مندرجات کا رخ کریں

معمر بن مثنى

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
معمر بن مثنى
(عربی میں: أبو عبيدة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 728ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 825ء (96–97 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ [2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص ہارون الرشید [2]  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ علم اللسان ،  مورخ ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معمر بن المثنى (728ء تا 825ء) عربی قواعد کے ماہر تھے اور دور اول کے مسلمانوں میں سے ہیں۔[3] ان کی کنیت ابو عبیدہ ہے اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی ولادت بصرہ میں ہوئی اور وہیں وفات پائی۔ ابو عمر بن علاء بصری اور یونس بن حبیب کے شاگرد ہوئے۔ وہ ان تین ہمعصر علما میں سے ہیں جنھوں آپس میں خوب اختلاف کیا اور خوب جھگڑا کیا؛ وہ خود، ابو زید اور اصمعی۔ وہ ایک متنازع شخصیت تھے۔ ابن قتیبہ دینوری کا کہنا ہے کہ ابو عبیدہ غیر پسندیدہ عرب میں سے ایک ہیں۔ البتہ ان کے ہمعصر انھیں اپنے زمانہ کے بڑے علما اور ماہر علوم و فنون مانتے ہیں۔ وہ زمانہ جاہلیت کے حالات کے بڑے جانکار تھے اور عرب کے متعلق بہت معلومات رکھتے تھے۔[4] وہ شعوبیہ کی طرف مائل تھے۔

حالات زندگی

[ترمیم]

ابو عبیدہ کے والد باجروان کے یہودی تھے۔ باجروان فارس کا ایک علاقہ تھا۔ والد رنگ ریز تھے۔ اصمعی نے ان کو اس پر عار دلائی ہے۔ ہارون الرشید نے 188ھ میں انھیں بغداد بلایا اور ان سے علم حاصل کیا۔ جاحظ کا کہنا ہے کہ ابو عبیدہ سے زیادہ جامع علوم نہیں دیکھا۔ وہ اباضیہ شعوبیہ تھے۔ حافظ حدیث تھے۔ امام شمس الدین ذہبی لکھتے ہیں؛

ابو عبیدہ کا نام معمر بن مثنی ہے اور وہ علم کے سمندر ہیں۔۔۔۔ان سے زیادہ کتاب اللہ اور سنت روسل اللہ کا جاننے والا نہیں پایا۔[5]

ابو عبیدہ لسانیات کے امام تھے۔ وہ مفردات القران کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ عربی زبان کے سب سے بڑے عالم اور عرب کے ایام جاہلیت سے سب سے بڑے آشنا تھے۔ ابن ہشام نے انھیں معانی قران کا امام مانا ہے۔[6] ابو عبیدہ قران صحیح سے نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ وہ تلاوت میں غلطیاں کرتے تھے مگر معانی قران میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ غریب اور نوادر الفاظ کے بھی معنی بتا دیا کرتے تھے۔ ابن ندیم نے ان کی کتب کی تعداد 105 بتائی ہے۔ ان کی کتاب “کتاب الایام]] ابو الفرج اصفہانی کی کتاب الاغانی اور ابن اثیر جزری کی تاریخ کا منبع ہے۔ ان کی کتابیں اب ناپید ہیں۔[6]

ان کی وفات بصرہ میں 825ء میں ہوئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ عنوان : Abu Ubaida — اشاعت: دائرۃ المعارف بریطانیکا 1911ء
  2. ^ ا ب پ عنوان : Абу-Обеида
  3. Günter Lüling, A Challenge to Islam for Reformation: The Rediscovery and Reliable Reconstruction of a Comprehensive Pre-Islamic Christian Hymnal Hidden in the Koran Under Earliest Islamic Reinterpretations، pg. 31. دہلی: Motilal Banarsidass، 2003. آئی ایس بی این 9788120819528
  4. Hamilton Alexander Rosskeen Gibb, Studies on the Civilization of Islam، pg. 67. Volume 21 of Routledge library editions: Islam. لندن: روٹلیج، 2013. آئی ایس بی این 9781135030346
  5. سير أعلام النبلاء - الذهبي - ج 9 - الصفحة 445
  6. ^ ا ب وبط= ایک یا کئی گزشتہ جملے میں ایسے نسخے سے مواد شامل کیا گیا ہے جو اب دائرہ عام میں ہے: ہیو چھزم، مدیر (1911)۔ "Abu Ubaidaانسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (بزبان انگریزی)۔ 1 (11واں ایڈیشن)۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 81