اسرائیل میں مذہب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے



2016ء کو اسرائیل میں مذہب[1]

  یہودیت (74.7%)
  اسلام (17.7%)
  مسیحیت (2.0%)
  دروز (1.6%)
  دیگر/نامعلوم (4.1%)
دیوار گریہ اور قبۃ الصخرہ، یروشلم
(یروشلم پر اسرائیلی حکومت بین الاقوامی طور پر متنازع ہے۔[حاشیہ 1]

اسرائیل میں مذہب ملک کی مرکزی خصوصیت ہے جو اسرائیل کی ثقافت اور طرز زندگی کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مذہب نے اسرائیل کی تاریخ میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہودیوں کی اکثریت ہے۔ اسرائیل مرکزی دفتر شماریات کے مطابق، 2011ء میں آبادی کے 75.4% یہودی، 20.6% عرب اور 4.1% اقلیتی گروہ تھے۔[2] 2006ء میں اسرائيلی آبادی کی مذہبی وابستگی کے مطابق[1] 74.7% یہودی، 17.7% مسلمان، 2.0% مسیحی اور 1.6% دروز، باقی 4.1% چھوٹی اقلیتیں سامریت اور بہائیت اور لا مذہب افراد پر مشتمل ہیں۔[3][4]

اسرائیل کا آئین نہیں ہے۔ جب کہ اسرائيل کے بنیادی قوانین آئین کے متبادل کے طور پر لاگو ہیں جن کی رو سے اسرائیل "یہودی ریاست" ہے، ان بنیادی قوانین، مع کنیست کے قوانین، اسرائیل کی سپریم کورٹ کے فیصلے اور اسرائیل میں موجودہ قانون عامہ کے مختلف عناصر، ملک میں مذہبی آزادی کے لیے کچھ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔[5][6] پیو ریسرچ سینٹر اسرائیل نے ان ممالک میں سے ایک کی حیثیت سے شناخت کی ہے جو مذہب پر "بڑی" پابندیاں رکھتی ہیں، [7] اور یہودیوں کے غیر آرتھوڈوکس عقیدے پر حدیں موجود ہیں۔[8] کچھ اہم تبدیلیوں کے ساتھ۔، غیر یہودی برادریوں کی قانونی رہائش عثمانی اور برطانوی انتظامیہ کے طرز عمل کے مطابق ہیں۔ اسرائیلی قانون باضابطہ پانچ مذاہب کو تسلیم کرتا ہے، ابراہیمی مذاہب کی تمام شاخیں: یہودیت، مسیحیت، اسلام، دروز اور بہائیت۔ مزید، یہ قانون مسیحیت کے دس فرقوں: رومنی، آرمینیائی، میرونائیٹ، مشرقی کاتھولک کلیسیا، شامی اور کلدانی کاتھولک کلیسیا; مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا یونانی راسخ الاعتقاد کلیسیا; اورینٹل راسخ الاعتقادی سریانی راسخ الاعتقاد کلیسیا; آرمینیائی رسولی کلیسیا; اور انگلیکانیت کو باضابطہ تسلیم کرتا ہے۔[9][10] مذہبی گروہوں کے درمیان میں تعلقات - یہودیوں اور غیر یہودیوں کے درمیان، مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان میں اور یہودیت کے مختلف فرقوں کے درمیان، جیسے آرتھوڈوکس، اصلاح پسندوں اور قدامت پرستوں کے درمیان میں تعلقات اکثر کشیدگی کا شکار ہیں۔[5]

مذہبی گروہ[ترمیم]

یہودیت[ترمیم]

اسرائيل میں اکثریت یہودیوں کی ہے، [11] 2015ء کے آخر تک اسرائیلی یہود اسرائیل کی کل آبادی کا 74.9% تھے۔[12]

راسخ الاعتقاد[ترمیم]

حریدی یہودیت جسے بعض اوقات خریدی (جمع حریدیت یا خریدیت) بنیاد پرست یہودیت کی ایک بڑی شاخ ہے جو موجودہ دور کے سیکولر رحجان کی نفی کرتا ہے۔ اس کے اراکین کو انتہائی بنیاد پرست یا انگریزی میں الٹرا آرتھوڈاکس کہا جاتا ہے حالانکہ اس کے بہت سے اراکین اس اصطلاح کو منفی سمجھتے ہیں۔[13] حریدی خود کو مصدقہ یہودیوں میں سب سے زیادہ مذہبی گردانتے ہیں[14] تاہم دیگر فرقے اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔[15][16]

حریدی لوگ زیادہ تر اسرائیل، شمالی امریکا اور مغربی یورپ میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی کل تعداد کا تخمینہ پندرہ سے اٹھارہ لاکھ کے درمیان میں ہے اور چونکہ یہ لوگ بین المذاہب شادی کے خلاف ہیں اور ان کی شرح پیدائش زیادہ ہے، اس لیے ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بال تشووا تحریک کے نتیجے میں غیر مذہبی یہودی بھی ان میں شامل ہو رہے ہیں۔[17][18][19][20]

ربی اعظم اسرائیل[ترمیم]

ربی اعظم اسرائیل اسرائیل کا ایک قانونی منصب ہے[21] جس پر فائز شخص دنیائے یہود کا روحانی و فقہی پیشوا ہوتا ہے اور ربی اعظم کہلاتا ہے۔ سنہ 1921ء میں برطانوی انتداب نے فلسطین میں اس منصب کو قائم کیا اور ربی اسحق کوک پہلے ربی اعظم بنے۔ اس منصب کے لیے بیک وقت دو افراد سفاردی یہودیوں سے ایک اور اشکنازی یہودیوں سے ایک منتخب کیے جاتے ہیں۔[22] ربی اعظم کے ذمہ دنیا بھر میں بسنے والے یہودیوں کی جانب سے آنے والے استفتا کا جواب نیز یہود کے مذہبی و عائلی معاملات مثلاً نکاح، طلاق، حلال غذا وغیرہ میں فتوے دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس منصب کی مدت کار دس برس ہے۔

مسیحیت[ترمیم]

مسیحیت اسرائیل میں بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی کل آبادی میں سے 169,000 مسیحی ہیں جو 2.0% بنتے ہیں۔ ان میں 133,000 مسیحی عرب شامل ہیں، جن کی اکثریت (اسرائیلی مسیحیوں میں سے 60%) کا تعلق رومی ملکینی کاتھوک کلیسیا سے یا یروشلم کے رومی راسخ الاعتقاد کلیسیا سے ہے، اس کے ساتھ ساتھ لاطینی کلیسیا، مارونی، قبطی اور پروٹسٹنٹ ہیں، تقریباً 25،000 سویت اتحاد کے راسخ الاعتقاد روسی مسیحی (روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا) اور قلیل تعداد میں اشوری اور آرمینیائی مسیحی ہیں۔ اسرائیلیوں کی ایک مخصوص تعداد مسیحانہ یہودیت پر کاربند ہے، عام طور پر اسے مسیحیت کا اجتماع نقیضین سمجھا جاتا ہے، اس کے پیروکاروں کی تعداد جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن درست تعداد کا علم نہیں۔

اسرائيلی مسیحیوں میں سے 80 فیصد عرب مسیحی ہیں، جو تاریخی طور پر پڑوسی لبنان، شام اور فلسطینی مسیحیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ 1،000 قبائلی مسیحیوں کی ایک برادری اسرائیل میں موجود ہے، اگرچہ ان کی عرب شناخت متنازع ہے لیکن ان کا اندراج عرب مسیحیوں کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ مسیحی عرب اسرائیل کے تعلیم یافتہ گروہوں میں سے ایک ہے۔ اخبار معاریف نے مسیحی عربوں کو اسرائیل میں تعلیم کے میدان میں سب سے کامیاب قوم قرار دیا ہے۔[23]

اسلام[ترمیم]

اسلام اسرائیل کا ایک بڑا مذہب ہے، جس کی بڑی آبادی اسرائیلی کے عرب شہریوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان اسرائیلی آبادی کا 17.4٪ ہیں۔[24] یہ اسرائیل میں مذہبی افراد کی یہودیوں کے بعد دوسری بڑی تعداد ہے۔

سعودی عرب کے شہروں مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے بعد یروشلم شہر اسلام میں تیسرا مقدس شہر ہے۔[25] یروشلم میں ہی حرم قدسی شریف ہے، جہاں سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت کی سیر کے لیے لے جایا گیا۔[26] یہ عقیدہ مسلمانوں کے لیے مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخریٰ کو تقدیس عطا کرتا ہے۔ اسلامی وقف جو اس مقام کا نگران ادارہ ہے اس کی طرف سے، صرف مسلمانوں کو ہی حرم قدسی (جسے یہودی ہیکل دوم کا نام دیتے ہیں) میں باجماعت عبادت (نماز) کی اجازت ہے۔

دروز[ترمیم]

دروز اسرائیل کی عربی النسل اقلیت کا ایک منفرد شناخت کا حامل مذہبی گروہ ہے۔ [27] سنہ 2012ء میں اسرائیل میں رہنے والے دروزوں کی کل تعداد 130600 تھی۔[28] گوکہ ان کا عقیدہ اسماعیلی مذہب سے وجود میں آیا ہے مگر ان کو مسلمان تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ سنہ 1957ء میں حکومت اسرائیل نے دروزی رہنماؤں کی درخواست پر ان کو ایک الگ نسلی گروہ کی شناخت دی۔ دروز عربی زبان بولتے ہیں، اسرائیل کے باشندے ہیں اور اسرائیلی دفاعی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس گروہ کے کئی ارکان کو اسرائیل کی سیاست میں اہم عہدے عطا کیے گئے ہیں۔[29] اسرائیل کے اعلان آزادی سے قبل دروز کو ایک علاحدہ مذہبی گروہ کے طور پر شناخت نہیں ملی تھی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا تھا۔ [30] اس وقت وہ ملک کے شمالی میں حصے میں رہتے تھے۔[31]

مذاہب کا حجم بلحاظ سال[ترمیم]

اسرائیل میں مذہب
     یہود ·      اسلام ·      مسیحیت ·      دروز ·      دیگر۔
1995ء تک مسیحوں کو دیگر کے تحت ہی شمار کیا جاتا رہا۔[32]

مردم شماری کے نتائج ہزاروں میں ہیں۔[1][33]

سال دروز % مسیحی % مسلمان % یہود % کل
1948ء 758.7
1950ء 15.0 1.09 36.0 2.63 116.1 8.47 1,203.0 87.80 1,370.1
1960 23.3 1.08 49.6 2.31 166.3 7.73 1,911.3 88.88 2,150.4
1970 35.9 1.19 75.5 2.50 328.6 10.87 2,582.0 85.44 3,022.1
1980 50.7 1.29 89.9 2.29 498.3 12.71 3,282.7 83.71 3,921.7
1990 82.6 1.71 114.7 2.38 677.7 14.05 3,946.7 81.85 4,821.7
2000 103.8 1.63 135.1 2.12 970.0 15.23 4,955.4 77.80 6,369.3
2010 127.5 1.66 153.4 1.99 1,320.5 17.16 5,802.4 75.40 7,695.1
2011 129.8 1.66 155.1 1.98 1,354.3 17.28 5,907.5 75.38 7,836.6
2012 131.5 1.65 158.4 1.98 1,387.5 17.38 5,999.6 75.14 7,984.5
2013 133.4 1.64 160.9 1.98 1,420.3 17.46 6,104.5 75.04 8,134.5
2014 135.4 1.63 163.5 1.97 1,453.8 17.52 6,219.2 74.96 8,296.9
2015 137.3 1.62 165.9 1.96 1,488.0 17.58 6,334.5 74.84 8,463.4
2016 139.3 1.61 168.3 1.95 1,524.0 17.66 6,446.1 74.71 8,628.6
2017 141.2 1.60 171.9 1.95 1,561.7 17.75 6,554.5 74.50 8,797.9

2011ء میں، غیر عرب مسیحیوں کا تخمینہ 25,000 تھا، جب وہ "یہودی اور دیگر" کے طور پر شمار کیے گئے تھے۔[34]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ "Statistical Abstract of Israel 2017"۔ Central Bureau of Statistics۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2018 
  2. Haaretz Service (16-09-2009)۔ "Israel on eve of Rosh Hoshanah: Population hits 7.5m, 75.4% Jewish"۔ Haaretz. http://www.haaretz.com/hasen/spages/1115060.html آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ haaretz.com (Error: unknown archive URL)۔ اخذکردہ بتاریخ 2009-12-26.
  3. Seena Fazel (2012)۔ THE BAHA’IS OF IRAN: Socio-Historical Studies۔ صفحہ: 223 
  4. "Table 2.1 — Population, by Religion and Population. As of may 2011 estimate the population was 76.0 Jewish. Group"۔ Statistical Abstract of Israel 2006 (No. 57)۔ Iاسرائیل مرکزی دفتر شماریات۔ 2006۔ 14 ستمبر 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  5. ^ ا ب "Israel and the Occupied Territories"۔ U.S. Department of State 
  6. "Basic Law: Human Dignity and Liberty"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2018 
  7. "Global Restrictions on Religion (Full report)" (PDF)۔ The Pew Forum on Religion & Public Life۔ دسمبر 2009۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2013 
  8. "U.S. Department of State: 2012 Report on International Religious Freedom: Israel and The Occupied Territories (20 مئی، 2013)"http://www.state.gov/j/drl/rls/irf/2012/nea/208392.htm
  9. Shimon Sheetrit (2001-08-20)۔ "Freedom of Religion in Israel"۔ Israel Ministry of Foreign Affairs۔ 6 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2008 
  10. "Freedom of Religion in Israel"۔ www.jewishvirtuallibrary.org (بزبان انگریزی)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2017 
  11. "Population, by Population Group" (PDF)۔ Monthly Bulletin of Statistics۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ 31 دسمبر 2013۔ 03 فروری 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2014 
  12. "Population of Israel on the eve of 2016"۔ Press Release۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ 31 دسمبر 2015۔ 9 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2016 
  13. Lauren Markoe (فروری 6, 2014)۔ "Should ultra-Orthodox Jews be able to decide what they're called?"۔ Washington Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2017 
  14. Tatyana Dumova، Richard Fiordo (30 ستمبر 2011)۔ Blogging in the Global Society: Cultural, Political and Geographical Aspects۔ Idea Group Inc (IGI)۔ صفحہ: 126۔ ISBN 978-1-60960-744-9۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2018۔ Haredim regard themselves as the most authentic custodians of Jewish religious law and tradition which, in their opinion, is binding and unchangeable. They consider all other expressions of Judaism, including Modern Orthodoxy, as deviations from God's laws. 
  15. Nora L. Rubel (2010)۔ Doubting the Devout: The Ultra-Orthodox in the Jewish American Imagination۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 148۔ ISBN 978-0-231-14187-1۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2013۔ Mainstream Jews have—until recently—maintained the impression that the ultraorthodox are the 'real' Jews. 
  16. Ilan 2012: "One of the main sources of power enabling Haredi Jews' extreme behavior is the Israeli public's widely held view that their way of life represents traditional Judaism, and that when it comes to Judaism, more radical means more authentic. This is among the most strongly held and unfounded myths in Israel society."
  17. Šelomo A. Dešen، Charles Seymour Liebman، Moshe Shokeid (1 جنوری 1995)۔ Israeli Judaism: The Sociology of Religion in Israel۔ Transaction Publishers۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-1-4128-2674-7۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2018۔ The number of baalei teshuvah, "penitents" from secular backgrounds who become Ultraorthodox Jews, amounts to a few thousand, mainly between the years 1975–87, and is modest compared with the natural growth of the haredim; but the phenomenon has generated great interest in Israel. 
  18. Harris 1992, p. 490: "This movement began in the US, but is now centred in Israel, where, since 1967, many thousands of Jews have consciously adopted an ultra-Orthodox lifestyle."
  19. Weintraub 2002, p. 211: "Many of the Ultra-Orthodox Jews living in Brooklyn are baaley tshuva, Jews who have gone through a repentance experience and have become Orthodox, though they may have been raised in entirely secular Jewish homes."
  20. Returning to Tradition: The Contemporary Revival of Orthodox Judaism, By M. Herbert Danzger: "A survey of Jews in the New York metropolitan area found that 24% of those who were highly observant … had been reared by parents who did not share such scruples. […] The ba'al t'shuva represents a new phenomenon for Judaism; for the first time there are not only Jews who leave the fold … but also a substantial number who "return"۔ p. 2; and: "Defined in terms of observance, then, the number of newly Orthodox is about 100,000." p. 193.
  21. ""Chief Rabbinate of Israel Law, 5740 (1980)""۔ 17 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2018 
  22. موسوعة اليهود واليهودية، المسيري، جلد ہفتم
  23. "המגזר הערבי נוצרי הכי מצליח במערכת החינוך"۔ Nrg.co.il۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2016 
  24. Israel آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cia.gov (Error: unknown archive URL)۔ CIA Factbook
  25. "From the article on Islam in Palestine and Israel in Oxford Islamic Studies Online"۔ 02 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2018 
  26. Hunt Janin (2005)۔ The Pursuit of Learning in the Islamic World, 610-2003۔ McFarland, 2005۔ ISBN 0-7864-1954-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2015 
  27. 5 facts about Israeli Druze, a unique religious and ethnic group | Pew Research Center
  28. "Sources of Population Growth, by District, Population Group and Religion" (PDF)۔ CBS, Statistical abstract of Israel 2013۔ مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل۔ 2013۔ 05 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2014 
  29. Religious Freedoms: Druze۔ Theisraelproject.org. اخذکردہ بتاریخ on 2012-01-23. آرکائیو شدہ 2012-09-14 بذریعہ archive.today
  30. Aharon Layish (1982)۔ Marriage, Divorce, and Succession in the Druze Family: A Study Based on Decisions of Druze Arbitrators and Religious Courts in Israel and the Golan Heights۔ Leiden, The Netherlands: E. J. Brill۔ صفحہ: 12۔ ISBN 90-04-06412-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2014 
  31. Dr. Naim Aridi۔ "The Druze in Israel: History & Overview"۔ Jewish Virtual Library۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2012 
  32. "آبادی بلحاظ مذہب"۔ Israel Central Bureau of Statistics۔ 4 ستمبر 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2018 
  33. "Statistical Abstract of Israel 2014 – No. 65 Subject 2 – Table No. 2" 
  34. Juni Mansur (2012) Arab Christians in Israel. Facts, Figures and Trends۔ Dyar. آئی ایس بی این 978-9950-376-14-4۔ pp.13,20

حواشی[ترمیم]

  1. The Jerusalem Law states that "Jerusalem, complete and united, is the capital of Israel" and the city serves as the seat of the government, home to the President's residence, government offices, supreme court, and Knesset۔ United Nations Security Council Resolution 478 (20 Aug 1980; 14–0, U.S. abstaining) declared the Jerusalem Law "null and void" and called on member states to withdraw their diplomatic missions from Jerusalem. The United Nations and all member nations refuse to accept the Jerusalem Law (see Kellerman 1993, p. 140) and maintain their embassies in other cities such as Tel Aviv, Ramat Gan اور Herzliya (see the CIA Factbook آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cia.gov (Error: unknown archive URL) and Map of Israel)۔ The U.S. Congress subsequently adopted the Jerusalem Embassy Act، which said that the U.S. embassy should be relocated to Jerusalem and that it should be recognized as the capital of Israel. However, the US Justice Department Office of Legal Counsel concluded that the provisions of the act "invade exclusive presidential authorities in the field of foreign affairs and are unconstitutional"۔ Since passage of the act, all Presidents serving in office have determined that moving forward with the relocation would be detrimental to U.S. national security concerns and opted to issue waivers suspending any action on this front. The Palestinian Authority sees East Jerusalem as the capital of a future Palestinian state۔ The city's final status awaits future negotiations between Israel and the Palestinian Authority (see "Negotiating Jerusalem"، Palestine–Israel Journal)۔ See Positions on Jerusalem for more information.

کتابیات[ترمیم]

  • Leibman, Charles S. Religious and Secular: Conflict and Accommodation Between Jews in Israel. AVICHAI, 1990
  • Leibman, Charles S. and Elihu Katz, eds. The Jewishness of Israelis: Responses to the Guttman Report. SUNY Press, 1997
  • Mazie, Steven V. Israel's Higher Law: Religion and Liberal Democracy in the Jewish State. Lexington Books, 2006

بیرونی روابط[ترمیم]