مارٹن بوبر
مارٹن بوبر | |
---|---|
(عبرانی میں: מרטין בובר) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | February 8, 1878 ویانا، آسٹریا-مجارستان |
وفات | جون 13، 1965 یروشلم، اسرائیل |
(عمر 87 سال)
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
مذہب | یہودیت غَیر واضِح مذہب |
رکن | امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ ویانا جامعہ ہومبولت جامعہ زیورخ جامعہ لائپزش |
تعلیمی اسناد | پی ایچ ڈی |
پیشہ | فلسفی، مترجم، ماہر تعلیم، مصنف، محرر ادبی، استاد جامعہ، مترجم بائبل، معلم |
پیشہ ورانہ زبان | عبرانی، جرمن[1] |
ملازمت | گوئٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ، جامعہ عبرانی یروشلم |
اعزازات | |
دستخط | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم ![]() |
مارٹن بوبر (عبرانی: מרטין בובר؛ جرمن: Martin Buber؛ یدیش: מארטין בובער؛ 8 فروری 1878ء – 13 جون 1965ء) ایک آسٹریائی نژاد اسرائیلی یہودی فلسفی تھے۔ وہ اپنے فلسفۂ گفتگو (philosophy of dialogue) نظریۂ وجودیت کی ایک شکل جو میں–تو (I–Thou) اور میں–یہ (I–It) کے تعلق کے درمیان فرق پر مرکوز ہے، کے لیے مشہور ہیں۔ [3] مارٹن بوبر ویانا میں پیدا ہوئے۔ مارٹن بوبر کا تعلق ایک یہودیت پر کاربند خاندان سے تھا، مگر ان کی دلچسپی فلسفہ کے سیکولر مطالعہ میں تھی اسی لیے انہوں نے یہودی رسوم ترک کر دیے۔ سنہ 1902ء میں وہ ہفتہ وار اخبار ڈائی ویلٹ (جو صیہونی تحریک کا مرکزی عضو تھا) کے مدیر بنے، اگرچہ انہوں نے بعد میں صیہونیت کے تنظیمی کام سے ہٹ گئے۔ سنہ 1923ء میں مارٹن بوبر نے وجود پر اپنی مشہور انشا Ich und Du (بعد ازاں انگریزی میں I and Thou کے نام سے ترجمہ ہوا) لکھی اور سنہ 1925ء میں انہوں نے عبرانی بائبل کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔
اُنہیں نوبل انعام برائے ادب کے لیے دس دفعہ نامزد اور نوبل امن انعام کے لیے سات دفعہ نامزد کیا گیا۔[4]
سوانح حیات[ترمیم]
مارٹن (عبرانی نام: מָרְדֳּכַי، مردکائی) بوبر ویانا کے ایک راسخ العقیدہ یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مارٹن بوبر کا نسب سیدھا سولہویں صدی کے ربی میئر کاٹزینیلینبوگن المعروف مہارام پدوا سے جا ملتا ہے، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ آل داؤد سے ہیں۔ کارل مارکس بھی ان کے قابل ذکر رشتہ دار ہیں۔[5] جب وہ تین برس کے تھے تو ان کے والدین کا طلاق ہو گیا اور لیوؤ میں ان کے دادا جان نے ان کی پرورش کی۔[5] ان کے دادا سلیمان بوبر مدراش اور ربیائی ادب کے ایک عالم تھے۔ گھر پر مارٹن بوبر یدِش اور جرمن زبانیں بولتے تھے۔ سنہ 1892ء کو مارٹن بوبر لمبرگ موجودہ لیویو، یوکرین میں اپنے والد کے گھر میں واپس آ گئے۔
سنہ 1898ء میں انہوں نے صیہونی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 1899ء میں جب وہ زیورخ میں پڑھتے تھے تو ان کی ملاقات پولا ونکلر سے ہوئی جو ایک ”بویریائی کسان خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست کاتھولک مصنفہ“[6] تھی۔ بعد ازاں پولا ونکلر کی شادی مارٹن سے ہو گئی اور پولا نے بعد میں یہودیت قبول کر لی۔[7]
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb118944280 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: Bibliothèque nationale de France — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ https://www.friedenspreis-des-deutschen-buchhandels.de/alle-preistraeger-seit-1950/1950-1959/martin-buber
- ↑ "Buber"، Island of freedom.
- ↑ "Nomination Database". www.nobelprize.org. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2017.
- ^ ا ب Rosenstein، Neil (1990)، The Unbroken Chain: Biographical Sketches and Genealogy of Illustrious Jewish Families from the 15th–20th Century، 1, 2 (اشاعت revised۔)، New York: CIS، ISBN 0-9610578-4-X.
- ↑ The Pity of It All: A History of Jews in Germany 1743-1933. P. 238. (2002) آئی ایس بی این 0-8050-5964-4
- ↑ "The Existential Primer". Tameri. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2011.
- 1878ء کی پیدائشیں
- 1965ء کی وفیات
- آسٹریائی اشتراکیت پسند
- آسٹریائی صیہونی
- آسٹریائی فلسفی
- آسٹریائی یہودی
- اخلاقیات کے فلسفی
- اسرائیلی اشتراکیت پسند
- اسرائیلی امن پسند شخصیات
- اسرائیلی فلسفی
- اسرائیلی یہودی
- انیسویں صدی کے فلسفی
- انیسویں صدی کے یہودی الٰہیات دان
- بیسویں صدی کے آسٹریائی مصنفین
- بیسویں صدی کے فلسفی
- بیسویں صدی کے مترجمین
- ثقافتی ناقدین
- حسیدی یہودیت
- سیاسی فلاسفہ
- صیہونی
- لیویو کی شخصیات
- ماہرین اخلاقیات
- ماہرین مابعد الطبیعیات
- معاشرتی فلاسفہ
- معاشرتی ناقدین
- ویانا کے مصنفین
- یروشلم کی شخصیات
- یہودی الٰہیات دان
- یہودی امن پسند شخصیات
- یہودی فلاسفہ
- یہودیت کے فلسفی
- ماہرین علمیات
- انیسویں صدی کے مترجمین
- فلاسفہ عقل
- تاریخ کے فلسفی
- تہذیب کے فلاسفہ
- ماہرین وجودیات
- معاشرتی علوم کے فلسفی
- براعظمی فلسفی
- مذہب کے فلاسفہ