گیسو دراز
میر، شیخ المشائخ، چراغ علی شاہ | |
---|---|
ابو جعفو محمد الاكبر | |
گیسو دراز اول (عربی: دراز كيسة يا دراز كيسو) | |
لال مہارہ (مقبرۂ میران)
| |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 330 ہجری | 981 عیسوی کوفہ عراق |
تاریخ وفات | 437 ہجری | 1045 عیسوی بغداد، عراق |
وجہ وفات | زہر |
اولاد | سید سیف الدین ابو الحسین احمد (بیٹا)
میر سید عبد الرحمن المحدث (بیٹا) ابو یعلی میر سید حمزہ (بیٹا) |
والدین | سيد عبد الرحمن (والد) |
عملی زندگی | |
تحریک | تحریک زید بن علی، شیخِ صوفی سلسلہ خاکساریہ |
درستی - ترمیم |
گیسو دراز اول شیخ المشائخ سید محمد گیسو دراز بن سید عبد الرحمن کوفہ سے طبرستان تشریف لائے[1] سید محمد کو تاریخ افاغنہ و دفاتر انساب میں گیسو دراز (اول) جبکہ عربی میں دراز کیسة يا دراز كيسو کے نام سے مشہور ہیں۔[2][3] اس زمانے میں سادات کرام کو اکثر لمبی زلفوں کے سبب گیسو دراز کی نسبت سے یاد کیا جاتا تھا۔[4]آپ کی اولادوں میں سے بعض نے تارن، شیرانی اور کارلانی (لقمانی) قبائل کی تین عورتوں سے عقد کیا جن سے ان کی اولاد مشوانی، وردگ، ھنی اور اشترانی پھیلے[5] آپ نے مقتدر عباسی کے دور حکومت میں ہجرت فرمائی۔[6] آپ معروف بادشاہ سلطان محمود غزنوی کے خاندانی مرشد تھے۔ آپ سلسلۂ خاکساریہ کے کبیر مشائخ سے ہیں اور اپکا لقب چراغ علی شاہ ہے.[7]
ولادت
[ترمیم]آپ کی ولادت 371 ھجری بمطابق 981 عیسوی میں کوفہ میں ہوئی۔[1]
نام و نسب، اولاد و احفاد
[ترمیم]آپ کا نام سید محمد، [6][8] القابات گیسو دراز اول و چراغ علی شاہ (سلسلۂ خاکساریہ)[9][6][10][8][2] اور شیخ المشائخ[11]، آپ حسنی زیدی سید ہیں، اجداد مدینہ نے کوفہ عراق سے طبرستان ایران و اولاد میں سے بعض شام و گرجستان سے ہوتے ہوئے اوش منتقل ہوئے، آپ عراق سے ایران آئے دوست علی شاہ سے بلوچستان میں خرقہ حاصل کیا آپ کی بقیہ اولاد طبرستان و قزوین کے اطراف میں پھیلی۔[1][12]
بقول قدیم کتب الانساب و مراجع الانساب ہائے عرب کے مطابق نسب نامہ درج ذیل ہے:
سید محمد دراز گیسو بن ابی یعلی حمزہ بن ابو جعفر محمد الاکبر العبرسی دراز گیسو بن عبد الرحمن بن قاسم الفقیہ بن محمد البطحانی بن قاسم الرئيس بن حسن الامیر بن زید الانور بن زید الجواد بن امام حسن السبط المجتبی بن امام علی المرتضی[13][14][15]
آپ کی اولاد میں تین فرزند ابی الحسین سید احمد لقبش سیف الدین جد سادات مشوانی، سید عبد الرحمن المحدث (ان کی اولاد نصیبین، دیلم و کوفہ چلی گئی اور تعداد میں قلیل تھی، سید ابی یعلی حمزہ اور ایک بیٹی فاطمہ ہیں، آپ کی نسل سے افغانستان، تاجکستان و ہند میں سادات وردگ و ھنی ہیں۔ آپ کی احفاد ایران، افغانستان، پاکستان، بھارت، مصر، چین، تاجکستان و بخارہ و ثمر قند عرب ممالکمیں موجود ہے۔ آپ کی کثیر اولاد پشتونوں کے علاقہ جات میں افغان معروف ہیں۔[16][10][1]
آپ افغانوں کے بیچ رہنے والے کئی سادات قبائل کے مورث اعلیٰ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔[16][10][6][1][8]
تربیت و تحریک
[ترمیم]شیخ المشائخ سید محمد گیسو دراز کا تعلق زید بن علی کی تحریک سے تھا۔[1] بعض صوفی روایات کے مطابق آپ سلطان محمود غزنوی کے والد سبکتگین کے مرشد تھے۔ آپ کے اجداد بھی اسی تحریک سے وابستہ رہے۔ اسی سبب سے عباسی خلفاء کا رویہ آپ سے مناسب نہ تھا آپ کے اجداد نے طبرستان پر سو سال حکومت کی۔ آپ سلسلۂ خاکساریہ کے بلند پایہ مشایخ میں سے ایک ہیں، سلسلہ مذکورہ میں آپکو چراغ علی شاہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور آپکو اس سلسلہ میں دوست علی شاہ (شیخ زاہد) سے فیض حاصل ہوا.[17] اس کے بعد آپ بغداد واپس تشریف لے گئے اور بے شماد مریدین پیدا کیے جن میں شاہ عبد اللہ قاف معروف ترین ہیں.[18]
سفر و حضر
[ترمیم]سید محمد گیسو دراز کے والد عبد الرحمن کوفہ سے طبرستان (موجودہ ایران) آئے آپ سلطانی چھوڑ کر سلسلہ خاکساریہ میں دوست علی شاہ (شیخ زاہد) کے تن طالب ہوئے واپس بغداد جا کر عبد اللہ بن علی الاصغر بن جعفر التواب نقوی کی تلمیذ میں رہے.[19]
تاریخی ھوامش
[ترمیم]خراسان و ہند میں سیادت سادات پہلی صدی ہجری کے اواخر میں شروع ہوئی۔ جن میں محمد بن زید الشہید بن امام زین العابدین کی اولاد خراسان اور عبد اللہ الاشتر بن نفس الذکیہ حسنی واردِ ہند ہونے والوں میں سے اول ہیں، ابو جعفر سید محمد الاکبر مشہور بہ گیسو دراز (اول) کی اولادوں میں سے بعض افغانستان اور افغانوں کے بیچ آ کر آباد ہوئے ابی الحسین سید احمد ساکن میشوان ایران کی نسل سے جو سادات ہیں انھیں افغانستان و پاک و ہند میں مشوانی کہا جاتا ہے، سید محمد ثانی معروف بہ گیسو دراز (دوم) بن سید حمزہ بن ابو جعفر سید محمد الاکبر مشہور بہ گیسو دراز کی اولاد سے عبد الستار استر آباد سے آئے آپ کی اولاد اشترانی یا استرانہ کے نام سے معروف ہے زید بن حمزہ بن حمزہ کی اولاد میں سے عباس وردگ نامی صوبہ میں رہے اولاد وردگ سیدان کہلائی نیز محمد بن حمزہ بن حمزہ بن محمد کی اولاد ھنی کہلائی۔[1]
افغانی تاریخ میں قدیم کتاب خواجہ نعمت اللہ ہروی نورزئی کی[2] تاریخ خان جہانی مخزن افغانی ہے جس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ افغانوں کے شجرہ ہائے نسب بھی موجود ہیں۔ خواجہ نعمت اللہ ہروی نے آپ کی اولادوں کے قبائل کا ذکر کیا.[1] خواجہ نعمت اللہ ہروی سادات اور کارلانی قبائل کی تاریخ سے زیادہ واقف نہ تھے تاہم انھوں نے آپ کا اور آپ کی اولادوں کا ذکر کیا البتہ کافی اخبارات بھی شامل کیے۔[1] نعمت اللہ ہروی نے مغولوں کے فتنے کا تذکرہ کیا جس کا بعد والے محققین کو مغالطہ ہوا اور انھوں نے آپ کے اور بندہ نواز گیسو دراز کے حالات کو کسی حد تک گڈ مڈ کر دیا.[1] آپ کی اولاد و احفاد افغانوں کے علاقہ جات اور زبانوں میں افغانستان، ضلع ہزارہ، خیبر پختونخوا، میں پشتو زبان، بلوچستان میں بلوچی و بروہی زبان، ایران، غزنی اور افغانستان کے بعض علاقہ جات میں فارسی اور ہندوستان میں اردو و پشتو زبان، سندھ میں سندھی اور پنجاب، پاکستان کے بعض علاقہ جات میں پنجابی زبان بولتے ہیں۔[1] مزید شیر محمد خان گنڈاپور نے اپنی کتاب تواریخ خورشید جہاں میں آپ کے حالات کو بندہ نواز المتوفی 825 ھجری سے گڈ مڈ کر دیا جو لقب ایک ہونے کی بنا پر ہونے والا مغالطہ ہے۔[20] اقتصادی طور پر آپ کی اولاد کے قبائل کو افغانی قبائل کیساتھ ضم کیا گیا سور انھیں رہنے کے لیے تحفے میں زمین سیری (افغانی زمین میں سادات کے زمینوں کو سیری کہا جاتا ہے جن میں سادات کے ہمراہ غیر افغان قبائل بھی رہتے ہیں جو سادات نے ساتھ رکھے)[21] آپ کی اولاد کے قبائل کے علاوہ دیگر کئی سادات قبائل کو بھی اقتصادی طور پر افغان قبیلوں کے ساتھ ضم کیا گیا۔[20] محقق سید محمد باقر مصباح زادہ نے اسے سادات و دیگر اقوام ہائے غیر پشتون تبار کی آذادی سلب کرنے سے تعبیر کیا ہے[22][23]
سید محمد کا تعلق زید بن علی کے انقلاب سے تھا[1] عرب سلاطین سادات کو سیادت پر مجبور کرنے کی سب سے بڑی وجہ تسلیم کیے جاتے ہیں، سادات کے ساتھ سلاطین فارس کا رویہ بہتر تھا مگر سید آدم بنوری کے مجدد الف ثانی کے ساتھ دین الٰہی جو اکبر مغل بادشاہ نے گڑھا تھا کے خلاف قیام کیا تو مغل سلاطین سید آدم اور اس کے قبیلے کے مخالف ہو گئے۔ شاہجہان کے دور میں عبدالحکیم سیالکوٹی نے شاہ جہان کو سید آدم بنوری اور اس کے قبیلے کے خلاف اکسایا جس کی بنا پر شاہ جہان نے سید آدم بنوری کو سفر حجاز کے لیے احکام صادر کر دیے۔[24]
وفات و تدفین
[ترمیم]شیخ المشائخ سید محمد گیسو دراز اول کی وفات 437 ھجری بمطابق 1045 عیسوی میں ہوئی۔[1][6] آپ کی قبر بغداد کاظمین مقبرہ قریش میں کہیں واقع ہے.[1] صوفی تذکرہ نگار سید عبد الحلیم اثر افغانی نے آپ کا مزار کوہ سلیمان میں ژوب کے قریب بتایا ہے[25] بعض کے مطابق آپ کا مزار ڈیرہ اسماعیل خان مقابر میران لال میرہ میں واقع ہے جس کی تعمیر غزنوی حکام نے کی ہے.[26]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر الفخري في انساب الطالبين، اسماعیل الازورقاني. المتوفي ٦١٤ هجري
- ^ ا ب پ خواجہ نعمت اللہ ہروی متوفی 1022 ھجری
- ↑ عل العمري ٥٩٠ هجري۔ المجدي غي انساب الطالبين
- ↑ لطائف اشرفی حصہ اول، سید اشرف جہانگیر سمنانی، اشرفی انٹر پرائزر کراچی پاکستان
- ↑ تاريخ خان جهانى مخزن افغاني، نعمت الله هروى، المتوفي ١٠٢٢
- ^ ا ب پ ت ٹ سید عمر خطاب شاہ مشوانی، خطاب مشوانی، ص223
- ↑ مبانى سلوك درسلسلة خاكسارجلالى وتصوف، حسين ّ منجمى
- ^ ا ب پ خواجہ عطاء اللہ کرمانی، روضہ الاحباب
- ↑ آغا عبد الحلیم اثر افغانی، روحانی رابطہ او روحانی تڑون، ص390
- ^ ا ب پ تاریخ مرصع، افضل خان خٹک
- ↑ قطب الاقطاب شیخ سید آدم بنوری، مقدمہ، نکات الاسرار، ص3
- ↑ مبانی سلوک در سلسلہ خاکساریہ، حسین منجھانی گیلانی
- ↑ نسابة جمال الدين بن احمد ابن عنبة الحسنى (821 ھجری)۔ عمدة الطالب في انساب ال ابي طالب۔ بيروت، لبنان
- ↑ امام فخرالدين محمد الرازي۔ الشجرة المباركة في انساب الطالبية
- ↑ الفخري في أنساب الطالبيين | مجلد 1 | صفحة 31 | بيت أبي عبد الله محمد بن عبيد الله الأمير | الفصل الث (بزبان عربی)
- ^ ا ب قطب الاقطاب شیخ سید آدم بنوری، نکات الاسرار
- ↑ مبانى سلوك درسلسلة خاكسارجلالى وتصوف، حسين ّ منجمى
- ↑ مبانی سلوک در سلسلہ خاکساریہ، حسین منجھانی گیلانی
- ↑ مبانی سلوک در سلسلہ خاکساریہ قلندریہ، حسین منجھانی گیلانی
- ^ ا ب میر سید ثاقب عماد الحسینی، باب ابحاث و تشریح انساب اولاد شیخ المشائخ سید محمد، تحقیقی حقائق اور رد ضعیف درباری تاریخ۔
- ↑ حافظ رحمت خان، تاریخ رحمت خانی پختنی قبیلی وپیجنئی، ڈاکٹر عبدالحیی حبیبی
- ↑ وردک، برگ دیگری از تاریخ تحریف شدۀ اقوام در افغانستان+عکس، سید محمد باقر مصباح زادہ
- ↑ عرب ہائے پشتون تبار از نسلِ امامانِ شیعہ، سید محمد باقر مصباح زادہ
- ↑ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، انفاس العارفین، ص13
- ↑ روحانی رابطہ و روحانی تڑون، سید عبد الحلیم اثر افغانی
- ↑ "Syed Muhammad Gesudaraz I"۔ 19 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ