عبدالجبار جونیجو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبدالجبار جونیجو
 

معلومات شخصیت
پیدائش 26 نومبر 1935ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدین ،  سندھ ،  بمبئی پریزیڈنسی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 جولا‎ئی 2011ء (76 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات گردے فیل   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے ،  پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فرہنگ نویس [1]،  مورخ [2]،  شاعر ،  پروفیسر ،  ناول نگار ،  افسانہ نگار ،  کتابیات ساز   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سندھی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل لسانيات ،  افسانہ ،  لغت ،  ناول ،  شاعری ،  سفر نامہ ،  غزل ،  کتابیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سندھی ادب   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ڈاکٹر عبد الجبار جونيجو (انگريزی: Dr. Abdul Jabbar Junejo) (پيدائش: 26 نومبر 1935ء - وفات: 12 جولائی2011ء) پاکستان کے صوبہ سندھ کے نامور محقق، مورخ، اديب، شاعر، افسانہ نگار، سندھی زبان کے ماہر اور سندھ یونیورسٹی میں شعبہ سندھی کے پروفیسر تھے۔ ان کے کئی تحقيقی مقالات اور کتب شائع ہیں۔[3]

حالات زندگی[ترمیم]

ڈاکٹر عبد الجبار 26 نومبر 1935ء کو  پير فتح شاه تحصیل، ضلع بدين میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سلطان احمد تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ انھوں نے 1946 بدين شہر میں سے چار درجے انگريزی پاس کر کے تعلیم کے حصول کے لیے 51-1950 میں باگو آئے۔ اس کے بعد سٹی کالج حیدرآباد میں 1958ء تک پڑھے۔  1960ء میں جامعہ سندھ سے سندھی زبان میں بی اے آنرز کا امتحان دیا۔  1962ء میں ايم اے سندھی ادب کی ڈگری پہلی پوزیشن میں حاصل کی اور گولڈ میڈل کے حقدار قرار پائے۔[4]

علمی خدمات[ترمیم]

1960ء میں سچل آرٹس کالج حيدرآباد میں جونيئر ليکچرر مقرر ہوئے. 1962ء میں جامعہ سندھ کے شعبہ سندھی میں  ليکچرر مقرر ہوئے، پھر ترقی پاتے پروفیسر اور شعبہ سندھی کے چیئرمن بنے۔ 1993ء سے 1995ء تک آرٹس فيکلٹی کے ڈین رہے۔ 2004ء سے 2007ء تک ڈئریکٹر لاڑ میوزم بدین رہے۔ سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ جامعہ سندھ کی اکڈیمک کائونسل سينیٹ اور بورڈ آف ائڈوانسڈ اسٹڈيز انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی کے رکن بھی رہے۔[5] جامعہ سندھ نے ان کے نام ہال قائم کیا ہے۔ [6][7]

ادبی خدمات[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب نے 1952 سے شاعری کی ابتدا 'شام' تخلص سے کی۔ اس کی شاعری کی کتاب ”مرگھ ترشنا“ 1976ع میں شایع ہوئی۔ یہ لسانيات کے ماھر ماھر تھے۔ سندھی زبان کے علاوہ انگريزی، اردو، سرائیکی زبان پنجابی زبان اور چینی زبان پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ عربی زبان ۽ فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ انھوں نے سندھ کے جنوبی علاقے لاڑ کی زبان کی لغت ”لاڑجی لغات“ کتاب ترتيب دی۔ ، اس نے ”سندھی ادب کی تاريخ“ لکھی جو طلبہ کی رہنمائی گرتی ہوئی ہے۔ اس نے علی نواز جتوئی مرحوم کے ساتھ مل کر کتاب ”غزلن جو غنچو“ لکھی جو بی اے کے کورس کے لیے لازمی ہے۔

کتب[ترمیم]

  • سوکھڑی“ (ابیات اور افسانوں کا مجموعہ 1956)
  • بانو گھر“ (افسانوں کا مجموعہ 1958)،
  • دانشمندی“ ( مرتب 1958)،
  • کنز اللطيف“ (شاه لطیف کے رسالے پر 1961)،
  • سوری آ سينگار“ (ناول 1963)،
  • غزلن جو غنچو“ (مرتب 1963)،
  • سندھيوں“ (مذہبی اشعار 1970)،
  • سجن نت سوجھرو“ (حضور صلعم کی شان میں نظم کا ترجمہ 1971)،
  • سندھی بيو کتاب“ (نصاب 1973)
  • مائو جے ملک میں“ (چین کا سفرنامہ 1973)،
  • سندھی ادب جی مختصر تاريخ“ 1973ع،
  • اکيلی“ (ناول ترجمہ 1974ع)،
  • لاڙ جي لغات“ (1975ع)،
  • مرگھ ترشنا“ (اشعار کا مجموعہ 1976ع)،
  • لطيفيات“ (ببليو گرافي 1977)،
  • ”لطيف کوئيز“ (شاه لطيف کے بارے میں سوالات و جوابات 1978)،
  • سندھی شاعری تے فارسی شاعری جو اثر“ (ٿيسز 1980)،
  • ہيکر ہار سينگار سکھی“ (افسانے 1981)،
  • سچل نامو“ (ببليو گرافی 1981)،
  • دیپک ملھار“ (آپ بیتی 1984)،
  • سندھی لوک گيت“ (1985)،
  • سليس سندھی“ (نصاب 1989)،
  • سندھی کوئيز“ (معلومات 1989)،
  • ونڈ سر محل جو مسافر“ (سفرنامہ 1989)،
  • لاڑ جو مطالعو“ (مرتب 1991)،
  • تھر جي بولی“ (مرتب 1994)،
  • مقالا“ (بين الاقوامی سندھی ادبی کانفرنس کے مقالے مرتب 1988)،
  • نڑ تے ہوئے ند نیاز سیں“ (مرتب 1988)،
  • کٹھمال“ (تنقيدی مضمامین 2003)،

ایوارڈ[ترمیم]

  • بين الا قوامی سندھی ادبی کانفرنس اوارڈ جامع سندھ 1988
  • لاڑ ثقافتی ميلو اوارڈ بدين 1991
  • سچل سرمست اوارڈ خيرپور 1998
  • انٽرنيشنل کانفرنس آن آرکيالوجی اوارڈخيرپور 2003
  • بھارت میں ماڊلز کا ايوارڈ 2005 (قطب مينار دہلي- تاج محل آگرہ، پارليامينار مسجد حيدرآباد دکن اور سنڌي زبان کا پھیلاء جئپور)
  • نئيں زندگی رسالہ اوارڈ 2006
  • بيدل بیدل اوارڈروهڑی 2006
  • انسٹی ٹیوٹ آف بزنيس اِسٹڈيز کراچی اوارڈ 2008
  • سنڌی زبان جی لکھت اور تهذيب کانفرنس اوارڈ حيدرآباد 2009
  • سما دور سيمينار جامع کراچی اوارڈ 2009
  • ڪلهوڙا دور تاریخ اوارڈ 2009
  • روضے دھنی (پیر صبغت اللہ شاہ) اوارڈ حيدرآباد 2010

وفات[ترمیم]

ڈاکٹر عبد الجبار جونیجو 12 جولائی 2011 کو کراچی میں گردوں کی خرابی کی وجہ سے انتقال کر گئے۔[8][9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی: https://id.loc.gov/authorities/n83026992 — ناشر: کتب خانہ کانگریس
  2. وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/1379335/ — ناشر: او سی ایل سی
  3. http://www.bio-bibliography.com/authors/view/3605
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 26 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2020 
  5. http://www.sindhiadabiboard.org/Catalogue/Personalties/Book28/Book_page14.html
  6. https://jang.com.pk/news/511940
  7. Tribune.com.pk (2012-11-28)۔ "SU to grant honourary degrees"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2020 
  8. From the Newspaper (2011-07-12)۔ "Renowned scholar Dr Jabbar Junejo is no more"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2019 
  9. "آرکائیو کاپی"۔ 19 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولا‎ئی 2020