"معاہدہ عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم ماخذ 2017ء)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 1: سطر 1:
''' معاہدہ ِعمر  '''  (جو   '''میثاقِ عمر''', ''' پیمانِ عمر''' یا '''قوانینِ عمر   '''; {{Lang-ar|شروط عمر}} یا {{Lang|ar|عهد عمر}} یا {{Lang|ar|عقد عمر}}  کے طور پر بھی جانا جاتا ہے   ) مسلمانوں اور [[سوریہ|شام]], [[بین النہرین|میسوپوٹامیا]]{{Sfn|Roggema|2009}} یا [[یروشلم]]{{Sfn|Meri|2005}} کے عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس نے  بعد میں [[فقہ|اسلامی فقہ]]  میں مذہبی حیثیت حاصل کی ۔  ساخت اور شِقوں کے  حوالے سے  معاہدے  کے کئی ترجمے  اور  تشاریح   ہیں .{{Sfn|Abu-Munshar|2007}} جبکہ معاہدہ روایتی طور پر [[خلفائے راشدین|الراشد]] [[خلافت|خلیفہ]] [[عمر بن خطاب|عمر ابن خطاب]],{{Sfn|Thomas|Roggema|2009}} سے منسوب ہے ، جبکہ کچھ فقہا اور مستشرقین  نے اس انتساب  پر  شک بھی  کیا ہے  {{Sfn|Abu-Munshar|2007}} اور اسے  ٩ صدی  کے  [[اجتہاد|مجتہدین]]  یا [[خلافت امویہ|اموی]] خلیفہ[[عمر بن عبدالعزیز| عمر الثانی]] کیساتھ منسوب کیا ہے . اس معاہدے  کو   ایلیا  کے لوگوں کیجانب  حفاظت کی ضمانتِ عمر    (یعنی اردو  : <font face="Jameel Noori Kasheeda, Jameel Noori Nastaleeq, Amiri, Georgia, sans-serif"> عہدعمر   </font>, {{Lang-ar|العهدة العمرية}})  کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے .
''' معاہدہ ِعمر  '''  (جو   '''میثاقِ عمر''', ''' پیمانِ عمر''' یا '''قوانینِ عمر   '''; {{Lang-ar|شروط عمر}} یا {{Lang|ar|عهد عمر}} یا {{Lang|ar|عقد عمر}}  کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) مسلمانوں اور [[سوریہ|شام]], [[بین النہرین|میسوپوٹامیا]]{{Sfn|Roggema|2009}} یا [[یروشلم]]{{Sfn|Meri|2005}} کے عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس نے  بعد میں [[فقہ|اسلامی فقہ]]  میں مذہبی حیثیت حاصل کی ۔  ساخت اور شِقوں کے  حوالے سے  معاہدے  کے کئی ترجمے  اور  تشاریح   ہیں .{{Sfn|Abu-Munshar|2007}} جبکہ معاہدہ روایتی طور پر [[خلفائے راشدین|الراشد]] [[خلافت|خلیفہ]] [[عمر بن خطاب|عمر ابن خطاب]],{{Sfn|Thomas|Roggema|2009}} سے منسوب ہے ، جبکہ کچھ فقہا اور مستشرقین  نے اس انتساب  پر  شک بھی  کیا ہے  {{Sfn|Abu-Munshar|2007}} اور اسے  ٩ صدی  کے  [[اجتہاد|مجتہدین]]  یا [[خلافت امویہ|اموی]] خلیفہ[[عمر بن عبدالعزیز| عمر الثانی]] کیساتھ منسوب کیا ہے . اس معاہدے  کو   ایلیا  کے لوگوں کیجانب  حفاظت کی ضمانتِ عمر    (یعنی اردو  : <font face="Jameel Noori Kasheeda, Jameel Noori Nastaleeq, Amiri, Georgia, sans-serif"> عہدعمر   </font>, {{Lang-ar|العهدة العمرية}})  کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے .


یہ معاہدہ عام طور پر غیر مسلموں - [[ذمی|ذمیوں]]  کے حقوق اور پابندیوں پر مشتمل ہے    پابند  کرنے سے  غیر مسلموں کے  افراد ، خاندان، مال اور املاک کے  امان   کی ذمہ داری لی جاتی ہے. دیگر حقوق اور شرائط و تصریحات  بھی لاگو ہو سکتی ہیں. [[ابن تیمیہ]]  کے مطابق جنہوں نے خود بھی اس معاہدہ کو فقہی اعتبار سے صحیح گردانا ہے ، [[ذمی]]<nowiki/>کو   معاہدہ ِعمر سے  خود   کو آزاد کرنے کا  حق حاصل ہے اور مسلمانوں کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے "اگر وہ مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی ہو اور دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑے ."<ref name="Ipgrave">{{Cite book|publisher=Georgetown University Press|isbn=1589017226|last=Ipgrave|first=Michael|title=Justice and Rights: Christian and Muslim Perspectives|year=2009|page=58}}</ref>
یہ معاہدہ عام طور پر غیر مسلموں - [[ذمی|ذمیوں]]  کے حقوق اور پابندیوں پر مشتمل ہے    پابند  کرنے سے  غیر مسلموں کے  افراد ، خاندان، مال اور املاک کے  امان   کی ذمہ داری لی جاتی ہے. دیگر حقوق اور شرائط و تصریحات  بھی لاگو ہو سکتی ہیں. [[ابن تیمیہ]]  کے مطابق جنہوں نے خود بھی اس معاہدہ کو فقہی اعتبار سے صحیح گردانا ہے ، [[ذمی]]<nowiki/>کو   معاہدہ ِعمر سے  خود   کو آزاد کرنے کا  حق حاصل ہے اور مسلمانوں کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے "اگر وہ مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی ہو اور دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑے ."<ref name="Ipgrave">{{Cite book|publisher=Georgetown University Press|isbn=1589017226|last=Ipgrave|first=Michael|title=Justice and Rights: Christian and Muslim Perspectives|year=2009|page=58}}</ref>

نسخہ بمطابق 21:28، 20 فروری 2018ء

 معاہدہ ِعمر    (جو   میثاقِ عمر,  پیمانِ عمر یا قوانینِ عمر   ; عربی: شروط عمر یا عهد عمر یا عقد عمر  کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) مسلمانوں اور شام, میسوپوٹامیا[1] یا یروشلم[2] کے عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس نے  بعد میں اسلامی فقہ  میں مذہبی حیثیت حاصل کی ۔  ساخت اور شِقوں کے  حوالے سے  معاہدے  کے کئی ترجمے  اور  تشاریح   ہیں .[3] جبکہ معاہدہ روایتی طور پر الراشد خلیفہ عمر ابن خطاب,[4] سے منسوب ہے ، جبکہ کچھ فقہا اور مستشرقین  نے اس انتساب  پر  شک بھی  کیا ہے  [3] اور اسے  ٩ صدی  کے  مجتہدین  یا اموی خلیفہ عمر الثانی کیساتھ منسوب کیا ہے . اس معاہدے  کو   ایلیا  کے لوگوں کیجانب  حفاظت کی ضمانتِ عمر    (یعنی اردو  :  عہدعمر   , عربی: العهدة العمرية)  کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے .

یہ معاہدہ عام طور پر غیر مسلموں - ذمیوں  کے حقوق اور پابندیوں پر مشتمل ہے    پابند  کرنے سے  غیر مسلموں کے  افراد ، خاندان، مال اور املاک کے  امان   کی ذمہ داری لی جاتی ہے. دیگر حقوق اور شرائط و تصریحات  بھی لاگو ہو سکتی ہیں. ابن تیمیہ  کے مطابق جنہوں نے خود بھی اس معاہدہ کو فقہی اعتبار سے صحیح گردانا ہے ، ذمیکو   معاہدہ ِعمر سے  خود   کو آزاد کرنے کا  حق حاصل ہے اور مسلمانوں کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے "اگر وہ مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی ہو اور دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑے ."[5]

بنیاد اور استناد

 ابو منشر کے مطابق ، اس دستاویز کی تاریخی  بنیاد   مسلمان فاتحین اور    الجزیرہ  یا دمشق  کے عیسائیوں کے درمیان ہوئے ایک معاہدے پر ہو سکتی ہے جس بعد میں   ذمیوں  کیلئے دوسری جگہوں پر بھی توسیع دی گئی  .[1] وہ مزید لکھتے ہیں کہ ، نام نہاد 'معاہدہ عمر' میں مقرر کردہ   شرائط   خلافت  کے نظریہ  سوچ اور  طرز فکر کیلئے نامناسب ہیں ، اس دستاویز کی  (متنی) خامیاں اس تنازعہ کی تائید کرتی ہیں کہ اس دستاویز کا موجد عمر نہیں تھا ."[6]  بعض مغربی مورخین کی رائے ہے کہ یہ دستاویز   ضمانت  حضرت عمر  پر  مبنی تھا ، جو کہ  عمر ابن خطاب اور یروشلم کے  پیر مہتمم (مئیر)   سوفرونیئس  کے درمیان ایک معاہدہ تھا اور      فتح القدس کے  بعد   خلافت راشدہ  کی جانب سے ۶۳۷ء طے ہوا ,[2] جبکہ دوسروں کا اعتقاد ہے کہ یہ دستاویز یا تو   ء۹ صدی کے  مجتہدین یا  پھ ر اموی  خلیفہ دوم عمر  بن عبد العزیز کے دور کی تصنیف تھی , جس میں بعد میں دیگر دفعات شامل کی گئیں . دوسرے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ دستاویز ہو سکتا ہے شروع میں فوری طور پر فاتحانہ ماحول میں لکھا گیا ہو اور بعد کے مورخین نے اسے تلوین دیا ہو .[1]

مغربی دانشمندوں کی اس معاہدے  کے استناد کے بارے میں  رائے مختلف رہی ہے . انور م. ایمن کے مطابق معاہدے کی سند اور  صداقت کے حوالے سے "ثانوی ادب میں  شدید بحث رہی ہے" ،مغربی دانشوروں کا اختلاف رہا کہ آیا یہ معاہدہ حضرت عمر  کے دورانِ  حکومت وقوع پذیر ہوا یا  یہ  تصنیف بعد از عمر ان سے جوڑ دیا گیا - جنہوں نے مشہور ابتدائی توسیع کی قیادت کی اور ذمیوں کیلئے بہترین و منظم معاہدہ لاگو کیا " ا.س.ٹریٹن ایک ایسے دانشور ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ جعلسازی پر مبنی ہے" کیونکہ بعد کے مسلمان فاتحین نے اسکی شرائط کو غیر مسلم رعایا کیساتھ اپنے بعد کے معاہدوں پر لاگو نہیں کیا اگر معاہدہ اس وقت موجود ہوتا تو وہ ضرور اپنے معاہدوں میں اسکی شرائط شامل کرتے. دوسری جانب ایک اور دانشور دانیال ک. ڈینیٹ کا خیال ہے کہ "یہ معاہدہ اس وقت کے طے پائے گئے باقی معاہدہ سے مختلف نہ تھا اور یہ معقول طور پر وہی معاہدہ ہے جو سرگزشت ِ الطبری میں محفوظ ہے اور اصل معاہدے کا ایک مستند نسخہ ہے." مؤرخ ابراہیم  پ.  بلاخ لکھتے ہیں کہ "عمر ایک روادار حکمران تھا اور امکان نہیں کہ اس نے غیر مسلموں پر ذلت آمیز شرائط عائد کئے ہوں یا ان کی مذہبی اور سماجی آزادی کی خلاف ورزی کی ہو  ۔ اس کا نام غلط طور پر موجودہ  امتناعی معاہدہ عمر کیساتھ منسلک  کردیا  گیا  ہے ."[7]

 تھامس ڈبلیو آرنلڈ کے مطابق، یہ معاہدہ حضرت عمر  کی  غیر مذہب  رعایا  کیساتھ رحمدلی اور انصاف  کے ساتھ "مطابقت  اور  ہم آہنگی"رکھتا ہے، [8][9]

Notes

  1. ^ ا ب پ Roggema 2009.
  2. ^ ا ب Meri 2005.
  3. ^ ا ب Abu-Munshar 2007.
  4. Thomas & Roggema 2009.
  5. Michael Ipgrave (2009)۔ Justice and Rights: Christian and Muslim Perspectives۔ Georgetown University Press۔ صفحہ: 58۔ ISBN 1589017226 
  6. Maher Abu-Munshar, Islamic Jerusalem And Its Christians: A History of Tolerance And Tensions, pp. 79-80.
  7. Abraham P. Bloch, One a Day: An Anthology of Jewish Historical Anniversaries for Every Day of the Year, p. 314. آئی ایس بی این 0881251089.
  8. Thomas Walker Arnold (1913)۔ Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith (PDF)۔ Constable & Robinson Ltd۔ صفحہ: 73۔ It is in harmony with the same spirit of kindly consideration for his subjects of another faith, that 'Umar is recorded to have allowed an allowance of money and food to be made to some christian lepers, apparently out of the public funds.;  (https://dl.wdl.org/17553/service/17553.pdf])
  9. Thomas Walker Arnold (1913)۔ Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith۔ Constable & Robinson Ltd۔ صفحہ: 57۔ A later generation attributed to 'Umar a number of restrictive regulations which hampered the Christians in the free exercise of their religion, but De Goeje and Caetani have proved without doubt that they are the invention of a later age;  (online)

References