں گذرا، قریب قریب بیس سال تک وہ امام کی خدمت میں رہے، ان کی ذہانت و ذکاوت اور غیر معمولی قوتِ حافظہ کی بنا پر امام مالک ان کی بڑی قدر کرتے تھے، ایک بار کسی نے امام مالک سے تخلیلِ اصابع (انگلیوں میں خلال) کے بارے میں اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کیا؛ انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، ابنِ وہب مجلس میں موجود تھے، بولے کہ ہاں ہمارے پاس ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے اور پھر لیث بن سعد کے واسطہ سے یہ روایت سنادی کہ جب وضو کرو تو پیر کی انگلیوں کا خلال کر لیا کرو، اس کے بعد امام مالک سے جب کوئی شخص یہ مسئلہ پوچھتا تواس کو انگلیوں کے خلال کا حکم دیتے؛ اسی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ میں نے اب تک یہ روایت نہیں سنی تھی، یعنی اس کا علم مجھے ابنِ وہب کے ذریعہ ہوا ہے، ابنِ وہب جب مصر چلے جاتے اور امام مالک اُن کوخط لکھتے توخط کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی: عبد اللہ ابن وھب الی فقیہ مصر الی مفتی مصر۔ ترجمہ: عبد اللہ بن وہب کی طرف جومصر کے فقیہ ومفتی ہیں۔ یہ جملے نقل کرنے کے بعد ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ اتنی قدر افزائی امام مالک نے کسی کی نہیں کی [8] حالانکہ مصر میں اس وقت لیث بن سعد، ابن لہیعہ جیسے ائمہ روزگار کے علاوہ خود امام مالک کے بے شمار صاحب علم و فضل تلامذہ موجود ہے۔ مدینہ منورہ جہاں امام مالک کا چشمۂ علم تقریباً نصف صدی جاری رہا، ان کی وفات کے بعد وہاں کے ارباب علم میں جب کسی مسئلہ یاحدیث نبوی کے بارے میں اختلاف ہوتا تھا تووہ لوگ ابن وہب کی رائے کے منتظر رہتے تھے کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کریں گے، جب وہ حج کو تشریف لاتے تویہ لوگ ان کی رائے دریافت کرتے اور اسی پر فیصلہ ہو جاتا تھا؛ ابن وہب نے جن ممتاز شیوخ سے استفادہ کیا تھا اُن کی فہرست بہت لمبی ہے، چند مشاہیر کے نام یہ ہیں: عمربن حارث، قاضی حیاۃ بن شریح، ابن لہیعہ، یونس بن یزید، معاویہ بن صالح، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ وغیرہ۔

علم و فضل[ترمیم]

ان اساتذہ کی صحبت اور اپنی فطری صلاحیت کی بنا پر زمرۂ تبع تابعین میں ممتاز حیثیت کے مالک ہو گئے، جس کا اعتراف تمام معاصرین نے کیا ہے، امام احمد فرماتے تھے کہ ابنِ وہب کوقدرت نے عقل، دین اور اصلاح سب کچھ دیا تھا، وہ حدیث کی صحت کا بڑا لحاظ کرتے تھے، کسی نے کہا مگر حدیث کے اخذ کرنے میں غلطی کرتے ہیں، فرمایاکہ ہاں یہ بات ضرور ہے؛ مگرمیں نے ان کی روایتوں کے کل ذخیرہ کو جو انھوں نے اپنے اساتذہ سے روایت کیا ہے پر کھا مجھے سب صحیح نظر آیا۔ [9] ابن معین فرماتے تھے کہ یہ ثقہ ہیں، ابوحاتم کا قول ہے کہ یہ صادق اور ان کی مرویات عمدہ ہیں میں ان کوولید بن مسلم سے زیادہ پسند کرتا ہوں، امام وقت ابنِ عیینہ جب ان کا ذکر کرتے توشیخ اہلِ مصر کہتے، ابوزرعہ رازی کا بیان ہے کہ میں نے ابن وہب کی تیس ہزار حدیثوں کوبنظرِ غائر دیکھا؛ مگرمجھے اس میں ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملی جس کا کوئی بنیاد نہ ہو، یہ واقعی ثقہ تھے، ابن حبان کہتے ہیں کہ حجاز اور مصر کے اہلِ علم میں احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوذخیرہ پھیلا ہوا تھا، اس کوانہوں نے یاد کیا؛ پھراس کو جمع کرکے مدون ومرتب کیا؛ حتی کہ ان کے مسانید و مقاطیع (مقطوع جس کی سند تابعی پر ہو) سب کو جمع کر ڈالا، میں نے ان کے ذخیرۂ روایات میں کوئی منکر روایت نہیں دیکھی۔ [10] حارث بن مسکین ان کودیوان العلم ذخیرہ علم کہا کرتے تھے، امام مالک کے مشہور شاگرد ابن قاسم کہتے تھے کہ اگرابن عیینہ کا انتقال ہو گیا تواہلِ علم کی سواریاں مکہ کی بجائے مصرابن وہب کے پاس جایا کریں گی، حدیث کی جمع وتدوین کا جوکام ابن وہب نے کیا کسی نے نہیں کیا، ان کے سامنے بڑے بڑے ارباب علم کی گردنیں جھک جاتی تھیں، ابن سعد نے ان کو کثیر العلم اور ثقہ لکھا ہے، محمد بن عبد اللہ کہتے تھے کہ ابن وہب ابن قاسم سے زیادہ فقیہ تھے؛ مگر غایت احتیاط سے فتوے نہیں دیتے تھے [11] ابن قاسم کا ان کوافقہ قرار دینا بڑی اہمیت رکھتا ہے، ابن قاسم کا تفقہ ضرب المثل ہے؛ اسی طرح کی رائے یحییٰ بن بکیر نے بھی دی ہے۔ [12] ان کوکثرت سے احادیثِ نبوی یاد تھیں، امام ذہبی نے لکھا ہے کہ ایک لاکھ روایتیں ان کے نوکِ زبان تھیں، ان کی تصانیف کے ذریعہ تقریباً سوالاکھ روایتیں مدون ہوگئیں۔

جامعیت[ترمیم]

یہ محض راوی حدیث ہی نہیں تھے؛ بلکہ حدیث نبوی سے مسائل کے اجتہاد اور استنباط کی صلاحیت بھی موجود تھی، امام ذہبی نے ان کوحافظِ حدیث کے ساتھ مجتہد بھی لکھا ہے [13] حدیث کے علاوہ ان کوحدیث اور مغازی میں بھی درک تھا؛ کسی نے امام مالک سے ابنِ قاسم اور ابنِ وہب کے علوم و فضل کے بارے میں پوچھا توفرمایا ابن قاسم فقیہ اور یہ عالم ہیں، مقصد یہ تھا کہ ابنِ قاسم کوعلوم دینیہ کے ایک شعبہ فقہ میں درک ہے اور ابن وہب کے علم میں وسعت وہمہ گیری تھی۔ [14] شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے بستان المحدثین میں ابنِ وہب کا تذکرہ تدوین موطاء کے سلسلہ میں کیا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں: عبد اللہ ابنِ وہب اپنے زمانے میں حجت تھے، تمام لوگ ان کی مرویات پرکمالِ وثوق اور اعتماد رکھتے تھے، وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے؛ بلکہ خود مجتہد تھے؛ البتہ طریقہ اجتہاد وتفقہ میں وہ امام مالک اور لیث بن سعد کی اتباع کرتے تھے۔ [15]

جرح وتنقید[ترمیم]

اس فضل وکمال کے باوجود بعض اہلِ علم افن کی مرویات اور طریقہ اخذ روایات پرتنقید کرتے ہیں، اوپر امام احمد کا ارشاد گزرچکا ہے کہ وہ اخذ روایت میں غلطی کرتے تھے، نسائی کہتے تھے کہ وہ قبولِ روایت میں کچھ تساہل ضرور برتتے تھے؛ مگران کی مرویات کوقبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ساجی کا بیان ہے کہ یہ سماعی حدیثوں کے بارے میں کچھ متساہل واقع تھے اور یہ تساہل اس وجہ سے تھا کہ اہلِ مصر اجازتِ حدیث کوتحدیث کے لیے کافی سمجھتے تھے (محدثین کی اصطلاح میں ان روایتوں جن کوشیخ سے سنا نہ ہو بلکہ شیخ کی اجازت سے روایت کررہا ہو، اس کوحدثنا یاحدثنی کے لفظ سے روایت نہ کرنا چاہیے) (چنانچہ ان روایتوں کوجواجازۃ ان کوپہنچی ہیں) ان کوحدثنی فلاں وغیرہ الفاظ سے بیان کرتے تھے [16] (حالانکہ یہ الفاظ سماع کے لیے مخصوص ہیں) اس سے معلوم ہوا کہ اخذ روایت میں ان پرجوتساہل کا الزام لگایا گیا ہے اس کا مدار اہلِ مصر اور اہلِ حجاز کے طریقہ اخذ روایت کے اختلاف پ رہے؛ ورنہ تحدیثِ روایت میں حددرجہ محتاط تھے، ایک بار کسی نے ان سے کہا کہ فلاں شخص آپ کے واسطہ سے یہ روایت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنوں کوبرا نہ سمجھو، اس سے منافقین کی جڑ کٹ جاتی ہے، یہ سن کران کوغصہ آگیا اور فرمایا کہ اے اللہ! اگریہ جھوٹا ہے تواس کواندھا کر دے؛ چنانچہ ان کی دُعا مقبول ہو گئی اور وہ اندھا ہو گیا۔ [17]

حلقہ درس[ترمیم]

امام مالک کی وفات کے بعد مؤطا کے سماع کے لیے سب سے پہلے تشنگانِ علم نبوی انہی کی طرف متوجہ ہوئے، خود یحییٰ نے جومؤطا کے متداول نسخہ کے مرتب ہیں، اس کا ایک حصہ جوامام مالک سے وہ سماع نہیں کرسکے تھے ان سے پورا کیا۔ [18] امام مالک رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد سحنون کا بیان ہے کہ ابنِ وہب نے پورے سال کوتین کاموں کے لیے تقسیم کر دیا تھا جس میں چار ماہ درس وتدریس کے لیے مخصوص تھے [19] ان کویہ فخر بھی حاصل تھا کہ خود ان کے اساتذہ میں لیث اور امام مالک رحمہم اللہ نے ان سے روایتیں کی ہیں، مثلاً انگلیوں کے خلال کے سلسلہ میں امام مالک کی ایک روایت کا ذکر اوپر آچکا ہے، تذکروں میں ہے کہ امام مالک نے ایک دوسری حدیث بھی ان سے روایت کی ہے وہ ہے بیع عربان کے سلسلہ میں یعنی آپ نے بیع عربان سے منع کیا ہے (بیع عربان ایسی خریدوفروخت کوکہتے ہیں جس میں خریدار کچھ رقم پیشگی بالغ کواس لیے دیتا ہے کہ اگرخرید وفروخت ہوگی تووہ رقم محسوب ہوجائے گی، جسے ایڈوانس اور بیعانہ کہتے ہیں)۔ ایک دن آپ درس دے رہے تھے کہ ایک سائل آیا اور اس نے کہا کہ اے ابو محمد! (آپ کی کنیت ہے) کل آپ نے جودرہم مجھ کوعطا کیے تھے وہ سب کے سب کھوٹے تھے، ابن وہب نے کہا کہ بھائی ہمارے پاس عموماً ہدیے اور عاریت کی رقمیں آتی ہیں جیسی رقمیں آتی ہیں ویسی ہی ہم تم کودیدیتے ہیں، رسائل کواس جواب سے تسکین نہیں ہوئی، وہ غصہ میں آکر برا بھلا کہنے لگا؛ یہاں تک کہہ ڈالا کہ خدا کی رحمت ہوجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجنہوں نے یہ فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب صدقات وخیرات کے ذریع امت کے منافقوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے، ابن وہب تواس تلخ کلامی پرخامش رہے؛ مگرایک نوجوان عراقی شاگرد کوبہت برا معلوم ہوا اور اس نے درس سے اُٹھ کراس فقیر کوایسا طمانچہ رسید کیا کہ وہ زمین پرگرگیا، اس نے شورمچانا شروع کیا اور پھرآپ کومخاطب کرکے کہنے لگا، اے ابو محمد! آپ کی مجلس میں لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، ابنِ وہب کوبھی یہ حرکت بری معلوم ہوئی، وہ مجلس سے اُٹھ کرواقعہ کی تفتیش کرنے لگے، معلوم ہوا یہ حرکت فلاں عراقی نوجوان نے کی ہے، آپ نے اس سے باز پرس کی، وہ نوجوان بولا: اُستاذ محترم میں نے آپ ہی کی زبان سے یہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہے کہ: من حمى لحم مؤمن من منافق يغتابه حمى الله لحمه من النار يوم القيامة۔ [20] ترجمہ:جوشخص کسی مؤمن کے عزت کی حفاظت اس منافق سے کرے جواس کی برائی کررہا ہے تواللہ تعالیٰ دوزخ سے اس کی حفاظت کرے گا۔ جب خدا نے عام مسلمانوں کی حمایت میں اتنے ثواب واجر کا وعدہ کیا ہے توآپ توامام وپیشوا ہیں، آپ کی حمایت سے تونہ جانے کتنا ثواب دربارِ الہٰی سے ملے گا، ابنِ وہب نے فرمایا کہ اگرتمہاری یہ نیت تھی توخدا تعالیٰ تم کواس کا بدلہ دے گا؛ پھرفرمایا اچھا اس سلسلہ کی دوسری حدیث بھی سن لو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کچھ ایسے مساکین ہوں گے جومالدار ہوں گے جونہ نماز کے لیے وضو کرتے ہوں گے اور نہ ناپاکی دور کرنے کے لیے غسل، جومسجدوں اور عیدگاہوں میں جاکر اپنا فضل اور اپنی بزرگی جتلاکر لوگوں سے سوال کریں گے اور یہ خیال بھی ان کوہوگا کہ یہ توہمارا حس ہے جوہم لوگوں سے وصول کرتے ہیں اور انپے اوپر خدا کا کوئی حق نہ سمجھتے ہوں گے۔ [21]

تلامذہ[ترمیم]

جن لوگوں نے ان کے درس سے فائدہ اُٹھایا ان میں چند مشاہیر کے نام یہ ہیں: عبد الرحمن ابن مہدی، یحییٰ بن یحییٰ، عبد اللہ بن یوسف، علی بن (المدینی)، یحییٰ بن بکیر، احمد بن صالح، اصبخ بن الفرج، یہ ابن وہب کے سب سے معتمد اور کثیرالروایت شاگرد ہیں، سحنون، احمد بن سعید الدارمی وغیرہ۔

عہدۂ قضا سے انکار[ترمیم]

حکومت کی عام بے راہ روی اور اس کی غیر اسلامی روش کی بناپر عام ائمہ تبع تابعین نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی مگراس سے کسی طرح کا تعلق رکھنا پسند نہیں کیا، اس لیے جوارباب فضل وکمال اس سے تعلق رکھتے تھے وہ عوام وخواص میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے، ابن وہب بھی انہی بزرگوں میں سے تھے جودربارِ خلافت سے اپنا دامن بچائے رہے؛ گواس سلسلہ میں ان کوکچھ مصائب بھی برداشت کرنے پڑے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عباد بن محمد والی مصر نے ان کوبلایا اور ان کے سامنے عہدۂ قضا پیش کیا؛ انھوں نے اس سے کسی طرح پیچھا چھڑایا اور چھپ گئے عباد کوان کے غائب ہوجانے کی اطلاع ملی تواس نے غصہ میں ان کا گھر گروادیا؛ اس کے باوجود انھوں نے اس عہدے کوقبول کرنا پسند نہیں کیا۔ [22] اس سلسلہ میں دوسری روایت ابن خلکان نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے نقل کی ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت نے خود ان کولکھا کہ آپ مصر میں عہدۂ قضاقبول کر لیں؛ مگرآپ نے اسے پسند نہیں کیا اور روپوش ہوکر خانہ نشین ہو گئے، ایک دن وہ گھر کے صحن میں وضو کر رہے تھے کہ اسد بن سعد آگئے؛ انھوں نے کہا کہ کیا یہ بہتربات نہیں تھی کہ آپ گھر سے باہر نکل کرکتاب وسنت کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتے (یہ اشارہ تھا عہدۂ قضا کے قبول کرلینے کی طرف) یہ سنج کرابنِ وہب نے سراُٹھایا اور بولے بس تمھاری عقل اسی قدر ہے، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ علما کا حشرابنیا کے ساتھ ہوگا اور قضاۃ کا سلاطین کے ساتھ [23] انھوں نے اس جملے میں اس وقت کے سلاطین کی غیر اسلامی روش اور اس کے انجام کی طرف کیسے بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے، پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عباد والیٔ مصر نے ان کوعہدۂ قضا پیش کیا اور دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خود خلیفہ نے براہِ راست ان کولکھا؛ مگران دونوں میں تضاد نہیں ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہوگا کہ خلیفہ نے والیٔ مصر عباد کولکھا ہوگا اور اُس نے ابن وہب کوبلاکریہ حکم سنایا ہوگا اور عدم تعمیل میں اس نے یہ روش اختیار کی ہوگی؛ جیسا کہ عموماً نیچے کے افسران کرتے رہتے ہیں؛ مگریہ توجیہ اس وقت صحیح ہو سکتی ہے جب یہ واقعہ سنہ164ھ کے بعد کا مانا جائے، اس لیے کہ قضاۃ کا تقرر سنہ164ھ سے پہلے صوبوں کے والیوں کے ہاتھ میں تھا سنہ164ھ سے خود خلفا نے اپنے ہاتھ میں اسے لے لیا تھا۔ [24]

زہدوعبادت[ترمیم]

زہد وعبادت میں ممتاز تھے، خاص طور سے زیارتِ حرمین کا جذبہ اُن میں عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا، سال کے چار مہینے وہ دیارِ حبیب کی آمدورفت میں گزاردیتے تھے؛ انھوں نے قریب قریب 36/حج کیے تھے [25] دوسری عبادات کا حال بھی یہی تھا، ساجی کا قول ہے کہ: وکان من العباد، ترجمہ: یہ عبادت گزاروں میں تھے۔ [26] خوفِ خدا اور قیامت کی باز پرس کا خیال خدا کا خوف اور قیامت کی باز پرس کا خیال ایک مؤمن کی نمایاں صفت ہونی چاہیے، یہ چیز اس کی زندگی میں جتنی شدت کے ساتھ موجود ہوگی، اس کی زندگی اتنی ہی پاکیزہ اور صالح ہوگی، ابنِ وہب پرخوفِ خدا کی کیفیت ہمہ وقت طاری رہتی تھی، ذراقیامت کی ہولناکی کا ذکر آیا اور ان کی آنکھیں بہ پڑیں بسااوقات بیہوش ہوجاتے تھے، ایک بار کسی نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت کی: وَإِذْيَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاء لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّاكُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِo قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّاكُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ۔ [27] ترجمہ:اور اُس وقت (کادھیان رکھو) جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے؛ چنانچہ جو (دُنیا میں) کمزور تھے، وہ اُن لوگوں سے کہیں گے جوبڑے بنے ہوئے تھے کہ ہم توتمہارے پیچھے چلنے والے لوگ تھے، توکیا تم آگ کا کچھ حصہ ہمارے بدلے خود لے لوگے؟o وہ جوبڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے کہ ہم سبھی اس دوزخ میں ہیں، اللہ تمام بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے۔ [28] آپ نے سنا توغشی کی کیفیت طاری ہو گئی اور بہت دیر تک یہ حالت رہی، خوف یہی شدت ان کی موت کا سبب بن گئی۔

مقام و مرتبہ[ترمیم]

امام سفیان بن عیینہ نے انھیں اہل مصر کا شیخ کہا ہے کہ انھوں نے مصر، حجاز اور عراق کے شیخوں سے سنا ہے کہ ان کے شیخ چار سو سے زیادہ تھے۔ تاہم، انھوں نے امام مالک کے ساتھ ایک طویل وقت گزارا ، ان سے سیکھا یہاں تک کہ وہ عالم بن گئے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے محبت کی اور ان کی تعریف کی یہاں تک کہ کہا گیا: ابن وہب کے علاوہ امام مالک کی ملامت سے کوئی نہیں بچ سکا۔ اس نے اسے فقیہ کہا اور اس نے اسے اپنے بارے میں لکھنے کی اجازت دی اور پھر ابن وہب کے بارے میں جو کچھ لکھا اس پر نظر ثانی کرنے میں کوئی اعتراض نہیں پایا کیونکہ وہ مصر میں مالکی مکتب فکر کے ناشرین میں سے ایک تھے۔ وہ مدینہ کا سفر کرنے سے قاصر تھے، اس لیے وہ ابن وہب کے پاس ان سے مالکی فقہ سیکھنے کے لیے جاتے تھے۔ جب امام مالک کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہوا تو وہ مصر سے ابن وہب کے آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ اس نے مصر میں قاضی کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا جب خلیفہ نے اسے اس کے بارے میں لکھا تو وہ چھپ گئے اور گھر میں ہی رہے۔ رشدین بن سعد نے اسے اپنے گھر کے صحن میں وضو کرتے ہوئے دیکھا اور کہا: کیا تم لوگوں کے پاس نہیں جاتے اور ان کے درمیان خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، پھر ابن وہب نے اس کی طرف سر اٹھایا اور کہا: یہ ہے؟ آپ کا دماغ کہاں ختم ہوتا ہے؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ علما انبیا کے ساتھ جمع ہوں گے اور سلطانوں کے ساتھ قاضی جمع ہوں گے؟ [29]

شیوخ[ترمیم]

تلامذہ[ترمیم]

تصانیف[ترمیم]

  • أهوال القيامة.
  • الموطأ، وسماه النديم: «الموطأ الصغير»، قال الذهبي: «موطأ ابن وهب كبير لم أره».
  • القدر وما ورد في ذلك من الآثار.
  • الجامع - صدر بتحقيق ميكلوش موراني.[31]
  • البيعة.
  • المناسك.
  • المغازي.
  • الردة.
  • تفسير غريب الموطأ.

وفات[ترمیم]

انھوں نے ایک کتاب احوالِ قیامت (قیامت کی ہولناکیاں) کے نام سے مرتب کی تھی، ایک دن کسی نے ان کے سامنے یہ کتاب پڑھنی شروع کی، ان پراس دن اتنا اثر ہوا کہ وہ بیہوش ہوکرگرپڑے اُٹھا کرگھرلائے گئے اور اسی حالت میں جان بحق ہو گئے، یہ حادثہ شعبان سنہ197ھ میں پیش آیا، سفیان بن عیینہ کوجب اس حادثہ کی اطلاع ملی تو إِنَّالِلّٰہِ پڑھا اور بڑے دردورنج میں ڈوبے ہوئے لہجہ میں فرمایا یہ عامۃ المسلمین اور خواص اہلِ علم دونوں کا حادثہ ہے۔ [32]

سیرت وکردار[ترمیم]

ان کی سیرت کے خط وخال دیکھے جا سکتے ہیں، ان کا دستور تھا کہ جب وہ کسی کی غیبت کرتے تواس کی پاداش میں ایک روزہ رکھتے تھے، ایک دن لوگوں سے کہا کہ مجھے روزہ رکھتے رکھتے ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ اب نفس کے اوپر روزوں کا رکھنا شاق نہیں گزرتا؛ اس لیے اب میں نے یہ طے کیا ہے کہ اب اگرکسی کی غیبت کروں گا توایک درہم خیرات کروں گا؛ چنانچہ ایک درہم کا صدقہ کرنا مجھ پر(تنگی کی وجہ سے) اتنا شاق گذرا کہ غیبت کرنے کی عادت ہی چھوٹ گئی۔ [33]

شوقِ جہاد[ترمیم]

میدانِ جہاد کی پرشور زندگی، علم وفن کی پرسکون زندگی کے ساتھ بہت کم جمع ہوتی ہے؛ مگرتبع تابعین میں عبد اللہ بن مبارک اور ابن وہب ان دونوں اوصاف کے جامع تھے، ابن وہب نے پورے سال کوتین کاموں کے لیے تقسیم کر دیا تھا، چار ماہ درس وتدریس کے لیے، چارماہ سفرِ حج کے لیے، چار ماہ باطل کوسرنگوں اور حق کوغالب کرنے کی جدوجہد کے لیے۔ [34]

تصنیف[ترمیم]

ابنِ قاسم ان کے بارے میں کہتے تھے، ان کے جیسا تدوین وتالیف کا کام کسی نے نہیں کیا [35] ابن خلکان نے لکھا ہے کہ: وله مصنفات في الفقه معروفة۔ ترجمہ: علم فقہ میں ان کی تصانیف معروف ومشہور ہیں۔ ان بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنی کافی تحریریں یادگاریں چھوڑی تھیں؛ مگرارباب تذکرہ صرف ان کی دوتین کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

مؤطا[ترمیم]

اس میں انھوں نے ان مرویات کوجمع کیا تھا جوانہوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنی تھیں، مؤطا کے جامعین ہزاروں ہیں؛ مگران میں محض پندرہ سولہ نسخے موجود ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہمیت تین مؤطاؤں کو ہے، موطا امام محمد، موطا یحییٰ بن یحییٰ (آج کل یہی متداول ہے) اور موطا ابن وہب؛ غالباً انھوں نے اس کا اختصار بھی کیا تھا، جس کا نام مؤطا صغیر رکھا تھا ان کی تیسری کتاب احوال قیامت ہے اس میں انھوں نے قیامت کی باز پرس اور دوزخ کی ہولناکی کا ذکر کیا ہے۔ [36]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119077124 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb155503535 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/8092 — بنام: ʿAbd Allāh Ibn Wahb
  4. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb155503535 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. ابن شاهين،كتاب تاريخ أسماء الثقات
  6. (ابن خلکان:1/445)
  7. (الانتفاء:48۔ بستان المحدثین:2)
  8. (تذکرۃ الحفاظ۔ تہذیب التہذیب:6/74)
  9. (تہذیب:6/72)
  10. (یہ تمام اقوال تہذیب:6/72 سے لیے گئے ہیں)
  11. (تہذیب:6/72)
  12. (سیر اعلام النبلا ذہبی)
  13. (تذکرہالحفاظ :278)
  14. (بستان المحدثین ذکرابن وہب)
  15. (بستان المحدثین:16)
  16. (تہذیب التہذیب:6/74)
  17. (تہذیب التہذیب:6/74)
  18. (انتقاد ذکریحییٰ:59)
  19. (تذکرۃ الحفاظ:279)
  20. (الجامع في الحديث،حدیث نمبر:314، صفحہ نمبر:1/430، شاملہ،الناشر: دارابن الجوزي)
  21. (بستان المحدثین، ذکرابن وہب)
  22. (تذکرۃ الحفاظ:1/279)
  23. (ابن خلکان:1/446)
  24. (ابن خلکان:1/446)
  25. (تذکرہ:1/279)
  26. (تہذیب:2/74)
  27. (المؤمنون(غافر):47،48)
  28. (توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:3/1443، مفتی تقی عثمانی، مدظلہ)
  29. ابن شاهين،كتاب تاريخ أسماء الثقات
  30. ابن الندیم، کتاب الفہرست
  31. ميكلوش موراني - المركز الاسلامي للدراسات الاستراتيجية آرکائیو شدہ 2017-10-15 بذریعہ وے بیک مشین
  32. (تہذیب:6/74)
  33. (بستان المحدثین)
  34. (تذکرۃ الحفاظ:1/279)
  35. (تذکرۃ الحفاظ:1/278)
  36. (عام تذکرے اور ابن خلکان :1/446۔ 1/446)

بیرونی روابط[ترمیم]

المكتبة الإسلامية - موقع إسلام ويب