دوسرا فتنہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دوسرا فتنہ
سلسلہ فتنہ

Territorial control by the contenders to the caliphate during the peak of the civil war (686)
تاریخ680ء –692ء
مقامجزیرہ نما عرب, بلاد الشام, Iraq
نتیجہ فتح بنوامویہ
مُحارِب
خلافت امویہ عبد اللہ ابن زبیر علوی خارجی
کمان دار اور رہنما
یزید بن معاویہ
مسلم بن عقبہ
Umar ibn Sa'ad (686) 
مروان بن حکم
عبد الملک بن مروان
ابن زیاد (686) 
حصین بن نمیر (686) 
حجاج بن یوسف
عبد اللہ ابن زبیر (692) 
Mus'ab ibn al-Zubayr (691) 
Ibrahim ibn al-Ashtar (691) 
مہلب بن ابی صفرہ (Defected)
حسین ابن علی (680) 
سلیمان بن صرد خزاعی (685) 
مختار ثقفی (687) 
Ibrahim ibn al-Ashtar (Defected)
نافع بن الازرق (685) 
نجدہ بن عامر (692) 

دوسرا فتنہ خلافت امویہ کے ابتدائی دور میں اسلامی معاشرے میں عام سیاسی اور فوجی اضطراب اور تنازعات کا دور تھا۔[note 1] 680ء میں پہلے اموی خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان کی وفات کے بعد اس فتنہ کا سلسلہ بارہ سال تک جاری رہا۔

پس منظر[ترمیم]

656ء میں جب باغیوں کے ذریعہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کا قتل ہوا تو اس کے بعد باغیوں نے بھی اور مدینہ اور مکہ کے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچیرے بھائی اور داماد، حضرت علی کے چوتھے خلیفہ راشد ہونے کا اعلان کیا۔ بیشتر قریش (مکہ کے قبیلوں کی گروہ بندی جس میں محمد اور تینوں خلیفہ، ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی تعلق رکھتے تھے) نے علی کو ماننے سے انکار کر دیا، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو ممتاز صحابہ طلحہ ابن عبید اللہ، زبیر بن العاوم اور زوجہ اُم المومنین عائشہ بنت ابی بکر شامل تھے۔ انھوں نے، صحابہ طلحہ ابن عبید اللہ، زبیر بن العاوم اور اُم المومنین عائشہ بنت ابی بکر، حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لینے اور شوری (مشاورت) کے ذریعہ ایک نئے خلیفہ کے انتخاب کا مطالبہ کیا۔ ان واقعات نے پہلا فتنہ پیش کیا۔ نومبر 656ء میں بصرہ کے قریب جنگ جمل کی لڑائی میں حضرت علی کو فتح حاصل ہوئی، اس کے بعد آپ نے اپنا دار الحکومت عراق کے شہر کوفہ منتقل کر دیا۔[2] حضرت معاویہ جو اس وقت شام کے گورنر تھے اور اموی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جس سے حضرت عثمان کا تعلق تھا، نے بھی علی کے خلیفہ ہونے کی مذمت کی اور دونوں نے ایک غیر فیصلہ کن جنگ لڑی جس کو جنگ صفین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جنگ جولائی 657ء میں تعطل کے نتیجے میں ختم ہوئی جب حضرت علی کی افواج نے حضرت معاویہ کے ثالثی کے جواب میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ علی ہچکچاتے ہوئے بات چیت پر راضی ہو گئے لیکن ان کی افواج کا ایک گروہ، جسے بعد میں خارجیوں کے نام سے پکارا گیا ، نے احتجاج کیا اور خارجیوں نے ثالثی کو قبول کرنے کی توہین کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔[3] ثالثی سے معاویہ اور علی کے مابین تنازع حل نہیں ہو سکا۔ خارجیوں نے علی بن ابی طالب کے کچھ فوجیوں کو قتل کر ڈالا، لیکن جلد ہی 658ء میں جنگ نہروان میں علی بن ابی طالب کی افواج نے خارجیوں کو کچل ڈالا۔ یہی وجہ تھی جنوری 661ء میں خارجیوں کے ایک گروہ نے حضرت علی کو قتل کیا۔[4] علی بن ابی طالب کے سب سے بڑے صاحبزادے حسن خلیفہ بنے، لیکن معاویہ نے حضرت حسنکے اختیار کو چیلنج کیا اور عراق پر حملہ کر دیا۔ اگست میں، حضرت حسن نے خلافت کوحضرت معاویہ سے ایک معاہدے کے تحت ترک کر دیا، اس طرح پہلا فتنہ ختم ہوا۔ اس کے بعد دار الحکومت دمشق منتقل کر دیا گیا۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Gardet 1965, p. 930.
  2. Donner 2010, pp. 157–159.
  3. Donner 2010, pp. 161–162.
  4. Donner 2010, p. 166.
  5. Donner 2010, p. 167.