سید عبدالمنان (ڈاکٹر)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈاکٹر سید عبد المنان

معلومات شخصیت
پیدائش 10 مئی 1914(1914-05-10)
حیدرآباد، مملکت آصفیہ
وفات جولائی 17، 2009(2009-70-17) (عمر  95 سال)
حیدرآباد، دار الحکومت تلنگانہ، بھارت
قومیت بھارتی
عملی زندگی
پیشہ طبیب حاذق
دور فعالیت 1950ء-2009ء
وجہ شہرت طبی خدمات، فلاحی خدمات، اسپتالوں کے قیام اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں سے وابستگی

ڈاکٹر سید عبد المنان (10 مئی 1914ء-17 جولائی ،2009ء) حیدرآباد، دکن سے وابستہ ایک مشہور طبیب، خدمت خلق اور مسلمانوں کے تعلیمی اور فلاحی اداروں سے وابستہ مشہور شخصیت تھی۔

خاندان[ترمیم]

عبد المنان حیدرآباد کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام عبد العلی تھا۔ جب وہ بہ مشکل 5 سال کے تھے اپنے والد کے سائے سے محروم ہو گئے۔ اس لیے وہ اپنی ماں کی زیر تربیت رہے۔ ان کے ایک خالہ زاد بھائی غلام احمد خاں تھے جو بعد میں پاکستان آئے اور فاطمہ جناح کے ذاتی سیکریٹری بنے تھے۔[1]

اسکولی تعلیم[ترمیم]

سید عبد المنان نے دارالشفاء مڈل اسکول سے مِڈِل کا سرکاری امتحان کامیاب کیا۔ 1929ء میں انھوں نے دوسرے درجے میں میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔[1]

چند مشہور اسکولی ساتھی[ترمیم]

عبد المنان کے مشہور اسکولی ساتھیوں میں عبد الجبار حیدرآباد سیول سروس میں بھرتی ہوئے اور ایک جعفر علی خان تھے جو بعد میں برگیڈیئر بن کر بھارتی فوج سے سبکدوش ہوئے تھے۔[1]

انٹرمیڈیٹ تعلیم[ترمیم]

عبد المنان نے انٹرمیڈیٹ میں حیوانیات اور نباتیات کے مضامین کا مطالعہ کیا۔ وہ درجہ دوم میں فارغ ہوئے۔[1]

طبی علوم کا مطالعہ[ترمیم]

انٹرمیڈیٹ کے بعد سید عبد المنان جامعہ عثمانیہ میں شریک ہوئے۔ ان کی جماعت میں 13 طالب علم تھے۔ وہ دوران تعلیم پہلے اور دوسرے سال جماعت میں اول رہے۔[1]

طبی مطالعہ کے دوران مشہور ہم درس[ترمیم]

سید عبد المنان کے ہم درسوں میں ایک احمد محی الدین تھے۔ وہ ایک مشہور ماہر تشریح الاعضا (Anatomist) تھے۔ انھوں نے اس مضمون پر ایک عالمی شہرت یافتہ کتاب لکھی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں 9 طبی کالجوں کو قائم کیے تھے جن میں پاکستان کے حیدرآباد شہر کا لیاقت میڈیکل کالج اور پشاور میں ایک میڈیکل کالج شامل ہیں۔[1]

ایم بی بی ایس کی تکمیل اور بیرونی تعلیم[ترمیم]

1937ء میں ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد سید عبد المنان نے سلطان بازار، خیریت آباد اور نام پلی جیسے محلوں کے اسپتالوں / مطبوں میں کام کیا۔ 1940ء میں وہ فوج کے لیے منتخب ہوئے اور وہ لیفٹنٹ بنے۔ 1947ء میں حکومت حیدرآباد کے فوجی اسپتال میں برخدمت رہے اور کماندار اعلٰی (ولی عہد) کے اسٹاف سرجن بھی بن گئے۔ پھر وہ اعلٰی تعلیم کے لیے انگلستان گئے ایڈنبرا اور گلاسگو سے ایم آر سی پی اور ایم آر سی ایس کے ڈپلوما حاصل کیے۔ [1]

بیرونی تعلیم کے بعد طبی دنیا میں عملی قدم[ترمیم]

سید عبد المنان برطانیہ میں تعلیم کے دوران فرانس، اطالیہ اور سویٹزرلینڈ کے اسپتالوں کا دورہ کیا اور طریقہ علاج کی عملی معلومات حاصل کی۔ وطن واپسی تک چونکہ حیدرآباد بھارت کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے وہ حیدرآباد سے متصل جڑواں شہر سکندرآباد کے تِرُمَلگِری علاقے میں بھارتی فوج کے ایک اسپتال میں 1950ء سے مارچ 1951ء کے بیچ خدمات انجام دی۔ اس کے بعد وہ خانگی طور پر خدمات انجام دینے لگے۔[2]

خانہ آبادی[ترمیم]

1938ء میں سید عبد المنان کی شادی ہوئی۔ ان کی رفیقہ حیات کا نام ممتاز النساء بیگم تھا۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی انھیں پیدا ہوئے جو اعلٰی تعلیم بھی پائے۔ جبکہ ایک اور لڑکا 22 سال کی عمر میں وفات کر گیا۔[1]

ادارہ جاتی وابستگیاں[ترمیم]

1969ء سے 1978ء تک سید عبد المنان میڈیکل کونسل آف انڈیا کے رکن رہے۔ 1965ء سے 1978ء تک وہ حیدرآباد کی مشہور انوار العلوم یجوکیشنل سوسائٹی اور انوار العلوم کالج کے اعزازی سیکریٹری رہے۔ 1967ء سے کئی سالوں تک شہر حیدرآباد میں مسلمانوں کو بلا سودی اساس پر قرضوں کی فراہمی والے ادارے طور بیت المال کے صدر رہے۔ سابقہ ریاست حیدرآباد کی شہزادی اسرٰی کی خواہش پر حیدرآباد کے غریب اور بالخصوص پرانے شہر کے عوام کے لیے انھوں نے اسرٰی ہاسپٹل قائم کیا اور 1972ء سے 1992ء تک اسے چلاتے رہے۔ وہ کئی سال سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی کی مجلس نظماء کے بھی رکن رہے۔ یہ سوسائٹی انجینئری، قانون، ایجوکیشن، بزنس مینیجمنٹ، انٹرمیڈیٹ وغیرہ کالجس اور ایک اسکول چلاتی ہے۔ وہ اپنے طبی کالج کے طلبۂ قدیم کے 8 سال تک صدر رہے۔[1] انھیں 17 مارچ 2009ء کو جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کی جانب سے نامور عثمانین کا اعزاز دیا گیا تھا۔[3]

اردو اور اسلامی اقدار کے لیے سرگرمی[ترمیم]

ڈاکٹر سید عبد المنان کئی اردو اداروں سے جڑے ہوئے تھے۔ ان ہی کی کوششوں اور کچھ دیگر اصحاب خیر کے تعاون سے رمضان 1328ھ میں حیدرآباد میں واقع اقبال اکیڈمی (جو تیسری منرل پر واقع ہے)، ایک لفٹ بنایا گیا، جس سے لوگوں کے آنے جانے میں کافی سہولت ہوئی۔[4]

بیرونی اسفار[ترمیم]

خدمت خلق کا جذبہ[ترمیم]

سید عبد المنان کئی پیچیدہ اور ایسی امراض جن کی صحیح کیفیت دوسرے ڈاکٹر نہیں سمجھتے تھے، بڑی آسانی سے جانتے اور صحیح علاج تجویز کرتے۔ وہ بے ضرورت مہنگے لیاب معائنوں کے قائل نہیں تھے۔ وہ خود سے مریضوں سے فیس کا مطالبہ نہیں کرتے تھے، اگر کوئی دیتا تو لے لیتے ورنہ فی سبیل اللہ علاج کرتے۔ کچھ ضرورت مند مریضوں کا نہ صرف انھوں نے علاج مفت کیا، بلکہ دوا اور پھل کے پیسے بھی اپنے پاس سے دیے۔ جب وہ طویل العمری کے زمانے میں علٰحدہ مطب کی بجائے حیدرآباد کے بنجارا ہلز میں واقع اپنے گھر ہی پر علاج کر رہے تھے، تب وہ گھر کے پاس ایک دواؤں کی دکان سے یہ طے کر چکے تھے کہ ضرورت مندوں کے علاج کے لیے جب بھی وہ نسخہ لکھتے، دکان دار مفت دوائیں فراہم کرتا، بس نسخے کا ایک زیراکس اپنے پاس محفوظ رکھتا۔ ہر مہینے کے اختتام پر ان نسخوں کی زیراکس پیش ہوتے تھے اور دکان دار کو قیمت دی جاتی تھی۔

سید عبد المنان اقبال اکیڈمی اور کئی اردو انجمنوں سے تا حیات جڑے رہے۔ وہ کئی کتابوں کی اشاعت اور اردو ادب کے فروغ سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے ان مستحسن اقدامات پر ایک طالبہ نے ایم فل کا مقالہ بھی لکھا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ "ڈاکٹر سید عبد المنان: طبیب لہیب" از شاہ بلیغ الدین، سہ ماہی پھولبن، حیدرآباد، جنوری تا مارچ، 2016ء، صفحات 28-31
  2. "ڈاکٹر سید عبد المنان اور ڈاکٹر رائے منوہر راج سکسینہ کے انتقال پرملال پر اردو ہال حمایت نگر میں 25/ جولائی 2009ء کو منعقدہ جلسہ تعزیت میں غلام یزدانی سینیر ایڈوکیٹ کا خطاب" سہ ماہی پھولبن، حیدرآباد، جنوری تا مارچ، 2016ء، صفحات 46-48
  3. "ڈاکٹر سید عبد المنان: ڈاکٹر یا مسیحا!" از شمیم علیم، سہ ماہی پھولبن، حیدرآباد، جنوری تا مارچ، 2016ء، صفحات 42-43
  4. "ڈاکٹر سید عبد المنان کے بارے میں: سید امتیاز الدین" سہ ماہی پھولبن، حیدرآباد، جنوری تا مارچ، 2016ء، صفحات 44-45