فارسی زبان و ادب کی تاریخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فارسی زبان آج ایران کے تمام لوگوں کے علاوہ افغانستان، تاجیکستان، برصغیر پاک وہند کے کچھ حصوں قفقاز اور بین النہرین میں بولی اور لکھی جاتی ہے۔

فارسی زبان کی تاریخ سات سو سال قبل از حضرت مسیح علیہ السلام ہے،اور اس سے قبل کے حوالے سے بھی کئی علمی آگاہیوں سے ملتا ہے کہ ایران کے وسیع علاقے وہ علاقہ جو خراسان (مشرق) کی جانب سے تبت کے بارڈر اور ترکستان چین کے ریگستانوں سے اور جنوب مشرق سے پنجاب ،نیمروز(جنوب)کی طرف سے سندھ ،خلیج فارس اور دریاے عمان ،شمال کی جانب سے سکھو اور صارموں کے ملک سے (آج کے روس کی جنوبی سمت)لے کر ڈینیوب اور یونان تک اور مغرب کی جانب سے شام ، حجاز اور یمن سے جا ملتے ہیں ان سب علاقوں میں وہی زبان بولی جاتی تھی جو آج ایران میں (فارسی) بولی جاتی ہے۔(بہار،1369:15)۔

ایرانی زبانوں کی شاخوں کا تعلق ایرانی(آریائی) اور ہندی زبانوں کے گروہ اور ہندی اور یورپی زبانوں کے خاندان سے ہے ۔ اور اس گروہ کے دیگر خاندان : جرمن، یونانی، اطالوی، ارمینی، اناطولیہ، البانی، بلتی، سلاو، تخار اور کلٹی ہیں۔

یاد رہے اس آریائی اصطلاح کو تمام ہند یورپی خاندانوں پر لاگو نہیں کیا جانا چاہیے ۔ یہ غلطی بیسویں صدی کے انگریز سکالرز نے کی تھی۔ آج صرف ہندی اور ایرانی زبانوں کو آریائی کہا جاتا ہے۔ [1]

ایرانی زبانوں کی تبدیلی کی تاریخ[ترمیم]

ایرانی زبانوں کی ارتقائی تاریخ کوتین اہم ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. قدیم تاریخی دور (قدیم دور )۔
  2. متوسط دور(پہلوی دور)۔
  3. نیا دور۔

قدیم تاریخی دورمیں ایرانی زبانیں[ترمیم]

تمام ایرانی زبانوں کی اصل و ابتدا ایک ایسی زبان ہے جو قدیم ایرانی زبان کے نام سے جانی جاتی ہے۔ قدیم زبان کے سورسز میں ان چار زبانوں کے زبانی/شفاھی ادب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اور صرف دو قدیم فارسی زبانوںِ ایوستا اور قدیم زبان کے ادبی آثار اور تحریرباقی ہے۔

ایرانی قدیم زبان سے چار زبانیں براہ راست وجود میں آئی ہیں:

سیکھوں کی زبان ، مادوں کی زبان ، قدیم فارسی زبان اور ایوستا زبان ۔

سیکھوں کی زبان[ترمیم]

سیکھ آریائی قوم تھے کہ جو پہلی صدی قبل مسیح سے پہلی صدی بعد از مسیح تک ایک عظیم ملک میں جس کی وسعت کالے سمندر کے کنارے سے لے کر چین کی سرحدوں تک تھی اس میں آباد تھے اور اس زبان کے چند الفاظ کے سوا باقی کچھ نہ بچا اور نہ کوئی تحریر ملی ہے، مگر جو تھوڑے سے الفاظ ملے ہیں ان میں سے(Aspa)یعنی فارسی کا لفظ "اسب"جس کے معنی گھوڑا اور(Hapta) یعنی فارسی کا لفظ "ہفت"جس کے معنی سات ہیں اور ا سطرح کے کئی الفاظ ملے ہیں۔

مادوں کی زبان[ترمیم]

ماد قوم کی زبان تھی اور اس زبان کے بھی سوائے چند الفاظ کے لکھے ہوئے الفاظ کے سوا کچھ بھی قدیم فارسی میں نہ ملا۔وہ الفاظ جو ملے ہیں(wazarka) بزرگ یعنی بڑا، (asan)سنگ یعنی پتھر ہیں۔نیز ماد قوم کی زبان جو آریائی ماد قوم ہیں اورایران کے مغرب اور شمال مغرب میں رائج تھی اس کے آثار مٰں سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا ہے۔ (گرشویچ‌،"نامی ایران کے قدیم ادب"کا پیراگراف نمبر 2)۔ مگر یونانی مورخین کی تحریروں میں جسطرح "کتسیاس‌"ہے، ہیروڈوٹس اورڈینون کی عشقی داستانوں اور مادوں کی مہاکاوی کہانیوں اور اس دور کے شعرا کی مختصراً بات کی گئی ہے۔مثلاً گیتاتمک سٹوریز(عشقی اور رومینٹک سٹوریز)نیز "زَرْیادْرِس‌" اور "اوداتیس"‌قابل ذکر ہیں۔جن کے کئی منابع دیکھنے کو ملتے ہیں۔اور بوائس کے مطابق ("زریادرس"‌ اور "زریر"کے صفحہ ‌ 477- 463 کے مطابق )جو مادوں کی اصل تحریر ہے اور جس کی جھلک بعد میں "شاہنامہ فردوسی"میں داستانوں کی صورت میں دکھائی دیٹی ہے مادوں کی رزمیہ داستانیں یا وہ داستانیں جو سائرس کے بارے میں ہیں نیز اشمینائی بادشاہ کی داستانیں مادوں کے آثار میں سے ہی ہے۔(گرشویچ‌، ایضاً)۔

قدیم فارسی زبان[ترمیم]

فارس کے لوگوں کی زبان تھی ،جو اشمینائی بادشاہوں کے کتیبات(سائن بورڈز،قبر کے کتبوں اور دیگر بورڈز وغیرہ) کی زبان تھی۔اس زبان کے باقی رہنے والے آچار میں سے سب سے اہم بیستون کا کتیبہ ہے۔ [2]

قدیم فارسی ادب[ترمیم]

قدیم فارسی ادب،جو آج کی فارسی زبان کا ماخذ ہے فارس قوم کی زبان تھی جو اشمینائیوں (55٠ ـ33٠ ق‌۔م‌) کی زبان تھی جس میں وہ بات چیت کرتے تھے۔قدیم زبان فارسی کے تحریری آثار صرف اشمینائی شہنشاہوں کے کچھ کتبوں کی صورت میں ہیں جو کونیفورم(کندہ شدہ) خط میں ہیں اور پتھروں کے علاوہ سونے اور چاندی کی تختیوں،وزنی پتھروں ،مہروں اور فرتنوں پرکندہ ہیں اور ان کی لکھائی ان کی تالیف کے وقت ہی ہوئی ہے۔اور سب سے اہم کتبہ جو قدیم فارسی زبان میں لکھا گیا ہے [3] وہ عبارت ہے : "داریوش" کے کتبوں میں سے جو آج " بیستون‌ "‌کی زینت ہیں اور یہ "داریوش" کا کتیبہ مفصل کتیبہ ہے اور تین قدیم فارسی زبانوں میں تھریر ہے ۔(اکادی اور ایلامیٹ )فارس ،(تخت‌ جمشید اور ‌ رستم کے نقوش ‌)، سوئز اور الوند اور خشیار شاہ کے کتبے جو تخت جمشید میں نصب ہیں جن میں سے ایک تین مشہور زبانوں میں لکھا گیا " دیوا" اور اور " الوند"کے نام سے جانا جاتا ہے اس زبان کے مہم ترین کتبوں میں سے ایک ہے۔ [4] جو کچھ اس پتھر پر لکھا ہواہے وہ حکومت اور سیاست کے متعلق ہے۔اور جو متن پہلے دارا بادشاہ کے بارے میں لکھا گیا ہے اس میں ایک مقدمہ ،متن اور اختتامیہ بھی ہے اور اس کے جانشینوں کے لکھے ہوئے پتھروں پر جو خشایارشا کے کتبہ " دھویہی" سے الگ ہے۔جس میں معمولی سی عبارت دارا بادشاہ کی عبارت سے ملتی جلتی ہے دکھائی دیتی ہے۔جس میں ہرمزد بادشاہ کا تعارف یا آلاتٹ زمینوں کے نام، یاد گاری عبادت اورہرمزد کے شکریہ کی عبارت ، مستقبل کے بادشاہوں کے فسادات، رحم ،مشورے بجھالانے بارے لکھا ہے۔ دارا بادشاہ کی قدیم فارسی زبان کو ادبی زبان میں تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔اس نے لکھے ہوئے پتھروں،مبالغہ آرائی سے پرہیز کرتے ہوئے سادہ الفاظ اور مختصر جملوں کے ذریعہ اس زبان کی ملالت کو دور کر دیا۔یہ تحریریں فطرتی طور پر ادبی تخیلات اورخیالی تصورات سے پاک ہیں۔اگرچہ ان کی قدروقیمت زبان کی تاریخ اور شناخت کے سواادبی اہمیت نہیں ہے (گرشویچ‌، وہی‌، شق نمبر 15-5 ، صفحہ نمبر‌ 23ـ31کتاب "زرشناس"‌ایران کا قدیم زبان‌ و ادب‌ صفحہ نمبر‌ 15ـ21)۔مگر یونانی رائیٹرز کی رپورٹ کے مطابق فارسی زبان کا قدیم رزمیہ ادب بھی احتمالاً محض شفاہی صورت میں ہی تھا۔[5]

زوپیر کا افسانہ یا سائرس سے متعلق بعض روایات یا جھوٹے خوابوں سے متعلق داستانیں ان میں سے ایک ہیں۔[6]

ایوستا زبان[ترمیم]

یہ زبان ایران کے مشرقی علاقوں میں بولی جاتی تھی اس زبان باقی رہنے والا اثر صرف ایوستا کی کتاب ہے اور قدین ترین تحریر جو اس زبان کی باقی ہے وہ زرتشتوں کے گیت ہیں۔ [7]

ایوستا کا ادب[ترمیم]

ایوستا زبان جو " ایرانویج‌" ایران کے ایک مشرقی علاقے کی زبان جس میں شاید خوارزم، مرو یا بلخ قبیلے کے لوگ گفتگو کرتے تھے وہ زبان ہے جس میں زرتشتوں(پاسیوں/آتش پرستوں) کی مذہبی کتاب" ایوستا"اسی زبان میں لکھی گئی ہے۔اس زبان کا سوائے اس کتاب" ایوستا"یا اس سے متعلقات کے علاوہ کوئی اثر موجود نہیں ہے۔ قرون وسطی میں اس زبان کے قدیم ترین آثار کا تعلق آٹھویں صدی عیسوی سے ہے۔لیکن شفاہی روش کی اہمیت کے پیش نظر" ایوستا" کو چوتھی صدی عیسوی تک لکھا اور مرتب نہیں کیا گیا۔یہ ساسانی بادشاہ شاہپور کا زمانہ تھا اور زرتشتی دین کو بطور تسلیم کر نے بعد یہ مجموعہ خاص تحریر کے ذریعہ "مذہبی ٹیچنگس" کے عنوان سے ایک دینی خط کے ذریعہ جو اسی مقصد کے لیے، مشرق فارسیاسکرپٹ اور زبور پہلی کی طرز پر بنایا گیا تھا، ساسانی دور کے اختتام پر اس مذہب کے پجاریوںخاص تلفظ میں تحریر کیا گیا۔ (ملاحظہ کریں:" ایوستا"کا خطاور زبان)۔وہ" ایوستا" جو آج موجود ہے اور ہاتھ سے لکھی صورت میں 1278م‌ کے بعد کاپی شدہ نسخوں کی صورت میں آئی ہے۔(گرشویچ‌، وہی ‌، شق نمبر۔ 17 )۔تقریباً ایک سوم یا چھارم " ایوستا" ساسانی دور کی ہے۔اور اس کتاب کو انھوں نے اپنے دین پر مرتب کیا۔ (کتاب‌ 8 ، فصل‌ 1 ، شق نمبر 17-7 )۔جو 21اسکرپٹس اور ابواب میں تحریر کی گئی تھی۔یہ کتاب ایک بڑی تالیف ہے جس میں اس کائنات کے آفرینش،قیامت ،نجوم،میڈیکل،زرتشتوں کے حالات زندگی،انسانیت کی تاریخ ،رزمیہ داستانیں ،قدیم خرافات کی روک تھام وغیرہ کے علاوہ معلومات موجود ہیں۔تمام " ایوستا" زبان کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں اختلاف اس کے کچھ حصوں کی قدامت یا فھم کے اعتبار سے ہے۔" ایوستا" کے متن کو زبان کی قدامت کے اعتبار سے یا قواعد اور لسانی خصوصیات کے اعتبار سے نیز اس کے علاوہ بنیادی تعلیمات کے نقطہ نظر سے اور مذہبی مواد کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

اوستا ‌ گا‌هانی‌ و اوستای‌ متأخّر[ترمیم]

اوستا‌ گا‌هانی‌[ترمیم]

گا‌هانی متون جو قریباً "اوستا" کے ایک ششم حصے پر محیط ہے وہ صرف اور زدشتوں کے حالات زندگی بارے معتبر ماخذ ہے اور بطور مجموعی اس کے بانی کی تعلیمات کو بیان کرتی ہے۔

اوستا‌ گا‌هانی‌ کی یہ اقسام ہیں :

گا‌هان:‌(گیت اور ترانے )یہ اوستا گاہانی کی قدیم ترین قسم ہے، جس میں زرتشتوں کے ترانے تقریباً سترہ ترانے شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی اویستا میں بھی یہ موجود ہیں۔

گا‌هان کے اشعار

جو بدون نظم ونسق اور ترتیب کے اعتبار سے ویدک کے اشعار کی طرح ہیں۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ زرتشتی افکار سے عدم آشنائی ،قواعد کی مشکلات ،الفاظ کے ابہام اور اشعار کی پیچیدگی کی بنا پر ماہرین کو اویستا گاہان کے ترجمہ اور سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

گا‌هان کا ترجمہ فارسی زبان میں ہے جواسکے سمجھنے میں زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔ گرشویچ‌ (شق نمبر ۔ 23 )کے مطابق زبان کی اس مشکل اور پیچیدگی کے باوجود زرتشتوں کے وہ قیمتی افکار جو ان عشقی اور رمینٹیک اشعار کی صورت میں ان کی دینی افکار ،روشن افکار اور فکری بالیدگی پر مبنی ہے اور خوٖصورت اشعار کی صورت میں پرویا گیا ہے،میں گاہان کو پانچ"گاہ " اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔اور ہر"گاہ " کے ابواب ہیں جو "ھات"کے نام سے مشہور ہیں۔

ب: «یسن‌های‌ هفت ‌‌هات» یہ حصہ جو نثر ہے اور گاہان کے بعد اویستا کی قدیم ترین قسم ہے۔« یسْن‌‌ کے سات ابواب ‌ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اور یہ 35 سے 40 ابواب پر مشتمل ہے۔اس میں زرتشتوں کی مشہور دعائیں "اَهُونَوَر ، اَشِمْ وُهُو وینْگهِہ‌‌‌ها" مکمل آئی ہیں۔

ایوستا متأخّر[ترمیم]

اویستا کی یہ قسم تقریباً زرتشتیوں کی کتاب مقدس 5/6 کو شامل ہے اور جوان اویستا کے نام سے مشہور ہے۔اگر چہ اس میں زبان کی پیچیدگیاں کم پائی جاتی ہیں اس کے باوجود متن کے سمجھنے میں کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔جس کی بنیادی وجہ زرتشتیوں سے قبل کے عقائد کا ان کے حوالے سے آنا اور بہت سے عقائد و دستورات کا دین زرتشتی میں شامل ہونا ہے جس کی بڑی وجہ اس کا پورے ایران میں رائج ہونا ہے۔لہذا اویستا متاخربطور کلی دین زرتشتی متاخر کی ایک جھلک اور ایران کے قبل از اسلام دین اور مذہبی افکار کی نمائندگی کرتی ہے۔جس کی تاریخ تالیف اور تدوین وتصنیف کے بارے وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔لیکن احتمال ہے کہ اویستا متاخر کے یہ قدیم ابواب آٹھویں یا نویں ہجری قمری سے تعلق رکھتی ہو۔ [8]

لہذا اویستا متاخر کی درج زیر اقسام ہیں جس کے ابواب کے ادبی معیار کو گاہان سے مقابلتاً پرکھا جا سکتا ہے۔ اور اس کے دوسرے ابواب کی ادبی قدر وقیمت نہیں ہے۔

یسنا: جس کے معنی دعا اور مناجات ہیں اوحامل دینی دعا ومناجات اور سرود ہے اور مئنوی ذکر پر مبنی ہے اور خاص کر" یسْنَہ‌‌یا‌یسنا" کے پروگراموں میں پڑھی جاتی ہے۔اور جو ہدیے ان کو پیش کیے جاتے ہیں۔یہ قسم 72 ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب حجم کے لحاظ سے دوسرے سے مختلف ہے۔

ویسْپْرَد( Visperad): جس کے معنی تمام سرور کے ہیں اور یہ 24 ابواب پر مشتمل ہے اور اس کے بیشتر مطالب یسنوں پر مشتمل ہیں اور ان کو مکمل کرتے ہیں۔خاص کر مذہبی تہوارپر پڑھا جاتا ہے۔

اویستا میں: یہ مجموعہ جس کو چھوٹا اویستا بھی کہا جاتا ہے۔یہ چھوٹی چھوٹی دعاوں اور مناجات پر مبنی ہے جیسا کہ خص کر کے دینور زرتشتی جو اس مذہب کے علما کی خاص دعائیں ہیں۔ آذربادمَهْرَسْپنداور ان کے دور کے پادریوں کی دعائیں جو شاپور ساسانی دوم کے دور میں تھے اور انھوں نے اس مجموعے کو تہیہ کیا۔نیز اس کے اہم ابواب تیس روزہ مناجات یا ان دعاوں سے عبارت ہیں جن کے ساتھ نیاز بھی دی جاتی ہے۔(تفضّلی‌، ص‌ 43)۔

وندیداد (Vandidad: جس کے الفاظ انتہائی قدیم اور بمعنی "عدالت سے دوری اور جدائی کے قانون" کے نام سے ہے یہ کتاب بھی 22 ابواب کی صورت میں ہے۔جو درحقیقت ان کے مسائل دینیہ کی کتاب ہے اور سوال و جواب کی صورت میں ہے۔یہ کتاب زرتشتیوں کے ساسانی دور یعنی انیسویں صدی میں بطور کامل ہمیں ملی ہے۔اس کے سوالات جو باب قانوں میں مندرج ہیں پاکیزگی اور گناہوں کے کفارہ کے بارے ہیں۔اور کچھ داستانیں اور حصہ جغرافیامیں مختلف ملکوں کے بارے میں معلومات بھی اسی کا حصہ ہیں۔ گرشویچ‌ اویستا کے اس حصے کو اس کے اہم ترین ابواب نیز مشرقی ایران کے علاقوں کے حالات زندگی جاننے کے لیے مستند قرار دیا ہے۔(وہی‌، شق نمبر۔ 27-26 )۔

یشْت‌ها s Yasht: یشت‌ کے معنی‌ بھی دعا ومناجات کے ہیں۔اور تلفظ لفظ کے اعتبار سے " یسْن‌ ، جشن‌اور ایزد " جیسے قدیم ترین فارسی زبان کے الفاظ میں سے ہے۔اس کے بھی 21 ابواب ہیں اور ہر باب چند ضصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔"یسنوں کا یشتوں" سے فرق محض مواد کے اعتبار سے ہے۔"یسن" میں عمومی دعا ،مناجات اور احکام ہیں جبکہ "یشب" میں دیوتاوں کی ستائش پر مبنی سرود ہیں۔نیز "یشتیں" کمیت اور قدامت کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں [9]

جبکہ ہر "یشت" بڑی(جس میں سے 5،8،10،13،17،19) جو قدیم ابواب پر مشتمل ہیں اور ئام طور پر "ایزدی" کی تعریف وتکریم میں پڑھی جاتی ہے۔اور یہ "یشت" اسی سے مختص ہے۔ اور اس میں کے تاریخی حوادث کی نشان دہی کی گئی ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام"یشبوں"کا کچھ حصہ خاص ساز اور موزون پر منحصر ہے۔

چنانچہ بعض ماہرین ایران سٹڈیز نے اس کے وزن کو ہجا کے مطابق یعنی ہر مصرے میں اس کے پہلے حرف کے تلفظ کی بنیاد پر جبکہ دوسرے گروہ نے ردیف کی بنیاد پر قرار دیا ہے۔[10]

'یشتوں" کی اویستا کے دیگر حصوں پر برتری محض اس کے شاعرانہ طرز اور ڈائینامک ہونے کی وجہ سے ہے۔جو اویستا کے دوسرے دینی اور فقہی ابواب سے بالکل مختلف ہے۔ "یشبوں میں دیوتے خاص رزمی تاریخ اور اوصاف کے حامل ہیں جن کی شاعرانہ صورت میں ستائش کی گئی ہے۔مثلاً "مہر یشب"باب نمبر 35 میں جوشائرانہ توصیف اور خیالی منظر کشی کی صورت میں یورپی ہندوستان کی قدیم ترین ادب کا معروف ترین اثر ہے۔میتھالوجیک اور پورانیک کہانیاں اور رزمی داستانیں جیسا کہ ٹیشٹر کی دیو کے ساتھ جنگ اور اسی طرح کے دو مختلف مجموعے اسماء وافعال کے حوالے سے "یشب" کی خصوصیات میں سے اہم ہیں۔اس میں متون کے علاوہ وضاحت بھی کی گئی ہے۔اویستا متاخر میں چھوٹے چھوٹے متون قابل ذکر ہیں جو "هیربدستان"‌ ، "نیرنگستان"،‌ " هادُخت‌ نَسْک"‌ ، اَوْگمَدَیچا" اور" وَیثا نَسْک"‌‌ زردشتوں کے آخری پیغمبروں سے عبارت ہے اور اویستا متاخر کے اخری حصہ کو تشکیل دیتی ہے (معلومات کے لیے اویستاؐ کا زبان و ادب ملاظہ فرمائیں)۔اویستا کے موجودہ متون میں سے 'اہان اور یشب خاص ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔اور اویستا کے یہ دو حصے جو تال(سر )اورآواز کے اعبار سے یکساں ہیں یہ قدیم فارسی ادب ہندو یورپی ادب کا عمدہ شاہکار ہیں جو ادبی حوالے سے بے حد قدر وقیمت رکھتی ہیں اور توجہ طلب ہیں۔

وسطی دور میں ایرانی زبانیں[ترمیم]

وسطی دور میں قواعد کی شباہت کی بنیاد پر ایرانی زبانیں دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہیں۔

1: مشرق وسطی میں ایرانی گروپ

2: مغرب وسطی میں ایرانی گروپ

مشرق وسطی میں ایرانی گروپ:

یہ گروہ بلخی ،سکھ سغدی اور خوارزمی زبانوں پر مبنی ہے۔

بلخی زبان[ترمیم]

بلخ کے علاقے کی قدیمی زبان ہے جو خراسان کا بڑا شہر ہے۔اور 1957 تک اس زبان کے آؑار تک دسترس نہ ہو سکی۔لیکن فرانس کے ماہریں تاریخ نے اس زبان کا ایک کتبہ سرخ کتل (بدخشان اور بلخ کے درمیان میں جگہ ہے) سے دریافت کیا جس کے بعد اس زبان کا ایک اورکتبہ بھی ملا مگر تاریخی دور کا کوئی نیا اثر نہیں ملا۔

سکھ زبان[ترمیم]

اس زبان کے کئی آثار دریافت ہوئے یہ اہم آرین زبان گیارہویں صدی تک کاشغر اور اس کے مضافات میں بولی جاتی رہی اورپھر ترکوں کی یلغار کے بعد اس کی جگہ ترکی زبان نے لے لی۔ پامیر کے الفاظ اسی سکھ زبان کے آثار ہیں(حوالہ: تاریخ زبان فارسی از ابوالقاسمی)۔

سیکھوں کی زبان جو ایرانی نسل کے تھے اور دریائے خزر کی دو جوانب اور روس کے جنوب میں ماورالنّهر( Transoxiana) کے کنارے رہتے تھے ان کی تحریر کے آثار نہیں ملتے۔ (وہی، شق نمبر 3 )

ہیروڈوٹس(Herodotus) بھی سیکھوں کے متعلق داستانیں ہیں جو سونے کی حفاظت کرنے والی کے نام سے موسوم ہیں۔[11]

سغدیائی زبان[ترمیم]

سغد (Sogdiana)جس کا اہم شہر بخارا تھا اس زبان کے قدیم تاریخی آثار میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا۔البتہ اس کے وسطی دور کے کافی آثار ہیں۔سغدی زبان نے چوتھی صدی عیسوی میں اپنا مقام مرتبہ فارسی زبان کو عطا کر دیا۔آج یغنابی (Yaghnobi) زبان جو یغناب کے دور میں رائج تھی اسی زبان کا باقی رہنے والا اثر ہے۔

خوارزمی زبان[ترمیم]

یہ خوارزم کی قدیم زبان تھی جو مغل دور تک خوارزم میں رائج رہی اور اس کے بعد اس کی جگہ ازبک زبان نے لے۔( بہت قوی امکان ہے کہ خوارزم آریاووں کی اولین چاہت تھا)۔

مغرب وسطی میں ایرانی گروپ[ترمیم]

یہ گروہ پارتھیائی پہلوی زبان کو شامل ہے۔

پارتھیائی پہلوی زبان[ترمیم]

اس زبان کے قدیم تاریخی دور کے آثار نہیں رہے۔البتہ وسطی دور کے کچھ آثار باقی ہیں۔جنمیں سے اہم ترین اردوان پنجم کا شوش شہر میں کتبہ ہے۔ اس کے آثار میں سے ساسانی دور کے بادشاہوں کے کتبے اور دوکتابیں " زریران "اور" درخت آسوریک "ہیں۔

فارسی زبان وسطی[ترمیم]

یہ زبان قدیم فارسی ہے اور ساسانی دور میں ایران کی رسمی زبان تھی۔اس کو پہلوی ساسانی زبان بھی کہا جاتا ہے۔اس زبان کے آثار وسطی دور میں چار آثار ثار مختلف حروف تہجی کے اعتبار سے باقی ہیں۔جنمیں ساسانی دور کے بادشاہوں اور اہم لوگوں کے کتبے ، زبور پهلوی ،زرتشتوں اور مانو کے آثار ہیں۔

مغرب وسطی کا ادب[ترمیم]

پارتھی ادب (پہلوی پارتھیائی) پارٹی پارتھیائی حکمران سلسلہ کی رسمی زبان تھی (جو تیسری صدی اور تیسری صدی کے ابتدائی دور میں)ایران کی وسطی زبانوں میں سے ایک ہے۔اس زبان کے تاریخی آثار کے حوالے سے کچھ بھی باقی نہیں البتہ اسکت وسطی دور کے آثار میں پتھروں،چمڑے ،مٹی ،دھات اور ٹکٹوں وغیرہ پر لکھے ہوئے کے علاوہ کتبوں اور مانو کا لکھا ہو خط مانوی موجود ہے۔

ساسانی بادشاہوں کے دو یا تین زبانوں میں لکھے ہوئے پتھر پر آثار اہم ترین آثار ہیں۔جو آثار تاریخی اعتبار سے بے حد اہمیت کے حامل ہیں اگرچہ ادبی حوالے سے ان کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ پارٹی ادب دور کا کوئی متن اصل صورت ہمیں نہیں ملا ہے ابتہ شواہد کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ پارتھیاوں کے دور میں غیر دینی ادبی آثار شعر ونثر کی صورت میں موجود تھے۔یہ آثار شفاہی صورت میں ظہور اسلام تک باقی رہے۔ادب کی شاندار تاریخ اسلامی دور میں ہی لکھی کئی ہے۔چنانچہ غیر دینی پارٹی ادب زیادہ تر منظوم صورت میں ہی تھا۔پروفشنل داستان گو افراد نے اس کو اسی ساز ورنگ کے ساتھ ہی نقل کیا ہے۔ان شعرا کا ایک گروہ جو گوسان(Gossan) کے نام سے موسوم تھا اور یہ وہ شعرا اور موسیقاروں کا ٹولہ تھے جنکو ایران کی قومی داستانیں حفظ تھیں اور ان کو خاص کر اشعار کی صورت میں بیان کرتے تھے۔ (وہی پارتھی ادب کا لکھا ہوا ص‌۔ 1155 )۔انہی سے پہلوی دور میں استفادہ کیا گیا ہے۔

پہلوی دور میں فارسی ادب[ترمیم]

مشرقی فارسی زبان تاریخی فارسی زبان کے بعد ساسانیوں کے دور حکومت میں ایران کی رسمی زبان تھی۔اس زبان کے لکھنے کے لیے جو رسم الخط استعمال کیے گئے ہیں وہ آرامی خطوط سے عبارت ہیں۔اس دور کے کتبے اور کتب (زبور)جو مسیحی دور کی فارسی زبان کی صورت میں لکھے گئی اور اس طرح خط مانوی بھی ہے جو مانو کے دور کا ہے ۔

اس دور کے باقی ماندہ فارسی آثار دو قسم کے ہیں :

دینی اور غیر دینی[ترمیم]

دینی آثار[ترمیم]

جو زیادہ تر تیسری یا چوتھی ہجری قمری میں یعنی جب زرتشتی دین ایران کا رسمی دین نہ رہا تب جمع کیے گئے۔اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں اور حملوں میں خاص کر مغلوں کی چڑھائی کے وقت ضائع ہو گئے۔

غیر دینی اور ادبی آثار[ترمیم]

جو اشعار یا نثر کی صورت میں تھے۔چونکہ اسلام سے پہلے دور میں ایران میں محض شفاہی رواج تھا لہذا لکھے نہیں گئے اور سینہ با سینہ آگے منتقل ہوتے گئے یہاں تک کہ اسلام کے بعد تک پہنچے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول گئے۔ان کی تحریری شکل ختم ہونے کی ایک وجہ پہلوی رسم الخط کے عربی زبان میں بدلنا بھی ہے۔جو مذہبی اور سیاسی وجوہات کی بنیاد پر ختم ہو گئے۔البتہ ان میں سے بعض کا فارسی یا عربی ترجمہ باقی ہے۔جو" کلیہ اور دامنہ" کی صورت میں موجود ہے۔اور پہلوی دور کے اشعار جوپہلوی فارسی کی پیچیدگیوں اور زبان کی تبدیلیوں نیز اوزان کے حروف تہجی سے عروض میں تبدیلی کی بنیاد پر (وہ علمی عروض کہ جن کی بنیاد پر شعر اوزان اور اس کی تبدیلیوں کو چانچا جاتا ہے)نیز ان کے ترنم اور موسیقی کے مانند پڑنے سے (چونکہ اس وقت کے اشعار عموماً موسیقی کے ساتھ پڑھے جاتے تھے) مشکالت کا شکار ہو گئے۔اس دور کے باقی رہنے والے فارسی آثار عبارت ہیں :

- کتبوں کی صورت میں آثار کے۔

- کتب کی صورت میں آثار۔

- پہلوی زبور ‌۔

- بعض پراکندہ لغات اور جملات جو فارسی یا عربی کتب میں آئے ہیں(عربی یا فارسی رسم الخط میں)۔

- مانو کے آثار۔

فارسی زبان میں لکھے گئے وہ کتبے جو ساسانوں کے دور میں لکھے گئے ہیں وہ زبان کی شناخت یا تاریخ کے اعتبار سے محض ایران میں ساسانی عہد کی تاریخ،ان کی ثقافت اور دینی اہمیت کے حامل ہیں۔چنانچہ وہ کتبے جنو اساتذہ کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں وہ الفاظ کے ساتھ کھیل کیصورت میں ہیں۔ان میں سے صرف شاہ پور اول کا کتبہ الگ ہے جو زرتشتوں کے کعبہ میں تھا اور یہ بہت ہی غور فکر کے ساتھ لکھا گیا ہے۔نیز یہ تاریخی ،ثقافتی اور جغرافیائی معلومات کے علاوہ اس دور کی فارسی زبان کی شناخت جیسی قیمتی معلومات پر منحصر ہے۔کتاب کے وہ آثار جس کا ایک بڑا حصہ زرتشتوں کے دینی ادب پر منحصر ہے وہ ادبی حثیت کا حامل نہیں ہے اور صرف زبان اور اس کی ابتدء کی شناخت کے حوالے سے موثر ہے۔اس دور کا فارسی ادب زیادہ تر غیر دینی اشعار پر مبنی ہے۔جس کی بنیاد گوسان ہی ہیں اور تھریری صورت میں نہیں ہے۔اور یہ خیانگروں کے رسم ورواج جنھوں نے ساسانی بادشاہت میں بے حد مشکلات کا سامنا کیا ،نے اس دور کی داخلی حکومتوں کے زیر اثر نئے ایرانی معاشرے میں نئی زندگی کا آغاز کیااور اپنی ساسانی شناخت کو اشعاراورخیالی تصاویر کی صورت میں جو زرتشتی رنگ سے عاری تھیں عربی وزن اور قافیہ کے ساتھ جاری رکھا۔

مشرق وسطی میں ادب[ترمیم]

سغدیائی ادب[ترمیم]

سغدیائی متن تین خطوط سغدی،مانوی اور سریانی سے لکھا گیا ہے۔اور اس کے موجودہ آثار کو وسطی دور کی بنیاد پر دو نطج ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔دینی اور ئے یر دینی۔اس وسطی دور کا فارسی ادب کا تعلق آٹھویں صدی عیسوی سے گیارہویں صدی عیسوی یعنی دوم سے پنجم قمری تک ہے۔اور بدھ مت کے مذاہب ،عیسائی مذہب اور مانوی مذہب کے پیروکاروں سے متعلق ہے۔

خوارزمی ادب[ترمیم]

خوارزمی قدیم خوارزم کی زبان ہے (جو ازبکستان کا علاقہ ہے اور آج جمہوریہ ترکمانستان کہلاتا ہے)یہ چوتھی صدی کے اواخر تک زندہ زبان کے طور پر رہی۔اس زبان کے آثار میں سے خوارزمی ڈاکیومنٹس ہیں جو خوارزمی زبان میں ہیں اور دوسری یا تیسری صدی تک رہے۔اس طرح اس زبان کے آثار جو سکوں،کتبوں ،لکڑی اور چمڑے،چاندی کے برتنوں یا دیواروں پر لکھے آثار کی صورت میں ہیں ملے ہیں(وہی صفحہ نمبر173،174)۔

سکوتی ادب[ترمیم]

اس دور کے سکھوں کے باقی ماندہ آثار جو سین کیانگ(چین کے ترکستان) سے جو بیسویں صدی کے آغاز میں دریافت ہوئے ہیں وہ اس زبان کے دو پہلووں کو اجاگر کرتے ہیں۔شمال غربی حصہ(جو قدیم ترین ہے تمشقی کے نام سے مشہور ہے)اور مشرقی (ختن کے طور پر جاناجاتا ہے) اور اس کے تمام آثار بدمت سے مربوط ہیں اور سنسکرت میں ترجمہ ہوئے ہیں اور یہ قریباً دینی ادب ہے۔

بلخی ادب[ترمیم]

بلخی زبان بلخ (آج کا شمال افغانستان )کے رہنے والے لوگوں کی قدیم واحد زبان ہے جس کے لکھنے کا طرز تحریر یونانی حروف تہجی پر ہے۔اس زبان کے آثار جو دوسری صدی سے نویں صدی عیسوی سے متعلق ہیں یہ آثار بھی کتبوں،سکوں اور مہروں اور پتھروں پر کنندہ صورت میں ہیں جو بلخی زبان کے آثار ہیںَ

مانوی ادب[ترمیم]

مانوی زبان کے آثار قدیم تریں ادبی آثار شمار ہوتے ہیں جو ایرانی زبانوں میں سے مشرقی فارسی، پارٹی ،سغدی اور بلخی میں کتبوں کے علاوہ ہیں۔یہ آثار جو مانوی خط میں ہیں اور تدمری خط میں لکھے گئے ہیں اور انکا تعلق تیسری سے نویں صدی سے ہے یہ بکھرے ہوئے ٹکڑوں اور خراب صورت میں بیسویں سدی کے اوائل میں خانقاہوں کے کھنڈر سے ملے ہیں جو چین کے ترکمانستان سے ملے ہیں جن کا مواد سامی یونانی ہے اور دینی بنادوں پر مبنی ہیں ۔( ماہرین مانویت‌،تعلیمات دو بُن‌، ص‌ 217ـ236)۔

اسلام کے بعد کا ایرانی ادب[ترمیم]

اسلام سے قبل کے آثار جو دو زبانوں ؛ پہلوی زبان اور دری زبان کے تھے بہت کم ہی ہیں۔اور اس دور کا اہم تاریخی اثر جو دری زبان میں ہے اور اس میں مانوی متون اور اویستا کے بعض حصوں کا ترجمہ جو دری زبان میں ہے اور "پازند" کے نام سے جانا جاتا ہے موجود ہے۔اس دور کی دری زبان بھی بعض ساسانی شہنشاہوں کے کتبوں میں استعمال کی گئی ہے۔ دونوں زبانوں دری اور پہلوی زبان کے اسلام کے آنے سے قبل پنے مخصوص قواعد وضوابط اور ادب تھا۔اور یہ ادب بدقسمتی سے ہم تک نہ پہنچ پایا۔اسلامی دور کا پہلا ایرانی تاریخی دور سن 520 سے شروع ہوا اور وہ سلسلے جو مشرقی علاقوں میں دریافت ہوئے انھوں نے اپنی قومی سیاست کی بنیاد زبان پر استور کی ہوئی تھی۔چونکہ اس ملک کی زبان دری تھی اس زبان کاجو ادب معرض وجود میں آیا اس نے اس نے خواہ نخواہ پہلوی اثر کو متاثر کیا۔

سن 429 میں سلجوق کے ترکوں نے ایران پر یلغار کی غرض سے ترکستان چڑھائی کی اور آہستہ آہستہ انھوں نے ملک پر قبضہ کر لیا۔چنانچہ وہ مشرق کی سمت سے آتے تھے اور ان کے دفتری ملازمین بھی اسی علاقے کے تھے۔لہذا ان کے لیے دری فارسی کو اپنے بادشاہی دربارکیلئے منتخب کرنا ناگزیر تھا۔جنھوں نے اس زبان کو ایران کے دور دراز علاقوں تک وسعت دی۔جس کے نتیجہ میں گیارہویں صدی کے اوائل میں دری زبان کو پورے ملک میں ادبی مقام حاصل ہو گیا۔نیز اس زبان نے دوسرے ایسے علاقوں میں بھی، جہاں اب تک پہلوی زبان رائج تھی، اپنے پنجے گاڑ لیے۔اس دور سے دری ایران کی ادبی زبان قرار پائی۔جبکہ پہلوی زبان ایران میں بولی جانے والی کئی دوسری بولیوں کی طرح ایک بولی قرا پائی اور اس کی قدرقیمت کم ہو گئی۔ پہلوی دور کی آخری باقیات جو محض کتبوں اوردہاتی سکوں کی صورت میں ایران کے شمالی علاقہ طبرستان میں موجود ہے اور یہ گیارہویں صدی کے وسط کے آثار ہیں۔نیز پہلوی ادب کے ابتدائی نمونے جو ابتدائی ہجری صدی سے متعلق ہیں اور مذہبی نوعیت کے کاموں کی ایک بڑی کتاب کی صورت میں ہیں اور اسے ایران کے زرتشتیوں نے اپنی دینی اور مذہبی بنیادوں کو محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھا تا اور جب انھوں نے برصغیریعنی ہندوستان کی طرف ہجرت کی تو وہاں ساتھ لے گئے۔جس کے متون کو یورپی دانشوروں نے گذشتہ صدی اور موجودہ صدی میں چھاپ اور نشر کیا ہے۔

اس دور کی کچھ خاص کتب کے بارے میں یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ یہ کتب اسلام سے قبل ساسانی دور کی ہیں۔ اگرچہ ان کتب کے اسلامی دور میں تالیف ہونے کے دعوے کے اثبات کے لیے کئی دلائل بھی موجود ہیں ۔ جو کچھ بھی پہلوی ادبی آثار کے حوالے سے اب تک دریافت ہوا ہے وہ انہی کتب اور رسائل تک محدود ہے۔

بہر صورت یہ مسئلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پہلوی ادب ساسانی دور کے اختتام تک رائج رہا۔حالنکہ دری زبان ان چار سو سالوں میں جو سلجوقی دور سے پہلے تھے ان میں ملک کی بطور ادبی زبان رائج تھی۔جبکہ ایران کے موجودہ شمالی،جنوبی اور مغربی علاقوں میں پہلوی زبان رائج تھی۔اس زبان کی صرف ایک خاص شعری صورت جو "پہلویات" کے نام سے جانی جاتی ہے ہمیں ملی ہے۔اور بابا طاہر عریان ہمدانی کے دو بیتی اشعار اس کی واضح ترین مثال ہیں۔

نئے فارسی ادب کا آغاز[ترمیم]

آج کے ایران کی زبان وہی دری زبان کی ارتقائی شکل و صورت ہے جو فارسی زبان کے طور پر جانی جاتی ہے۔اور ایران کے لوگوں کے نزدیک فارسی کا لفظ ہراس زبان پر اطلاق رکھتا ہے جو اس ملک میں رائج رہی ہے۔

ماضی میں وہ دوزبانیں جو ہماری مطمح نظر ہیں اور دونوں ایک ہی وقت میں اس ملک میں رائج رہی ہیں وہ "دری فارسی" اور "پہلوی فارسی"کے طور پر مشہورتھیں۔اور آج کی فارسی زبان یعنی دری زبان نے بھی اسی طرح اسلامی دور میں ایران کے مشرقی حصہ میں پرورش پائی ہے۔اس زبان کے اہم مراکز میں سے"ماوراءالنهر"( Transoxiania)،خراسان یعنی سمرقند،بخارا،بلخ،مرو،ہرات،توس اور نیشاپور تھے ،یہاں تک کہ ان کی وسعت سیستان تک تھی۔

نیزاس زبان کے مشہور ترین شعرا کا سلجوقی‌ دور تک انہی شہروں سے پروان چڑھنا اسی بات کی دلیل ہے۔

چنانچہ دری زبان آہستہ آہستہ خراسان اور "ماوراءالنهر"( Transoxiania) سے ایران کے دوسرے علاقوں میں پھیل گئی۔اور وہ بھی اس طرح کہ غزنوی دور میں گرگان،دامغان اور ری تک رائج رہی اور سلجوقی دور میں آذربائیجان سے لے کر اصفہان اور ہمدان تک کی سیر کی۔یہاں تک کہ سعدی اور حافظ کے دور میں بھی رائج زبان کے مقام پر نہ پہنچ سکی اور یہی وجہ ہے کہ یہ دو مشہور شعرا اس زبان پر تسلط رکھنے کی بنیاد پر اپنے شاعرانہ افکار کا اظہار کرنے میں لذت محسوس کرتے تھے اور اسی پہلوی فارسی کے لہجہ میں جو شیرازی کی زبان کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے اشعار کہتے تھے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ زبان فارسی از ابوالقاسمی
  2. تاریخ زبان فارسی از ابوالقاسمی
  3. نک کنتھ کے کتیبہ کا متن‌ ص‌۔ 156-116
  4. لوکوک‌، ص‌ 277-179
  5. ایران کے قدیم ادبی‌ اور شفاهی‌ آثار ، ص‌ 25ـ36
  6. بادشاہوں کا جنسی ریکارڈ ‌، ، ص‌ 82 ، 87ـ88
  7. تاریخ زبان فارسی از ابوالقاسمی
  8. بوائس، زرتشت ہسٹری، ج 1، ص 19
  9. کریستنسن‌، مزدا پرستی‌ در ایران‌ قدیم‌ ، ص‌ 55 بہ‌ بعد
  10. لازار، «وزن‌ اوستا‌ متأخّر»، ص‌۔ 284 ؛ وہی «‌‌ اوستا کے ت‌یشتوں میں صنیف‌ او روزن‌ »، ص‌۔ 228-217
  11. ہیروڈوٹس ج2
  • ابوالقاسمی، محسن، تاریخ زبان فارسی ، انتشارات سمت، تهران، چاپ پنجم۔
  • بهار، محمد تقی، سبک شناسی، جلد اول، امیر کبیر، تهران، 1369.
  • خانلری، پرویز ناتل،دستور تاریخی زبان فارسی، انتشارات طوس،تهران، چاپ دوم۔
  • زرشناس،زہرا، زبان و ادبیات ایران باستان، دفتر پژوہش‌های فرهنگی، 1390۔
  • زرشناس،زهرہ، ادبیات ایران از آغاز تا امروز، برگرفتہ از سایت نور، 1390۔