پادشاہ بیگم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پادشاہ بیگم
سلطنت مغلیہ
بادشاہ بیگم ملکہ الزمانی کی تخت نشینی کی تصویر۔(1721ء)۔ وہ سلطنت مغلیہ کی آخری بااقتدار پادشاہ بیگم تھیں۔
خطابپادشاہ بیگم
رہائشقلعہ آگرہ، آگرہ
لال قلعہ، دہلی
تقرر کُننِدہظہیر الدین محمد بابر
مغل شہنشاہ سلطنت مغلیہ، ہندوستان
تشکیل9 رجب 932ھ/ 21 اپریل 1526ء
اولین حاملماہم بیگم
(اپریل 1526ء- مارچ 1534ء)
ختم کر دیا14 ستمبر 1857ء

پادشاہ بیگم ایک عالیشان شاہی خطاب ہے جو حکمران شاہی خاندان کی خاتونِ اول یا سلطنت مغلیہ کی ملکہ کو عطاء کیا جاتا تھا۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں یہ خطاب ملکہ ہندوستان کو دیا جاتا تھا تاکہ مغل حرم اور زنانہ میں اُس کی حیثیت سب پر نمایاں اور واضح ہو جائے۔ مغل تاریخ دستاویزات اور ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً یہ خطاب مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ماہم بیگم کو تفویض کیا تھا۔ اِس خطاب کو شاذونادر ملکہ ہمسر کے برابر بھی سمجھا جاتا ہے۔

پادشاہ بیگم کا مشتق و مخرج[ترمیم]

پادشاہ یا بادشاہ حکمران سلطنت کے لیے عالیشان و شاندار شاہی خطاب ہے۔ پادشاہ لفظ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہے یعنی: پاد اور شاہ، پاد کے معنی حاکم یا حکمران یا آقا اور شاہ فارسی زبان میں حکمران کے لیے مستعمل تھا۔ عہدِ اکبری کا مؤرخ ابو الفضل ابن مبارک اکبر نامہ میں لفظ پادشاہ کے متعلق لکھتا ہے کہ:

لفظ پادشاہ کے دو حصے ہیں، پاد یعنی استحکام و تصرف اور شاہ یعنی حاکم و آقا۔ گویا پادشاہ ایسے حکمران کو کہا جاتا ہے جسے کوئی بھی معزول نہ کرسکے، جو سب کچھ ہو، مختارِ مطلق، و مالک وغیرہ۔[1]

مختلف شاہی خاندانوں نے شاہ یا بادشاہ کے خطاب کو رائج رکھا۔ قدیم ایران میں شاہِ شاہان یا شہنشاہ کی حیثیت سے رائج تھا۔ ہخامنشی سلطنت سے قبل مسیحی شاہی خاندانوں میں بھی شاہ کا خطاب رائج رہا ہے۔ لفظ پادشاہ جب عربی زبان میں معرب ہوا تو بادشاہ بن گیا جسے سلطنت مغلیہ کے حکمرانوں نے اِختیار کیا۔ سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر پہلے حکمران تھے جنھوں نے بادشاہ بطور خطاب اختیار کیا جبکہ بعد کے مغل حکمرانوں نے شہنشاہ کا خطاب اختیار کیا۔ عثمانی سلاطین نے بادشاہ یا پادشاہ کی بجائے پاشا کا خطاب اپنایا جو بادشاہ کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔

بیگم اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اُس عورت کے لیے جاتے ہیں جو حکمرانِ سلطنت کی زوجہ ہو اور اُسے سلطنت کے انتظامات و معاملات میں اثر و رسوخ کا درجہ حاصل ہو۔ وسطی ایشیا میں متعدد خاندان ہائے سلطنت کی حکمرانوں کی ازواج کو بیگم کے خطاب سے سرفراز کیا جاتا رہا ہے۔ بعض اوقات ریاست کے صوبے دار کو بیگ کا خطاب اور اُس کی زوجہ کو بیگم کا خطاب دیا جاتا تھا۔ متعدد تاریخی مقامات پر کسی ریاست کے صوبے دار یا والی کی بیٹی کو بھی بیگم کا خطاب دے دیا جاتا تھا، یہ شرط اُس وقت لازم آتی تھی جبکہ صوبے دار کی زوجہ کا انتقال ہو چکا ہو۔

تاریخی طور پر مستعمل[ترمیم]

سلطنت مغلیہ میں پادشاہ بیگم کا عہدہ سلطنت کے معزز ترین عہدوں میں شمار ہوتا ہے۔ اکثر اوقات شہنشاہ کی زوجہ یعنی خاتونِ اول ملکہ کو پادشاہ بیگم کا خطاب دیا جاتا تھا اور کبھی کبھار مغل شہنشاہ کی بیٹیوں کو بھی بیگم کا خطاب دیا جاتا تھا۔[2] مغل تاریخ و دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً یہ خطاب مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ملکہ ماہم بیگم کو دیا تھا جن کی وفات 28 مارچ 1534ء کو ہوئی۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے ملکہ صالحہ بانو بیگم کو یہ خطابِ شاہی تفویض کیا۔[3] 1620ء میں صالحہ بانو بیگم کی وفات کے بعد یہ خطابِ شاہی ملکہ نورجہاں کو تفویض کیا گیا جو نومبر 1627ء تک اِس عہدہ جلیلہ پر فائز رہیں۔ملکہ نورجہاں کا خطابِ شاہی پادشاہ بیگم شاہی فرامین اور مہر پر پہلی بار ثبت ہوا۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی تمام بیٹیوں کے ناموں کے ساتھ بیگم کا شاہی خطاب منسلک تھا۔

مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے یہ خطاب ارجمند بانو بیگم المعروف ممتاز محل کو تفویض کیا۔ بیگم کا خطابِ شاہی دو مغل شاہزادیوں خصوصاً شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم اور اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زینت النساء بیگم کو بھی تفویض کیا گیا تھا جو تا عمر اُن کے ناموں کے ساتھ منسلک رہا۔[4] اکثر مقامات پر بیگم کا خطاب بادشاہ یا شہنشاہ کی بہن کو بھی تفویض کیا جاتا رہا جیسا کہ خانزادہ بیگم جو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی بہن تھیں، اُن کا انتقال ستمبر 1545ء میں قندھار میں ہوا۔[5][6] آخری بااِقتدار پادشاہ بیگم بادشاہ بیگم ملکہ الزمانی تھیں جو مغل شہنشاہ محمد شاہ کی زوجہ اور مغل ملکہ تھیں، اُن کا انتقال 14 دسمبر 1789ء کو دہلی میں ہوا۔

بیگمات ریاست بھوپال[ترمیم]

ہندوستان میں ریاست بھوپال کی خواتین حکمرانوں نے بھی بیگم کا شاہی خطاب اختیار کیا، لیکن اِن کے خطاب شاہی بیگم کے ساتھ شاہ کا لفظ منسلک نہیں تھا کیونکہ دراصل یہ خواتین خود حکمران تھیں۔ بیگمات ریاست بھوپال یہ ہیں:

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت: صفحہ 209۔ مطبوعہ لاہور۔
  2. Aftab, Tahera (2008). Inscribing South Asian Muslim Women : an Annotated Bibliography & Research Guide ([Online-Ausg.] ed.). Brill. p. 66.
  3. Findly, Ellison Banks (1993). Nur Jahan, empress of Mughal India. New York: Oxford University Press. pp. 95, 125. 
  4. Schimmel, Annemarie (2004). The Empire of the Great Mughals: History, Art and Culture. Reaktion Books. p. 152.
  5. Schimmel, Annemarie (2004). The Empire of the Great Mughals: History, Art and Culture. Reaktion Books. p. 145.
  6. Butenschön, Andrea (1931). The Life of a Mogul Princess: Jahānarā Begam, Daughter of Shāhjahān. Taylor & Francis. p. 221.