ڈھلہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قصبہ
Dhalla View from Thapla
Dhalla View from Thapla
متناسقات: 32°02′00″N 73°58′00″E / 32.0333°N 73.9667°E / 32.0333; 73.9667
ملک پاکستان
پاکستان کی انتظامی تقسیمپنجاب، پاکستان
پاکستان کی انتظامی تقسیمضلع راولپنڈی
تحصیلتحصیل راولپنڈی
Union councilاڈیالہ
حکومت
 • قسمپاکستان کی یونین کونسلیں
رقبہ
 • کل1.00 کلومیٹر2 (0.39 میل مربع)
بلندی434 میل (1,424 فٹ)
آبادی (2011)
 • کل2,700
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
Postal Code47311
فہرست پاکستان کے ڈائلنگ کوڈ051

ڈھلہ (اردو: ڈھاـلہ) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اس میں 260 مکانات ہیں۔ یہ شمالی پنجاب میں 33°25'36N 72°57'25E پر 434 میٹر (1423 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے اور ضلعی دار الحکومت راولپنڈی کے جنوب میں واقع ہے۔

تاریخ

راولپنڈی صدر سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب سمت "دریائے سواں کے قریب" اڈیالہ چونترہ روڈ پر واقع گاؤں "ڈھلہ" خطہ پوٹھوہار کے قدیمی دیہات میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں صدیوں پرانی اس گزرگاہ/شاہراہ پر موجود ہے جو مارگلہ ٹیکسلا سے براستہ میرا کلاں ~ ڈھلہ سے ھوتی ھوئی چک بیلی خان اور دیگر علاقوں کی طرف جاتی تھی۔ قدیمی دور میں افغانستان اور وسط ایشیا سے آنے والے حملہ آور یا دیگر لوگ اس قدیمی راستہ کو استعمال کرتے رہے ہیں اور اس دوران دریائے سواں کے کنارے آباد "ڈھلہ" گاؤں ان "قافلوں کا ایک اہم پڑاؤ" رہا ہے۔

تقریباً سات سو سال قبل چودھویں صدی عیسوی میں "راجا دولت خان" عرف راجا دھول خان نے "ڈھلہ" کو بسا کر اس کو اپنی راجدھانی (دار الحکومت) قرار دیا تھا۔

بانی ڈھلہ راجا دھول خان کے لکڑدادا کا نام "راجا پکھڑدیو" تھا۔ یہ راجا پکھڑدیو "جموں کے حکمران راجا پرگو" کا پوتا تھا۔ اس کی اولاد "پکھڑال راجپوت" کہلاتی ہے۔ اس عرصہ میں "خطہ پوٹھوہار" میں باراں شاہ آدڑہ چوہان حکمران تھا جس کی راجدھانی کا مرکز موجودہ "محلہ آدڑہ" نزد CMH اور ٹینچ بھاٹہ راولپنڈی تھا۔ جب اس چوہان حکمران کی سلطنت میں بغاوت ھوئی تو اس نے "جموں کے جموال منہاس قبیلے" کے حکمرانوں سے مدد کی درخواست کی ؛ چنانچہ راجا پکھڑدیو کو لشکر کے ھمراہ اس کی مدد کے لیے بھیجا گیا جس نے آ کر بغاوت کو کچل دیا۔ جس پر پوٹھوہار کے حاکم نے خوش ھو کر پکھڑدیو کو نہ صرف اپنی بیٹی کا رشتہ دیا بلکہ موجودہ چکوال اور جہلم کے کچھ علاقوں کے علاوہ گجرخان ؛ کونتریلہ ؛ کلر زیریں ؛ سہالہ ؛ چونترہ و اڈیالہ کی جائداد بطور جاگیر دے دی۔ راجا پکھڑدیو نے چکوال ؛ جہلم اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع "ڈھیری جنڈالہ" کو اپنی راجدھانی کا مرکز بنایا- راجا پکھڑدیو کا انتقال بھی اسی مقام پر ھوا تھا۔

بعد ازاں راجا پکھڑدیو کے دو پڑپوتوں فتح دیو اور باج دیو نے "اسلام قبول کر لیا"۔ ان کے اسلامی نام بالترتیب فتح خان اور اللہ خان رکھے گئے۔ راجا باج دیو (اللہ خان) کے چار بیٹے "راجا دولت خان عرف دھول خان" (بانی ڈھلہ) ؛ راجا قمر عرف کول خان (بانی کونتریلہ) ؛ راجا جسامت عرف جاسی خان (بانی سہالہ) اور راجا بساط خان عرف باسی خان (بانی پکھڑال) تھے اور انھوں نے باپ کی وفات کے بعد جائداد چار مختلف حصوں میں تقسیم کر لی تھی-

"راجا دولت خان عرف دھول خان" کو باپ کی طرف سے وراثت میں موجودہ اڈیالہ ؛ چونترہ ؛ تیراہیہ ؛ تخت پڑی ؛ کھڑکن ؛ سوہاوہ ؛ سکھو ؛ ساہنگ اور راماں کے علاقوں کی جاگیر ملی تھی چنانچہ اس نے دریائے سواں کے کنارے اونچے و پرفضا مقام پر گاؤں ڈھلہ کو بسا کر اسے اپنی راجدھانی قرار دیا۔ یہ راجدھانی "1398ء میں نامور فاتح امیر تیمور لنگ" کے ہندوستان پر حملے کے وقت راجا دھول خان کی سربراھی میں قائم تھی۔

ہنوستان میں مغل حکمران خاندان کے بانی "ظہیر الدین بابر" نے 1519ء میں جب "بھیرہ" پر حملہ کیا تو اس نے مارگلہ کو عبور کر کے جنوب مشرق کا رخ کیا اور سواں کے کنارے "منہاس پکھڑال" راجپوتوں کی اس راجدھانی ڈھلہ میں قیام کیا جس کے بعد وہ کلر کہار کی طرف گیا۔ اس راجدھانی کا ذکر بابر بادشاہ نے اپنی مشہور کتاب "تزک بابری" میں بھی کیا ہے۔ بابر بادشاہ یہاں دوسری مرتبہ بھی آیا اور دونوں بار ڈھلہ کی راجدھانی میں "راجا زبردست خان" ہی حکمران تھا۔

اس کے بعد ہندوستان کا مشہور مغل بادشاہ "جہانگیر" بھی ڈھلہ آیا تھا اور اس عہد میں "راجا ملک خان" ڈھلہ کا منصب دار تھا۔ جہانگیر بادشاہ نے فروری 1660ء میں اپنا 53 واں یوم پیدائش/جشن تلاوان (ہیرے جواہرات میں تلنا) "تحصیل حسن ابدال" ضلع اٹک میں منایا اور قرب و جوار کے منصبداروں و معززین کو حسن ابدال آنے کی دعوت دی۔ جہاں پر ہر منصب دار نے بہادری کے مختلف جوہر دکھائے۔ اس موقع پر ڈھلہ کی راجدھانی کے منصب دار "راجا ملک خان" نے تیر اندازی کے ایسے بہترین جوہر دکھائے کہ جہانگیر بادشاہ نے انھیں تیراھی (ماہر تیر انداز) کا خطاب دیا۔ آپ نے پھر اسی مناسبت سے "تیراہیہ" گاؤں بسایا تھا جو گورکھپور (نزد اڈیالہ جیل) سے جنوب سمت دریائے سواں کے پار چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ڈھلہ کے بانی راجا دھول خان کی اولاد نے پنجاب میں "سکھوں کے مظالم کے خلاف" اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں بھی علم بغاوت بلند کیے رکھا اور اپنے علاقے میں ان کے قدم نہ جمنے دیے۔ منصب دار ڈھلہ راجا ملک خان تیراھی کی اولاد میں "راجا گوہر خان" اور "راجا مدد خان" نے سکھوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔ پنجاب کے سکھ حکمران "رنجیت سنگھ" نے بندہ کے مقام پر بیرگی سنگھ کی مناسبت سے فوجی چھاؤنی بھی بنائی مگر "ڈھلہ و تیراہیہ" کے لوگوں کو مطیع نہ کیا جا سکا۔ جب راجا گوہر علی خان مزاحمت کے دوران زخمی ھو کر رنجیت سنگھ کی قید میں چلے گئے تو 1823ء میں ان کی شکنجے میں کسے جانے کے دوران ہی شہادت ھو گئی۔ راجا گوہر علی خان اور راجا مدد علی خان پنجاب کی سکھ حکومت کے خلاف "سید احمد شہید رح " اور "شاہ اسماعیل شہید رحہ" کی تحریک جہاد سے بہت متاثر تھے اور انھوں نے اس تحریک کا عملی طور پر ساتھ دیا۔

(نوٹ: غالب امکان یہی ہے کہ ڈھلہ گاؤں بابا شہید رح کی زیادت میں موجود چند قبریں انہی شہداء کی ہیں جنھوں نے تقریباً سوا دو صدی قبل سکھ مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ھوئے جام شہادت نوش کیا ؛ لیکن اس ضمن میں درست معلومات کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔)

1849ء میں جب پنجاب بھر میں سکھ دور حکومت کا خاتمہ ھو گیا اور انگریزوں نے پنجاب پر بھی مکمل قبضہ کر لیا تو اس عہد کے آغاز میں بھی "ڈھلہ" ؛ تیراہیہ ؛ ملانہ ؛ سوہاوہ ؛ ان پر ؛ چھپر کے لوگوں نے باغیانہ روش برقرار رکھی مگر پھر ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح انگریز حکومت نے کمال ھوشیاری سے کام لیتے ھوئے چند شخصیات کو اعزازی عہدے ؛ جاگیریں اور اختیارات دے کر آپس میں پھوٹ ڈلوا دی جس سے یہ مزاحمتی رویہ آہستہ آہستہ دم توڑ گیا۔

ہندوستان کی دیگر راجدھانیوں کی طرح "ڈھلہ کی یہ راجدھانی" بھی وقت کے ساتھ ساتھ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ھوئے ملانہ ؛ چھپر ؛ ان پر ؛ تراہیہ ؛ سوہاوہ ؛ تخت پڑی ؛ لنگر ؛ سکھو ؛ ساہنگ ؛ راماں ؛ سنگرال اور دیگر کئی چھوٹے بڑے دیہاتوں میں تقسیم ھوتی رھی۔ یاد رہے کہ ڈھلہ کے راجگان کے ہاں "داتکا کی بھی باقاعدہ پوسٹ" تھی جو اس راجدھانی کے تمام "پکھڑال منہاس راجپوتوں" کا شجریاتی ریکارڈ مرتب کرتا تھا۔

مقام اور جغرافیہ

ڈھلہ اڈیالہ روڈ پر ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے 31.7 کلومیٹر (19.7 میل) اور راولپنڈی سے 19 کلومیٹر (12 میل) دور ہے۔

اردگرد

ڈھالہ کے آس پاس کے علاقوں میں 2 ڈیم ہیں، ڈھلہ سے پہلے گاؤں میں جاوا ڈیم اور کھسالہ ڈیم۔ گاؤں کے سامنے سے ساون ندی گذر رہی ہے۔ ساون ندی کا بستر بہت زرخیز اور ہریالی سے بھرا ہوا ہے جو گاؤں کے اوپر سے ایک شاندار نظر آتا ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت 1 سینٹی گریڈ تک کم ہو سکتا ہے اور جون میں 55 سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ کسان ہیں اور کھیتی باڑی سے اپنی آمدنی کماتے ہیں لیکن نئی نسل جانتی ہے کہ صنعتی اور سرکاری محکموں کی طرف بڑھ رہی ہے۔

تعلیم

قصبے میں متعدد سرکاری تعلیمی ادارے تیار ہو رہے ہیں، جیسے

گورنمنٹ بواھز ہائی اسکول ڈھلہ ۔

گورنمنٹ پرائمری اسکول ڈھلہ۔

گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ڈھلہ ۔

ان اسکولوں میں آس پاس کے دیہاتوں کے طلبہ آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ قصبے میں کچھ نجی انگلش میڈیم اسکول بھی ہیں۔

صحت

قصبے میں ایک سرکاری ہسپتال ہے جس میں کئی بستروں کی جگہ ہے۔ یہ آزادی سے پہلے کا پرانا ہسپتال ہے۔ اس کی عمارت کا ڈھانچہ پرانا طرز کا تھا حال ہی میں اسی جگہ پر نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ ایک فیملی ویلفیئر سنٹر دستیاب ہے اور ایک پرائیویٹ کلینک بھی قصبے میں ہے، آس پاس کے دیہاتوں سے لوگ آتے ہیں اور ہسپتال اور کلینک سے چھوٹی چھوٹی بیماریوں اور زخمیوں کا علاج اور دوا لیتے ہیں۔

ٹیلی کمیونیکیشن

پی ٹی سی ایل لینڈ لائن ٹیلی فون کا مرکزی نیٹ ورک فراہم کرتا ہے۔ بہت سے ISPs اور پاکستان میں کام کرنے والی تمام بڑی موبائل فون اور وائرلیس کمپنیاں ڈھلہ میں سروس فراہم کرتی ہیں۔

مذہب

قصبے میں پانچ مساجد جامع مسجد، مسجد فاروق اعظم اور بلال مسجد ہیں۔ ایک زیر تعمیر مدرسہ حنفیہ فاروقیہ بھی اس قصبے میں اسلامی تعلیم اور حفظ قرآن کے لیے ہے۔ مدرسہ کے طلبہ کے لیے رہائش کا انتظام ہے۔ یہ مقامی لوگوں اور خیراتی اداروں کے تعاون سے چلتا ہے۔ قصبے کی تقریباً 99 فیصد آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

زراعت

ڈھلہ اس علاقے کا ایک زرعی شہر ہے۔ لوگ سبزیوں کی کٹائی کرتے ہیں اور تقریباً 80% آبادی اس کھیت سے منسلک ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ منہاس راجپوت (پکھرال)، اعوان اور کھینگڑ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی زندگی اور ذرائع آمدنی کا انحصار ان کی ساون ندی کے کنارے کی زرعی زمین پر ہے جو دریائے ساون کی انتہائی زرخیز مٹی پر مشتمل ہے۔ ڈھلہ کے لوگ بھی جاوا ڈیم کا پانی کاشتکاری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پانی کا ذخیرہ

جاوا ڈیم پانی کا ایک چھوٹا ذخیرہ ہے۔ یہ ڈھونگی محفوظ جنگل میں واقع ہے۔ اس ڈیم کو 800 ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جس میں 0.783 ایم سی ایم کی آبپاشی کی ضرورت 100٪ کی فصل کی شدت پر تھی۔ جاوا ڈیم 1997 میں فعال ہوا۔ اپنے قیام کے بعد سے، 2000 تک ڈیم میں تقریباً مسلسل آمد ہوئی۔ ماسوائے سال 1998 اور 2002 کے، اخراج آمد سے کم رہا ہے۔ چونکہ یہ ڈیم ایک بارہماسی ندی پر بنایا گیا ہے، اس لیے اس میں سال بھر باقاعدہ اور مسلسل بہاؤ رہتا ہے۔ تاہم، مون سون کی وجہ سے جون سے اگست میں بہاؤ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ ڈیم میں کل اوسط سالانہ آمد 0.687 MCM ہے، جب کہ اخراج 0.777 MCM ہے۔ اس صورت میں خارج ہونے والے مادہ کی آمد سے زیادہ ہے۔ تاہم، ڈیم سے دستیاب آبپاشی کی فراہمی تقریباً 0.783 MCM کی ڈیزائن کردہ آبپاشی کی ضرورت کے برابر ہے۔ لہذا، عام طور پر، دستیاب پانی ڈیزائن کردہ علاقے کو سیراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ڈیم ڈھالہ کی زمین کو بہت کم کام کرتا ہے حالانکہ ڈیم ڈھلہ کی زمین پر واقع ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]