ابو مصعب الزرقاوی
ابو مصعب الزرقاوی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: أبو مصعب الزرقاوي) | |||||||
![]() |
|||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائشی نام | (عربی میں: أحمد فضيل نزال الخلايلة) | ||||||
پیدائش | 30 اکتوبر 1966ء زرقاء |
||||||
وفات | 7 جون 2006ء (40 سال)[1][2][3][4] | ||||||
وجہ وفات | انفجاری آلہ | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | ![]() |
||||||
جماعت | القاعدہ | ||||||
رکن | القاعدہ، عراق ، مجاہدین شوریٰ کونسل | ||||||
مناصب | |||||||
امیر القاعدہ عراق (1 ) | |||||||
برسر عہدہ 17 اکتوبر 2004 – 7 جون 2006 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
استاذ | ابو انس الشامی [5] | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
مادری زبان | عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | جماعت التوحید والجہاد ، القاعدہ | ||||||
عہدہ | کمانڈر | ||||||
کمانڈر | جماعت التوحید والجہاد القاعدہ، عراق |
||||||
لڑائیاں اور جنگیں | عراقی جنگ | ||||||
درستی - ترمیم ![]() |
ابو مصعب الزرقاوی (عربی: أحمد فضيل النزال الخلايله) کا اصل نام احمد فضیل تھا۔[6] وہ 30 اکتوبر 1966ء کو اردن کے شہر زرقا میں پیدا ہوئے، جو فلسطینی مہاجرین کی بڑی آبادی پر مشتمل تھا۔[7] ان کا تعلق دریائے اردن کے مشرقی کنارے میں بسنے والے بدو قبیلے بنو حسن کی خلیلہ شاخ سے تھا۔[8] ان کے آبا و اجداد 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اپنی زمینیں چھوڑ کر الزرقا میں پناہ گزین ہوئے۔[9][10] ۔ زرقاوی کی تعلیمات نے عراق اور شام سمیت دیگر علاقوں میں شدت پسندی کو ہوا دی اور داعش جیسی تنظیموں پر گہرا اثر ڈالا۔[11]
ابتدائی زندگی
[ترمیم]الزرقاوی نے ایک غریب ماحول میں آنکھ کھولی، جہاں غربت اور ناانصافی عام تھی۔[12] وہ چار بھائیوں اور چھ بہنوں میں شامل تھے۔[13] [14]1984ء میں ان کے والد احمد نزال کی وفات کے بعد انھوں نے تعلیم ترک کر دی اور نوکری شروع کر دی۔ 1988ء میں انھوں نے فلسطینی عالم عبد اللہ عزام اور پروفیسر سیاف کی تقاریر سنیں، جنھوں نے نوجوانوں کو افغان جہاد میں شمولیت کی دعوت دی۔[15] اسی وقت انھوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔[16][17]
جہاد افغانستان
[ترمیم]1989ء کے موسم بہار میں، ابو مصعب الزرقاوی پشاور پہنچے، جہاں ان کا جہادی نام "ابو محمد الغریب" رکھا گیا۔ اس وقت عبد اللہ عزام، جو وہابی جہادی آئیڈیالوجی کے اہم مبلغ تھے، نے انھیں میران شاہ کے راستے خوست کے پہاڑوں میں بھیج دیا، جہاں انھوں نے عسکری تربیت حاصل کی۔[18][19]
عسکری تربیت
[ترمیم]1991ء میں، الزرقاوی نے جلال الدین حقانی کے ساتھ مل کر خوست کی فوجی چھاؤنی سے افغان کمیونسٹ فوج کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔[20] یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور اقوام متحدہ افغان مجاہدین کو کابل کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جب کہ افغان گروپوں میں اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔[21]
حقانی کے ساتھ اتحاد
[ترمیم]پاکستانی حکومت عرب مجاہدین کی واپسی کے لیے بھی سرگرم تھی۔[22] اسی دور میں پشاور میں ان کی ملاقات ایک فلسطینی عالم ابو محمد المقدسی سے ہوئی، جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عرب حکومتوں کے دوستانہ تعلقات کے سخت مخالف تھے۔ المقدسی کا ماننا تھا کہ امریکا کے احکامات بجا لانے والی عرب حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت کی ضرورت ہے، جس کی الزرقاوی نے حمایت کی۔[23] تاہم، القاعدہ کا موقف اس وقت یہ تھا کہ پہلے اسرائیل اور امریکا کے خلاف مزاحمت کی جائے، بجائے اس کے کہ عرب حکومتوں کے خلاف بغاوت کی جائے۔[24]
اردن واپسی اور التوحید تنظیم کا قیام
[ترمیم]جب القاعدہ کی قیادت سوڈان منتقل ہو گئی، تو 1993ء میں ابو مصعب الزرقاوی اور ان کے نئے رہنما ابو محمد المقدصی واپس اردن چلے گئے۔[25] وہاں انھوں نے "التوحید" کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد اردنی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنا تھا۔ تنظیم نے ہتھیار جمع کرنا شروع کیے تاکہ حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کی جا سکے۔[26]
اوسلو معاہدہ کی مخالفت اور گرفتاری
[ترمیم]13 ستمبر 1993ء کو اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان "اوسلو معاہدہ" ہوا، جسے ابو مصعب الزرقاوی نے سختی سے مسترد کیا اور اس کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے۔ 29 مارچ 1994ء کو اردنی حکومت نے ان کی مسلح سرگرمیوں اور امن معاہدے کی مخالفت کی بنا پر انھیں گرفتار کر لیا۔[27]
السوقہ جیل میں سختیاں اور شدت پسندی میں اضافہ
[ترمیم]1995ء میں ابو مصعب الزرقاوی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور انھیں عمان سے 85 کلومیٹر جنوب میں واقع السوقہ جیل بھیج دیا گیا، جو ایک ریگستانی علاقے میں واقع تھی۔[28] جیل میں ابو مصعب الزرقاوی کو انتہائی ظالمانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ان کے پاؤں کے ناخن نوچنا، جسم پر زخم لگا کر نمک چھڑکنا اور طویل قید تنہائی شامل تھی۔ السوقہ جیل میں چھ ہزار سے زائد قیدی موجود تھے، جن میں سے اکثر نے عرب-اسرائیل امن معاہدے کی مخالفت کی تھی۔[29]
فواد حسین سے ملاقات اور نظریاتی پختگی
[ترمیم]السوقہ جیل میں اردنی صحافی فواد حسین بھی قید تھے، جو عرب-اسرائیل امن معاہدے پر تنقید کرنے کی وجہ سے قید تھے۔[30] جیل میں ان کی ملاقات ابو مصعب الزرقاوی سے ہوئی، جنھوں نے ان کے نظریات اور شدت پسندی کو قریب سے جانا۔ فواد حسین کے مطابق، جیل میں ہونے والے ظلم و ستم نے ابو مصعب الزرقاوی کو مزید سخت گیر بنا دیا۔[31] اس دوران، ابو مصعب الزرقاوی نے اپنے ساتھی فقیہہ الشاوش کی مدد سے قرآن مجید حفظ کیا اور عزم ظاہر کیا کہ "ہمیں اپنی قوم کی تقدیر اپنے خون سے لکھنی ہے"۔[32]
رہائی اور دوبارہ جہادی سرگرمیاں
[ترمیم]1999ء میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ دوم نے اقتدار سنبھالا اور عام معافی کے نتیجے میں ابو مصعب الزرقاوی کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔[33][34] رہائی کے فوراً بعد الزرقاوی پشاور چلے آئے، لیکن ویزا کی میعاد ختم ہونے پر انھیں پشاور جیل جانا پڑا۔ کچھ ساتھیوں کی مدد سے ان کی رہائی ممکن ہوئی، جس کے بعد انھوں نے دوبارہ افغانستان کا رخ کیا اور وہاں جلال الدین حقانی کی مدد سے ہرات میں ایک عسکری تربیت کیمپ قائم کرنے کی اجازت حاصل کی۔[35][36]
القاعدہ سے روابط اور افغانستان میں سرگرمیاں
[ترمیم]اسی دوران الزرقاوی کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات مضبوط ہونے لگے، لیکن وہ تنظیم میں باقاعدہ شمولیت سے گریزاں تھے، کیونکہ ان کا نظریہ تھا کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی ہے، اسی طرح عرب مجاہدین کو بھی اپنے اپنے ممالک میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔[37][38]
دسمبر 2001ء میں جب امریکی فوج افغانستان میں داخل ہو چکی تھی، الزرقاوی قندھار چلے گئے، جہاں اسامہ بن لادن سے ملاقات کے بعد تورا بورا منتقل ہو گئے۔ وہاں سے انھوں نے فرار ہو کر خوست اور پھر شمالی وزیرستان کا رخ کیا۔ بعد ازاں، کوئٹہ کے راستے ایران داخل ہوئے اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی مدد سے 2003ء میں عراق پہنچے۔[39][40][41]
عراق میں القاعدہ کا قیام اور اہل تشیع پر حملے
[ترمیم]2004ء میں القاعدہ کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے بعد، الزرقاوی نے اہل تشیع پر حملے بند کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد اسامہ بن لادن نے انھیں عراق میں القاعدہ کا امیر مقرر کیا۔[42][43]
زرقاوی کو عراق میں مجاہدین کے مختلف گروپوں کو متحد کرنے، افغانستان، شام، اردن، کویت، مصر، سعودی عرب، لبنان اور ترکی کے نوجوانوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے اور اسرائیل کے خلاف براہ راست تصادم کی تیاری کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔[44][45]
نور الدین زنگی کی تحریک اور الزرقاوی کی فکر
[ترمیم]2003ء میں، عراق میں امریکی قبضے کے دوران، ابو مصعب الزرقاوی کی شدت پسند آئیڈیالوجی واضح ہوئی۔ ان کے لیے نور الدین زنگی ایک آئیڈیل تھے، جنھوں نے 1148ء میں موصل کو اپنا مرکز بنا کر 1169ء تک شام اور مصر پر حکومت کی اور بعد میں صلاح الدین ایوبی نے ان کی وفات کے بعد یروشلم کو فتح کیا۔[46][47]
الزرقاوی کو یقین تھا کہ کوئی بھی امن معاہدہ، جیسے کہ اوسلو معاہدہ، ان کے قبیلے بنو حسن کو ان کی کھوئی ہوئی زمین واپس نہیں دلوا سکتا، اس لیے انھوں نے نور الدین زنگی کی طرح دجلہ و فرات کی سرزمین میں تحریک مزاحمت کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ یروشلم پر حملہ اور فتح کسی اور نسل کا کام ہو گا، لیکن وہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے، جب تک مسجد اقصیٰ واپس نہ مل جائے۔[48][49]
وفات
[ترمیم]7 جون 2006ء کو ابو مصعب الزرقاوی عراق کے علاقے ہبیب میں ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے۔[50][51] ان کی موت کے بعد بھی ان کے نظریات پر مبنی تحریک، جسے "زرقاویت" کہا جاتا ہے، عراق، شام اور دیگر مسلم ممالک میں شدت پسند تنظیموں کی بنیاد رہی۔[52][53]
بیرونی روابط
[ترمیم]![]() |
ویکی ذخائر پر ابو مصعب الزرقاوی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ http://www.cnn.com/2006/WORLD/meast/06/08/iraq.al.zarqawi/index.html
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Abu-Musab-al-Zarqawi — بنام: Abu Musab al-Zarqawi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/14542584 — بنام: Abu Musab Al-Zarqawi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000025586 — بنام: Abu Mussab al- Sarkawi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ عنوان : مؤسسة الفرقان - من خفايا التاريخ - ميسرة الغريب — Internet Archive ID: https://archive.org/details/Maysara_Al-Gharib
- ↑ Fawaz A. Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ ص 120-122۔ ISBN:9780521791408
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ "Zarqawi's Role in Afghan Jihad and its Legacy"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ "Who was Abu Musab al-Zarqawi?"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ Gilles Kepel (2002)۔ Jihad: The Trail of Political Islam۔ I.B.Tauris۔ ص 175–178۔ ISBN:9781860646848
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ Colin Clarke (2016)۔ Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS۔ Oxford University Press۔ ص 157–160۔ ISBN:9780199355672
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ Brian Fishman (2006)۔ "The Influence of Abu Musab al-Zarqawi on Modern Jihadist Movements"۔ The Washington Quarterly۔ ج 29 شمارہ 4: 19–32
- ↑ Rohan Gunaratna (2002)۔ Inside Al-Qaeda: Global Network of Terror۔ Columbia University Press۔ ص 98–100۔ ISBN:9780231126924
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ ص 102–104۔ ISBN:9781590512463
- ↑ Fawaz A. Gerges (2011)۔ The Rise and Fall of Al-Qaeda۔ Oxford University Press۔ ص 45–46۔ ISBN:9780199976881
- ↑ Michael Weiss (2016)۔ "The Evolution of Jihad: From Zarqawi to ISIS"۔ Middle East Journal۔ ج 70 شمارہ 2: 243–245
- ↑ Fawaz A. Gerges (2011)۔ The Rise and Fall of Al-Qaeda۔ Oxford University Press۔ ص 85–88۔ ISBN:9780199976881
- ↑ Fawaz A. Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ ص 120-122۔ ISBN:9780521791408
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ "Abu Musab al-Zarqawi and the Rise of Jihad in Jordan"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ Michael Weiss (2007)۔ The Mastermind of Terror: How Zarqawi Changed Al-Qaeda۔ Middle East Journal۔ ص 208–210
- ↑ "Zarqawi's Role in Afghan Jihad and its Legacy"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ ص 125–128۔ ISBN:9781590512463
- ↑ Gilles Kepel (2002)۔ Jihad: The Trail of Political Islam۔ I.B.Tauris۔ ص 175–178۔ ISBN:9781860646848
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ Brian Fishman (2006)۔ "The Influence of Abu Musab al-Zarqawi on Modern Jihadist Movements"۔ The Washington Quarterly۔ ج 29 شمارہ 4: 19–32
- ↑ Paul Cruickshank (2006)۔ "The Journey of Zarqawi: From Afghanistan to Iraq"۔ Studies in Conflict & Terrorism۔ ج 29 شمارہ 4: 202–205
- ↑ Fawaz A. Gerges (2011)۔ The Rise and Fall of Al-Qaeda۔ Oxford University Press۔ ص 85–88۔ ISBN:9780199976881
- ↑ "Abu Musab al-Zarqawi and the Rise of Jihad in Jordan"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ Michael Weiss (2016)۔ "The Evolution of Jihad: From Zarqawi to ISIS"۔ Middle East Journal۔ ج 70 شمارہ 2: 243–245
- ↑ Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ ص 102–104۔ ISBN:9781590512463
- ↑ "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ "Zarqawi's Historical Inspirations: The Legacy of Nur al-Din Zangi"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ Laurent Murawiec (2006)۔ The Mind of a Terrorist: The Strange Case of Abu Musab al-Zarqawi۔ Rand Corporation۔ ص 45–47۔ ISBN:9780833039007
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ Peter Bergen (2012)۔ The Rise of Global Jihad: A History of Al-Qaeda۔ Free Press۔ ص 135–137۔ ISBN:9781451665727
- ↑ Thomas Hegghammer (2010)۔ "Zarqawi's Jordanian Connections and His Return"۔ Journal of Middle Eastern Studies۔ ج 42 شمارہ 2: 190–192
- ↑ "Zarqawi's Activities in Afghanistan: Training Camps and Recruitment"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ Rohan Gunaratna (2002)۔ Inside Al-Qaeda: Global Network of Terror۔ Columbia University Press۔ ص 98–100۔ ISBN:9780231126924
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ Fawaz A. Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ ص 175-178۔ ISBN:9780521791408
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ "Why Zarqawi Rejected Al-Qaeda's Global Jihad Strategy"۔ History Today۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ Paul Cruickshank (2006)۔ "The Journey of Zarqawi: From Afghanistan to Iraq"۔ Studies in Conflict & Terrorism۔ ج 29 شمارہ 4: 202–205
- ↑ "Zarqawi's Path: From Afghan Jihad to Iraqi Insurgency"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ ص 125–128۔ ISBN:9781590512463
- ↑ Michael Weiss (2007)۔ The Mastermind of Terror: How Zarqawi Changed Al-Qaeda۔ Middle East Journal۔ ص 208–210
- ↑ Jessica Stern (2008)۔ "The Evolution of Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS"۔ Journal of Terrorism Research۔ ج 32 شمارہ 3: 215–218
- ↑ "How Zarqawi United Iraq's Insurgents"۔ Al Jazeera۔ 10 مئی 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ Colin Clarke (2016)۔ Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS۔ Oxford University Press۔ ص 157–160۔ ISBN:9780199355672
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ "Zarqawi's Historical Inspirations: The Legacy of Nur al-Din Zangi"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ David Cook (2010)۔ Islamic Warriors: From Zangi to Zarqawi۔ Routledge۔ ص 65–68۔ ISBN:9781134008307
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ Paul Cruickshank (2017)۔ "Zarqawi's Vision for the Middle East: The Return of the Islamic State"۔ Middle East Journal۔ ج 71 شمارہ 2: 192–195
- ↑ "Zarqawi's Dream: Reclaiming Al-Aqsa and the Role of Resistance"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23
- ↑ "Zarqawi killed in U.S. airstrike in Iraq"۔ BBC News۔ 7 جون 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ Scott MacDonald (2007)۔ The Death of Zarqawi: End of an Era۔ Columbia University Press۔ ص 256–259۔ ISBN:9780231152237
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت) - ↑ "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-10-23[مردہ ربط]
- ↑ Jessica Stern (2009)۔ The Legacy of Zarqawi: Al-Qaeda in Iraq and Beyond۔ Harvard University Press۔ ص 310–315۔ ISBN:9780674035143
{{حوالہ کتاب}}
: تأكد من صحة|isbn=
القيمة: checksum (معاونت)
- 1966ء کی پیدائشیں
- 30 اکتوبر کی پیدائشیں
- 2006ء کی وفیات
- 7 جون کی وفیات
- اردن کے قیدی اور زیر حراست افراد
- اردنی زیر حراست اور قیدی شخصیات
- اردنی شخصیات
- اکیسویں صدی کے مجرمین
- بیسویں صدی کے مجرمین
- پاکستان میں اردنی تارکین وطن
- حفاظ قرآن
- داعش
- شیعیت کے نقاد
- عراق میں دہشت گردی
- عمّانی شخصیات
- فلم شدہ وفیات
- امریکیت مخالف
- سربراہان القاعدہ
- فلسطینی نژاد اردنی شخصیات
- اسلام پسند
- بے وطن شخصیات
- القاعدہ
- مفرور
- مسلم جوامع
- قاتل
- اردنی اسلام پسند
- داعش کے اراکین
- ارکان القاعدہ