مندرجات کا رخ کریں

ناصر عباس نیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ناصر عباس نیر
 

معلومات شخصیت
پیدائش 25 اپریل 1965ء (59 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جھنگ ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ بہاؤ الدین زکریا
ہائڈلبرگ یونیورسٹی
جامعہ پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ادبی نقاد ،  افسانہ نگار ،  پروفیسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل مابعد نوآبادیاتی ادب ،  مابعد جدید ادب ،  سفرنامہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت اورینٹل کالج لاہور ،  اردو سائنس بورڈ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ڈاکٹر ناصر عباس نیر (پیدائش: 25 اپریل، 1965ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کے معروف نقاد، افسانہ نگار اورپنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج لاہور میں اردو ادب کے استاد ہیں۔ اس وقت وہ اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔[1]

حالات زندگی و تعلیم

[ترمیم]

ڈاکٹر ناصر عباس نیر 25 اپریل، 1965ء کو جھنگ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم سرگودھاسے حاصل کی۔ 1987ء میں بی اے 1989ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگری جامعہ پنجاب سے حاصل کی۔ 2003ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو تنقید میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ایم فل کیا اور پھر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں 2001ء میں انھیں ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کی طرف سے اردو ادب کا نوآبادیاتی دور کے موضوع پر پوسٹ ڈاکٹورل اسکالرشپ ملی۔[2]

ادبی خدمات

[ترمیم]

جرمنی کے برسوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کو نو آبادیاتی عہد کی سیاسی، سماجی اور معاشی تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا جس نے اُن کے وژن کو تبدیل کر دیا اور وہ بالکل نئے زاویے سے اردو ادب کے تخلیقی عمل کی ترجیحات کو دیکھنے لگے۔ وہ کئی علوم کے تناظر میں اُس عہد کی ادبی سرگرمی اور تخلیقی عمل کو دیکھتے ہیں جس کے سبب ان کے ہاں ایک الگ تنقیدی جہت آ جاتی ہے۔ انھوں نے تنقید کی ایک نئی زبان اردو ادب میں متعارف کروائی ہے جس میں نئی اصطلاحات کے سبب پڑھنے والوں کو شروع میں دقت ہوتی ہے مگر جب وہ ایک بار ان سے شناسا ہو جاتے ہیں وہ ان تنقیدی مضامین کو زیادہ گہرائی میں جا کر سمجھ سکتے ہیں۔ ناصر عباس نیر نے اردو ادب کے اس زمانے کو کہ جو نوآبادیات کا عہد تھا، سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخی سطح پر تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ان تمام اصناف میں کی جانے والی تخلیقات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کے بارے میں ہمارے نقاد اجتناب برتتے رہے ہیں۔ تنقید کا یہ انداز اگر چہ مغرب سے مستعار لیا گیا ہے مگر اس کی وجہ سے ہمارے ہاں کے فکشن نگاروں اور شاعروں کے تخلیقی کام کی نئی جہات ہمارے سامنے آئی ہیں۔[3]

تصانیف

[ترمیم]
  • دن ڈھل چکا تھا (1993ء)
  • چراغِ آفریدم (2000ء)
  • جدیدیت سے پس جدیدیت تک (تنقید، 2000ء)
  • نظیر صدیقی: شخصیت اور فن (تنقید، 2003ء)
  • جدید اور ما بعد جدید تنقید (تنقید، 2004ء)
  • ساختیات : ایک تعارف (تنقید، 2006ء)
  • مابعد جدیدیت: نظری مباحث (تنقید، 2007ء)
  • مجید امجد: شخصیت اور فن (تنقید، 2008ء)
  • لسانیات اور تنقید (تنقید، 2009ء)
  • مابعد جدیدیت: اطلاقی جہات (تنقید، 2010ء)
  • آزاد صدی مقالات (بہ اشتراک ڈاکٹر تحسین فراقی، 2010ء)
  • متن، سیاق اور تناظر (تنقید، 2013ء)
  • مابعد نوآبادیات اردو کے تناظر میں (تنقید، 2013ء)
  • مجید امجد حیات: حیات، شعریات اور جمالیات (تنقید، 2014ء)
  • ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری (تنقید، 2014ء)
  • عالمگیریت اور اردو (تنقیدی مضامین، 2015ء)
  • اردو ادب کی تشکیلِ جدید (تنقید، 2016ء)
  • خاک کی مہک (افسانے، 2016ء)
  • اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب نہیں (تنقیدی مضامین، 2017ء)
  • ہائیڈل برگ کی ڈائری (سفرنامہ، 2017ء)
  • فرشتہ نہیں آیا (افسانے، 2017ء)
  • نظم کیسے پڑھیں (2018ء)
  • راکھ سے لکھی گئی کتاب (2018ء)
  • Coloniality, Modernity and Urdu Literature (2020)
  • ایک زمانہ ختم ہوا ہے (2020ء)
  • جدیدیت اور نو آبادیات (2021ء)
  • یہ قصہ کیا ہے معنی کا (2022ء)
  • نئے نقاد کے نام خطوط(2023ء)

ناقدین کی رائے

[ترمیم]

ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی میں جنوب ایشیائی زبانوں کے سربراہ ڈاکٹر ہنس ہارڈر، ناصر عباس نیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

دور جدید کے بعد کی علمی و ادبی مباحث کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کو عالمی سطح پر اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ معانی کی کثرت کے موضوع پر ان کا مقابلہ ادبی ابلاغ سے متعلق انتہائی بنیادی نکات کا احاطہ کرتا ہے اگر علم و ادب کو زندہ اور نشو و نما کا حامل بنانا مقصود ہے تو اس میں تنقید کا راستہ سیدھا اور ملفوف ہونے کی بجائے آزاد ہونا چاہیے۔ ناصر عباس نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں بعد از نو آبادیاتی تصور کی اعلیٰ رفعتوں سے روشناس بھی کروایا ہے اور اس کے ساتھ ہی جب وہ اردو شاعری کے دامن سے ناتا جوڑتے ہیں تو اس سے ہمیں اپنے ماحول اور گھر کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ مجید امجد کے کلام کے حوالے سے ان کی تشریح بلاشبہ ہمارے لیے نئے دَر وا کر دیتی ہے، ادبی متن پر تنقید کے ضمن میں ایک محقق کا یہی فریضہ ہے کہ وہ کثرتِ معانی کا بخوبی ادراک رکھتا ہو۔ اس طرح ایک غیر جانبدارانہ تنقید کا ماحول قارئین کی نئی نسل کے اذہان میں کلاسیکل مواد سے متعلق نئی سوچ اور مفہوم کو اجاگر کرتا ہے، اپنی اس علمی و ادبی کائوش کے باوصف ناصر عباس کو اردو ادب میں تنقید کی صنف میں قارئین میں ہمیشہ مقبولیت حاصل رہے گی[4]۔

بھارت کے ممتاز اردو نقاد پروفیسر شمیم حنفی، ناصر عباس نیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

ہمارے معاصر تخلیقی ادب کی طرح معاصر تنقید بھی اس وقت بہت گہرے اور ناگزیر علمی اور اخلاقی سوالات کے گھیرے میں ہے۔ اسی طرح ادب کی اخلاقیات سے وابستہ سوالوں پر بھی لوگوں کی توجہ بہت کم ہے۔ فروعات اور لاحاصل مباحث نے ہر طرف زور باندھ رکھا ہے مگر اس دھندلی اور مایوس کن فضا میں جہاں تہاں روشنی کے کچھ نقطے بھی ہیں۔ ناصر عباس نیر کی علمی جستجو اور ان کی تنقید بھی ایسے ہی نقطوں کے گرد ہمیں اپنے تحرک اور وجود کا احساس دلاتی ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تنقید و تجزیے کی ہر کوشش کا آغاز کسی نہ کسی اہم اور سنجیدہ تلاش سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام، بالعموم کسی نہ کسی قیمتی دریافت پر۔ یہ امتیاز بس اِکا دُکا نئے اور پرانے تنقید نگاروں کے حصے میں آیا ہے۔ اس لیے ناصر عباس نیر کی علمی اور تنقیدی تحریریں ہمارے اپنے فکری اور تخلیقی رویوں پر کسی نہ کسی حد تک لازماً اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ان کا ایک اور نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ ایک سے انہماک اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ہماری کلاسیکی، جدید اور مابعد جدید (اگر اردو میں واقعی ایسا کوئی طبع زاد قابل ذکر کارنامہ وجود میں آیا ہے) ادبی قدروں کا جائزہ لیتے ہیں وہ امداد امام اثر، حالی اور شبلی نعمانی کا محاسبہ کر رہے ہوں یا ٹی۔ ایس ایلیٹ اور یہاں تک کہ رچرڈس کی تفہیم و تعبیر کے عمل سے گزر رہے ہوں۔ ان کا ذہن حیران کن حد تک یکسو اور چوکنا رہتا ہے۔ ان کی تحریریں نئے اور پرانے سنجیدہ حلقوں میں یکساں شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ بہت کم مدت میں انہوں نے ہر حلقے میں اپنا اعتبار قائم کر لیا ہے اور ان کی ہر تحریر قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے[4]۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. سائنسی علوم اور سائنس داں کی پزیرائی، ادارتی صفحہ، روزنامہ جنگ لاہور، 14 دسمبر 2016ء
  2. "سی وی، ناصر عباس، پنجاب یونیورسٹی لاہور" (PDF)۔ 03 جون 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2017 
  3. ناصر عباس نیر کی نئی کتاب 'اُردو کی تشکیلِ جدید'، ڈاکٹر غافر شہزاد، ایک روزن، 17 جون 2016ء
  4. ^ ا ب متن سیاق اور تناظر (کالم)، خالد بہزاد ہاشمی، روزنامہ نوائے وقت لاہور، 20 نومبر 2013ء