اسکیپ ولاسٹی
طبیعیات میں اسکیپ ولاسٹی (escape velocity)سے مراد وہ کم سے کم رفتار ہوتی ہے جسے حاصل کرنے پر کوئی چیز سیارے یا ستارے کی کشش ثقل (gravity)کی گرفت توڑ کر آزاد ہو سکتی ہے۔
اگر آسمان کی طرف ایک پتھر پھینکا جائے تو وہ کچھ بلندی تک اوپر جا کر دوبارہ زمین پر آ گرتا ہے۔ اگر آسمان کی طرف بندوق کی گولی چلائی جائے تو وہ کئی میل اوپر تک جاتی ہے مگر اس کی رفتار کم ہوتے ہوتے صفر ہو جاتی ہے اور پھر زمین اسے دوبارہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ایک طاقتور بندوق سے نکلنے والی گولی کی رفتار لگ بھگ ایک میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بلندی طے کرنے سے مسلسل گرتی چلی جاتی ہے اور آخر کار وہ گولی زمین پہ آ گرتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گولی (یا راکٹ) سات میل فی سیکنڈ کی رفتار سے روانہ ہو (ہوا کی رگڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے)تو وہ اتنی دور جا سکتی ہے جہاں زمین کی کشش ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لیے زمین کی اسکیپ ولاسٹی سات میل فی سیکنڈ (یعنی 11.2 کلومیٹر فی سیکنڈ یا 25 ہزار میل فی گھنٹہ) کہلاتی ہے۔ جب تک کوئی راکٹ (یا بندوق کی گولی) اس سے زیادہ اسپیڈ حاصل نہ کر لے وہ زمین کی کشش ثقل توڑ کر خلاء میں نہیں جا سکتا۔ ایسا راکٹ خلا میں پہنچنے کے بعد بھی آگے کی طرف سفر کرتا رہے گا کیونکہ اب زمین اسے اپنی طرف واپس نہیں کھینچ سکتی۔
زمین سے خلا تک جانے کے لیے راکٹ بڑا ہو یا چھوٹا، ہلکا ہو یا بھاری، اسے اسکیپ ولاسٹی کی رفتار سے ہی سفر شروع کرنا پڑے گا ورنہ وہ زمین کی کشش سے آزاد نہیں ہو پائے گااور دوبارہ زمین پر آ گرے گا۔
پروجیکٹائیل (projectile) کے برعکس ایسے راکٹ جن میں توانائی حاصل کرنے کے لیے مسلسل ایندھن جلتا رہے انھیں زمین کی کشش سے آزاد ہونے کے لیے اسکیپ ولاسٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر ان میں ایندھن کا ذخیرہ کرنے کے لیے اتنا بڑا ٹینک بنانا پڑتا ہے کہ خرچہ اور حادثے کا امکان بے انتہا بڑھ جاتا ہے۔ اب تک اس قسم کا کوئی راکٹ نہیں بنایا گیا ہے۔
جب کوئی راکٹ اسکیپ ولاسٹی حاصل کر کے زمین کے حلقہ اثر سے باہر نکل بھی جاتا ہے تو وہ اب سورج کی کشش کی زد میں آ جاتا ہے اور آخر کار سورج پر جا گرتا ہے۔ زمین سے نکلنے کے بعد اگر اس راکٹ کو سورج کی کشش سے بھی آزاد ہونا ہے تو اسے سورج کے مخالف رخ پر 42 کلومیٹر فی سیکنڈ کی اسکیپ ولاسٹی سے سفر شروع کرنا پڑے گا۔ ایک دفعہ یہ رفتار حاصل ہو جائے تو پھر نظام شمسی (سورج کی حدود)سے خارج ہونے کے لیے اسے مزید ایندھن جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
نظام شمسی سے باہر نکل جانے والا جسم اب کہکشاں (milky way) کی کشش ثقل کی گرفت میں ہوتا ہے اور بہت بڑے عرصے کے بعد کہکشاں کے مرکز میں جا گرتا ہے۔ نظام شمسی سے نکلنے کے بعد اگر وہ جسم کہکشاں کے مرکز کی مخالف سمت میں لگ بھگ 550 کلومیٹر فی سیکنڈ کی اسکیپ ولاسٹی حاصل کر لے تو اسے کہکشاں سے باہر نکلنے کے لیے مزید ایندھن خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ہوا کی رگڑ
[ترمیم]چونکہ ہوا کی رگڑ سے راکٹ کی رفتار کم ہو جاتی ہے اس لیے اس پر قابو پانے کے لیے راکٹ کو مزید ایندھن جلانا پڑتا ہے تاکہ اسکیپ ولاسٹی حاصل کر سکے۔ چھوٹے راکٹ کو مداروں تک پہنچانے کے لیے انھیں زمین کی بجائے ہوائی جہاز سے کافی بلندی پر سے روانہ کیا جاتا ہے تاکہ ہوا کی رگڑ بھی کم ہو جائے اور راکٹ کو نسبتاً کم اسکیپ ولاسٹی کا سامنا کرنا پڑے۔
اجرام فلکی | زمین کے مقابلے میں اس پر کسی چیز کا وزن |
کشش ثقل کا اسراع میٹر فی سیکنڈ فی سیکنڈ |
اسکیپ ولاسٹی (کلومیٹر فی سیکنڈ) |
---|---|---|---|
سورج | 27.90 | 274.1 | 617.5 |
عطارد | 0.3770 | 3.703 | 4.3 |
زہرہ | 0.9032 | 8.872 | 10.3 |
زمین | 1 | 9.8226[1] | 11.2 |
چاند | 0.1655 | 1.625 | 2.4 |
مریخ | 0.3895 | 3.728 | 5.0 |
مشتری | 2.640 | 25.93 | 59.6 |
زحل | 1.139 | 11.19 | 35.6 |
یورینس | 0.917 | 9.01 | 21.3 |
نیپچون | 1.148 | 11.28 | 23.8 |
پلوٹو | 1.2 |
بلیک ہول
[ترمیم]کائنات کی سب سے تیز رفتار چیز فوٹون ہوتے ہیں جن کی رفتار 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔
کائنات کی سب سے زیادہ کمیت رکھنے والی چیز بلیک ہول ہوتے ہیں جو ہر کہکشاں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں اور ان کے گرد اربوں ستارے گردش کرتے رہتے ہیں۔ بلیک ہول بے انتہا وزنی ہونے کے باوجود انتہاَی چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان پر اسکیپ ولاسٹی فوٹون کی رفتار سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی روشنی یہاں سے باہر نہیں نکل سکتی جس کی وجہ سے بلیک ہول کالے نظر آتے ہیں یا نظر ہی نہیں آتے۔ وہ واحد چیز جو بلیک ہول سے باہر نکل سکتی ہے وہ کشش ثقل (gravity) ہے۔
جیسے جیسے بلیک ہول سے دوری بڑھتی جاتی ہے بلیک ہول کی اسکیپ ولاسٹی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ event horizon وہ جگہ ہے جہاں سے اسکیپ ولاسٹی فوٹون کی رفتار سے کم ہو جاتی ہے۔ اس فاصلے سے پرے فوٹون بلیک ہول کی کشش ثقل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب بھی بلیک ہول کی کشش فوٹون کی توانائی (فریکوئنسی) کم کر دیتی ہے۔ چونکہ ستاروں پر وقوع پزیر ہونے والے واقعات کا علم ہمیں وہاں سے آنے والی روشنی ہی کی مدد سے ہوتا ہے اس لیے ایونٹ ہوریزون سے بلیک ہول کے درمیان ہونے والے کسی واقعہ (event) کی اطلاع ہمیں نہیں پہنچ سکتی۔ جب انسان اس قابل ہو جائیگا کہ کشش ثقل کی لہروں سے معلومات اخذ کر سکے تو ہمیں بلیک ہول پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا کچھ اندازہ ہو سکے گا۔
اگر ہماری زمین کا وزن (کمیت) برقرار رہے مگر جسامت سکڑ کر ایک مٹر کے دانے کے برابر ہو جائے تو زمین بھی بلیک ہول بن جائے گی کیونکہ اس کی اسکیپ ولاسٹی فوٹون کی رفتار سے بڑھ جائے گی۔[2]
سیاروں کا کرہ ہوائی
[ترمیم]اکثر سیاروں کے گرد ایک کرہ ہوائی ہوتا ہے جیسا کہ ہماری دنیا کے گرد ہے۔ کرہ ہوائی میں موجود گیسوں کے مولیکول آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی رفتار گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اس طرح چند مولیکیول اسکیپ ولاسٹی حاصل کر سکتے ہیں اور سیارے کی فضا سے ہمیشہ کے لیے فرار ہو جاتے ہیں۔ کم کمیت والے یا بہت زیادہ گرم اجسام فلکی سے گیس کے مولیکیول تیزی سے فرار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظام شمسی میں موجود بیشتر چاند کرہ فضائی نہیں رکھتے۔
چونکہ ہائیڈروجن کا مولیکیول سب سے ہلکا ہوتا ہے اس لیے سب سے پہلے یہ اسکیپ ولاسٹی حاصل کر کے کرہ فضائی سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہیلیم کی باری آتی ہے۔ پھر پانی، میتھین اور امونیا اور اس کے بعد نائٹروجن اور آکسیجن بھی خارج ہو جاتی ہیں۔ زینون کا مولیکیول ساری گیسوں میں سب سے بھاری ہوتا ہے اس لیے یہ سب سے آخر میں فرار ہوتا ہے۔
نظام شمسی کے اندرونی چار سیارے چھوٹے اور گرم ہیں جبکہ اس کے بعد کے چار سیارے بہت بڑے اور سرد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساڑھے چار ارب سالوں میں عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ کے کرہ ہوائی سے ساری ہائیڈروجن اور ہیلیئم فرار ہو چکی ہے لیکن مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کی فضا سے یہ فرار نہیں ہو پاتی اور اب تک وہاں موجود ہے۔
مشتری کا ایک چاند ایو نظام شمسی کے سارے چاندوں میں سب سے زیادہ کثافت رکھتا ہے۔ اس پر بہت معمولی مقدار میں آکسیجن اب تک کرہ ہوائی میں موجود ہے۔
سورج کی سطح پر ٹمپریچر لگ بھگ 5500 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے لیکن سورج کی کمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس ٹمپریچر پر بھی ہائیڈروجن یہاں سے فرار نہیں ہو سکتی۔
ہماری زمین کے مقابلے میں مریخ کا کرہ ہوائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن مریخ پر بھی اتنی ہی زینون پائی جاتی ہے جتنی ہماری زمین پر یعنی ایک ارب حصوں میں صرف 87 حصے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]- فوٹون
- سفید بونا white dwarf
- اپالو 11
- مصنوعی سیارہ
- کیا انسان کبھی چاند پر اترا؟
- خلائی ملبہ
- فوبوس۔ مریخ کا چاند
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ This value excludes the adjustment for centrifugal force due to Earth’s rotation and is therefore greater than the 9.80665 m/s² value of معیاری کشش ثقل.
- ↑ "Escape Velocity"۔ 18 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2017