شمشیر بہادر اول
شمشیر بہادر اول | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
باندہ اور کالپی کے جاگیر دار،[1] جھانسی کے صوبیدار | |||||||
باندہ کے مرہٹہ حکمران | |||||||
1753–1761 | |||||||
پیشرو | باجی راؤ اول، مرہٹہ سلطنت کے پیشوا | ||||||
جانشین | علی بہادر، باندہ کے نواب | ||||||
| |||||||
خاندان | باندہ (مرہٹہ سلطنت) | ||||||
والد | باجی راؤ اول | ||||||
والدہ | مستانی | ||||||
پیدائش | 1734ء مستانی محل | ||||||
وفات | 18 جنوری 1761 |
شمشیر بہادر اول (1734ء – 14 جنوری 1761ء) جنہیں کرشن راؤ بھی کہا جاتا ہے، شمالی ہندوستان میں واقع باندہ کی عملداری میں مرہٹہ نسل کے حکمران تھے۔ شمشیر بہادر باجی راؤ اول اور ان کی دوسری بیوی مستانی کے بطن سے پیدا ہوئے۔[1][2][3] ان کے مذہب پر مؤرخین میں اختلاف ہے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ وہ سنی مسلمان تھے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ وہ ہندو تھے۔
ابتدائی زندگی اور حکمرانی
[ترمیم]شمشیر بہادر اول مرہٹہ پیشوا باجی راؤ اول اور ان کی دوسری بیوی مستانی کے فرزند تھے۔ باجی راؤ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے شمشیر بہادر کو ہندو براہمن تسلیم کیا جائے لیکن چونکہ ان کی والدہ مسلمان تھیں اس لیے پنڈتوں نے ان کے لیے اُپ نَیَن کرنے سے انکار کر دیا۔ گوکہ مرہٹہ شرفا اور سرداروں نے مستانی کو پیشوا کی جائز بیوی تسلیم نہیں کیا تھا لیکن شمشیر بہادر کی تعلیم اور فوجی تربیت پیشواؤں کی اولاد کے ساتھ ہی ہوئی۔[1] سنہ 1740ء میں باجی راؤ اور مستانی کی وفات کے بعد باجی راؤ کی پہلی بیوی کاشی بائی شمشیر بہادر کو اپنے ساتھ لے گئیں اور انھیں اپنی اولاد کی طرح پالا۔
حکمرانی
[ترمیم]شمشیر بہادر کو اپنے والد باجی راؤ پیشوا کی عمل داری میں سے باندہ اور کالپی کے علاقے ملے تھے۔ سنہ 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں شمشیر بہادر اور ان کی فوج نے مرہٹوں کے ساتھ مل کر افغانیوں سے جنگ کی۔ اس جنگ میں شمشیر بہادر زخمی ہو گئے اور چند دنوں کے بعد دیگ کے مقام پر ان کی وفات ہو گئی۔[4]
شمشیر بہادر کے جانشین علی بہادر (کرشن سنگھ) نے اپنے اقتدار کو بندیل کھنڈ کے بڑے حصے تک وسیع کر لیا اور نواب باندہ کہلانے لگے۔ شمشیر بہادر کی اولاد برابر مرہٹوں کی وفادار رہی حتیٰ کہ ان کے پوتے شمشیر بہادر دوم نے سنہ 1803ء میں اینگلو مرہٹہ جنگ میں مرہٹوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے مقابلہ بھی کیا۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ Bhawan Singh Rana (1 جنوری 2005)۔ Rani of Jhansi۔ Diamond۔ ص 22–23۔ ISBN:978-81-288-0875-3۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-13
- ↑ Chidambaram S. Srinivasachari (dewan bahadur) (1951)۔ The Inwardness of British Annexations in India۔ University of Madras۔ ص 219
- ↑ Rosemary Crill؛ Kapil Jariwala (2010)۔ The Indian Portrat, 1560–1860۔ Mapin Publishing Pvt Ltd۔ ص 162۔ ISBN:978-81-89995-37-9۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-13
- ↑ Henry Dodwell (1958)۔ The Cambridge History of India: Turks and Afghans۔ CUP Archive۔ ص 407–۔ GGKEY:96PECZLGTT6۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-13
بیرونی روابط
[ترمیم]- پیشوا (وزرائے اعظم)آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ members.iinet.net.au (Error: unknown archive URL)
مزید پڑھیے
[ترمیم]- رنجیت دیسائی۔ سوامی (مراٹھی میں)، ایک تاریخی ناول