مینار جام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مینار جام اور اس کے آثار قدیمہ
UNESCO World Heritage Site
مینار جام اور قصر زرفشاں 2005ء میں
اہلیتثقافتی: ii, iii, iv
حوالہ211
کندہ کاری2002ء (26واں دور)
خطرے کی زد میں2002ء-

مینار جام یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل مقام ہے جو مغربی افغانستان کے صوبہ غور میں ضلع شاہراک میں دریائے ہری کے کنارے پر واقع ہے۔ مینار جام 65 میٹر اونچا مینار ہے جو پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جو تقریباً 2400 میٹر تک بلند ہیں۔ یہ مینار 1190ء میں تعمیر کیا گیا تھا اور خالصتاّ بھٹی میں پکائی ہوئی سرخ اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔ یہ اپنی تعمیر میں استعمال ہونے والی مضبوط اینٹ، کشیدہ پھول کاریوں اور فن تعمیر کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس مینار پر کوفی اور نسخ انداز میں کیلیگرافی کی گئی ہے اور جیومیٹری کے اصولوں کے عین مطابق نہایت صفائی سے پھول بوٹے اور سورۃ مریم سے آیات کنندہ کیے گئے ہیں۔

دریافت نو[ترمیم]

صدیوں تک مینار جام کو بیرونی دنیا بھلا چکی تھی۔ 1880ء میں سر تھامس ہولدچ نے اسے دوبارہ دریافت کیا جو اس وقت افغان سرحدی کمشن کے رکن تھے۔ گو اس وقت عالمی طور پر اس کی دریافت نو کی پزیرائی نہ ہوئی، مگر 1957ء میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ آندرے ماریک اور وہیٹ ہربرگ نے اس علاقے میں تحقیقی دورے کیے جو 1970ء تک جاری رہے، جس میں مینار جام بارے از سرنو تحقیق شامل تھی۔ مزید تحقیق بہرحال 1979ء میں روسی حملے کے بعد ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئی۔
مینار جام کے آثار قدیمہ کو 2002ء میں افغانستان سے پہلے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر نامزد کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس مقام کو دنیا کے ان عالمی ورثوں میں بھی شامل کیا گیا، جن کی بقا ء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یونیسکو کے مطابق مینار کی خستہ حالت، یہاں گاہے بگاہے ہونے والی لوٹ مار کی وارداتوں اور قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلوں کے سبب اسے شدید خطرات لاحق ہیں۔

مقام[ترمیم]

جام مینار اور اس سے متعلقہ آثار قدیمہ کا مرکزی مینار گول ہے، جو آٹھ کونوں والی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس مینار کی دو لکڑی سے بنی بالکنیاں ہیں اور سب سے اوپر ایک لالٹین آویزاں ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس مینار کا مرکزی خیال مکمل طور پر دہلی کے قطب مینار سے ہم آہنگ ہے جو غور یوں نے تعمیر کروایا تھا۔ قطب مینار کے بعد، مینار جام دنیا میں دوسرا بڑا اینٹ سے تعمیر کیا گیا مینار ہے۔[1]
مینار جام وسط ایشیاء، ایران اور افغانستان میں 11ویں اور 13ویں صدی کے درمیانی عرصے میں تعمیر کیے جانے والے 60 میناروں میں سے ایک ہے، جن میں تیمور مینار اور غزنی کے دور کے مینار شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مینار اسلام یا اسلامی بادشاہوں کی فتح کی نشانی کے طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور ان میں ہی بعض کی حیثیت سادہ چوکیداری کے لیے بنائے گئے تھے۔ اس لحاظ سے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ تہذیبی اور بناوٹی حساب سے مینار جام ان چند میناروں میں شامل ہے جو خالصتاّ اسلامی فتوحات کی یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔
مینار جام کے آس پاس کے آثار سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک محل، قبرستان، عیدگاہ اور یہودیوں کی عبادت گاہ بھی تھی۔ ماہرین کے مطابق یہ کھنڈر قدیم تور قویض پہاڑی کے شہر کے ہیں۔

لاحق خطرات[ترمیم]

اس وقت مینار جام کو زمینی کٹاؤ، سیلابی پانی اور دریائے ہری اور دریائے جام کے ملاپ سے خطرات لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اکثر زلزلے بھی محسوس کیے جاتے ہیں، جو دوسرا قدرتی خطرہ ہے۔ یہاں پر لوٹ مار اور غیر قانونی تعمیرات نے بھی ان آثار کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ گو مینار اپنی بنیاد سے کھسک رہا ہے مگر اقوام متحدہ کی امداد سے اس کی بحالی اور حفاظت کا کام جاری ہے۔

تاریخ[ترمیم]

مزید دیکھیے: تاریخ افغانستان

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مینار جام اس مقام پر واقع ہے جو کبھی غوری سلطنت کا گرمائی دار الخلافہ ہوا کرتا تھا، اس شہر کو فیروز کوہ کہا جاتا تھا۔ 12ویں اور 13ویں صدی میں غوری نہ صرف افغانستان بلکہ مشرقی ایران، شمالی ہندوستان اور موجودہ پاکستان کے کچھ علاقوں پر حکمران تھے۔
عرب تاریخ میں مینار کی تعمیر بارے کوئی بھی مستند رائے موجود نہیں ہے۔ یہ 1193ء یا 1174ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مینار غوری سلطان غیاث الدین کی غزنوی سلطنت پر 1192ء میں فتح یا غزنی میں غزنوی کی 1173ء میں شکست کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مینار کا بڑا حصہ فیروز کوہ کی مرکزی جامع مسجد کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا، جو سیلاب میں بہہ گئی تھی اور موجودہ مینار اسی کی باقیات میں شامل ہیں۔ فیروز کوہ میں بیان کیا گیا سیلاب منگولوں کے اس علاقے پر حملے سے قلیل عرصہ پہلے آیا تھا۔ عالمی طور پر مینار جام کے آثار قدیمہ بارے تحقیقی منصوبے نے اس بات کا واضع پتہ چلایا ہے کہ مینار سے ملحقہ ایک بہت بڑی عمارت جو مسجد اور عدالت سے مشابہت رکھتی ہے دریافت کی گئی ہے۔ اس احاطے میں عمارت کے علاوہ باغ اور پختہ راستے بھی تعمیر کیے گئے تھے۔
1202ء میں غوری سلطان غیاث الدین کی وفات کے بعد سلطنت زوال کا شکار ہو گئی کیونکہ خوارزمیوں نے حملوں میں یہاں تباہی مچائی۔ بعد ازاں 1222ء میں منگول حملوں میں جوزانی اور فیروز کوہ شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔

گیلری[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

دریائے ہری، افغانستان

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اوم گپتا (17 اگست)۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا دائرۃ المعارف۔ گیان پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 1979ء 

بیرونی روابط[ترمیم]