عدل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عدل شیعہ مذہب کے اصول دین کی ایک اصل کا نام ہے۔ شیعہ مذہب کے نزدیک مجموعی طور پر اصول دین توحید ،عدل ،نبوت،امامت اور قیامت ہیں جبکہ وہ عدل اور امامت کو اصول مذہب کہتے ہیں۔ اس اصل کی اہمیت کے پیش نظر اسے اصول مذہب میں سے قرار دیا گیا ہے ۔علم کلام کے گروہوں میں سے امامیہ اور معتزلہ اس اصل کو قبول کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ کا گروہ اس اصل کو قبول نہیں کرتا ہے۔ اسلام کے تمام مذاہب کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لیے اصول دین میں سے توحید، نبوت اور قیامت پر اعتقاد رکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ شیعہ مذہب میں ان اصولوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی عدالت اور امامت کا اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ لہذا اسی وجہ سے شیعہ ہونے کے لیے ان پانچ اصول دین پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔

لغوی معنی[ترمیم]

  • راغب اصفہانی کے نزدیک مساوات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔....عدل برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا۔[1]
    فیومی کے نزدیک عدل لفظ جَوْر کا مخالف ہے۔ (جور ظلم ہے اور ظلم کسی چیز کو اس کے اپنے مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھنا ہے[2]) اور امور کے قصد کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ عدل بمعنی فدیہ جیسے سورہ انعام 70اِن تَعدِل کلَّ عدل اگر وہ فدیہ(معاوضہ بدلہ) دینا چاہے۔...۔ عدل بمعنی تعادل و تساوی۔ عَدل عن کے ساتھ استعمال ہو تو انحراف ،انصراف کا معنی دیتا ہے۔ عِدل کسی چیز کا وزن اور مقدار میں مِثل اور عَدل غیر جنس سے کسی چیز کا مِثل جیسے قول اللہ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ اَوْ عَدْلُ ذلک قیاما ...وہ (ساٹھ) مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا وہ اس کے برابر روزے رکھیں۔[3]
    مقاییس اللغہ میں آیا ہے کہ یہ دو متضاد اصلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پہلی اصل میں استواء اور دوسری اصل میں ٹیڑھے ہونے کے معنی پر دلالت کرتا ہے ۔

تحقیقی اعتبار سے عدل کا مادہ ایک ہی اصل میں استعمال ہوتا ہے جس کا معنی افراط و تفریط کا وسط اور درمیان ہے اس طرح سے جس میں نہ تو کمی ہو اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی زیادتی ہو۔ اسی اصل کی مناسبت سے اقتصاد،مساوات،قسط اور استقامت کے لیے کسی ایک اضافی قید اور شرط کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جب اسی لفظ کو عن کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تو یہ اعراض اور انصراف کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اس معنی میں استعمال کی وجہ لفظ عدل کا عن کے ساتھ ہونا ہے کیونکہ کلمہ عن انصراف کے معنی کو بیان کرتا ہے ۔[4] عدل مذہب شیعہ کے اصول دین میں سے ایک اصل کا نام ہے۔ مذہب شیعہ میں اس اصل کی اہمیت کے پیش نظر اسے اصول مذہب میں سے قرار دیا گیا ہے ۔علم کلام کے گروہوں میں سے امامیہ اور معتزلہ اس اصل کو قبول کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ کا گروہ اس اصل کو قبول نہیں کرتا ہے۔ اسلام کے تمام مذاہب کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لیے اصول دین میں سے توحید، نبوت اور قیامت پر اعتقاد رکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ شیعہ مذہب میں ان اصولوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی عدالت اور امامت کا اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ لہذا اسی وجہ سے شیعہ ہونے کے لیے ان پانچ اصول دین پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔

اصطلاحی معنی[ترمیم]

اصطلاحی اعتبار سے علم فقہ، علم کلام اورعلم نحومیں عدل کا لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔

علم کلام[ترمیم]

علم کلام میں عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالی عادل ہے ظالم نہیں ہے۔ وہ فعل قبیح کو انجام نہیں دیتا مثلا ظلم کرنا اور واجب کو ترک نہیں کرتا ہے جیسے ارسال انبیاء ۔[5] یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ظالم نہیں وہ عادل ہے۔ وہ اپنا فیصلہ کرنے اور حکم لگانے میں ظلم سے کام نہیں لیتا ہے۔ اطاعت گزاروں کو جزا اور گناہگاروں کو سزا دیتا ہے۔ انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا ہے اور ان کے استحقاق سے زیادہ ان کا مؤاخذاہ نہیں کرتا ہے۔[6]

علم فقہ[ترمیم]

شیعہ عالم دینشیخ مفید نے کہا ہے : دین اور محارم الہی سے بچنے والا شخص عادل ہے ۔[7] شیعہ عالم دین شیخ طوسی نے شرعی اعتبار سے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا:عادل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دین، احکام اور مروت میں عادل ہو۔ دین میں عادل ہونا یعنی کسی شخص میں اسباب فسق نہ پائے جاتے ہوں ؛مروت میں عادل ہونا یعنی ایسے امور سے اجتناب کرنا جس کی وجہ سے اس کی مروت میں کمی آتی ہو جیسے راستے میں کھڑے ہو کر کھانا۔....احکام میں عادل ہونا یعنی کسی شخص کا بالغ اور عاقل ہونا۔ جب کسی شخص میں تینوں صفات پائیں جائیں گی تو ایسے شخص کی گواہی قبول کی جائے گی ۔[8]

اہل سنت کے ہاں دین کی ممنوعہ چیزوں سے اجتناب کرتے ہوئے حق کی راہ پر باقی رہنا۔ بعض نے کہا عدل ایسی صفت ہے جس کی بدولت خلاف مروت چیزوں سے بچا جا تا ہے۔ جمع الجوامع میں انسان نفس کے ایسے ملکہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں بچتا ہے۔[9]

علم نحو[ترمیم]

عربی کے علم نحو میں کسی قاعدے اور قانون کے بغیر کسی اسم کا ایک صیغہ سے دوسرے صیغہ کی طرف چلے جانا ہے۔ اگر کسی اسم میں غیر منصرف کا ایسا میزان پایا جائے جو غیر منصرف پر دلالت کرے تو عدل تحقیقی ورنہ عدل تقدیری ہو گا۔[10]

اہمیت بحث عدل[ترمیم]

نبوت اور قیامت اصول دین میں سے دو ایسی اصلیں ہیں جنہیں اس وقت تک ثابت نہیں کیا جا سکتا جب تک انسان اللہ کے متعلق اس کے عادل ہونے کا یقین نہ رکھتا ہو۔ جب کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہوگی تو اس کے لوازمات جیسے کسی بھی نبی کی صداقت، کوئی بھی شریعت ،کسی بھی آسمانی کتاب کا نزول اور اسی طرح قیامت اور اس کے لوازمات جیسے مسلمانوں کے ان کے اچھے عمل کی جزا اور مشرکین، کفار اور فاسقین وغیرہ کو ان کے برے اعمال کی سزا وغیرہ بھی ثابت نہیں ہوں گے چونکہ نبوت اور قیامت جیسے اہم اصول دین کا اثبات اللہکی عدالت کے عقیدے پر موقوف ہے اس لیے مذہب تشیع میں عدالت اللہ کی اصل کو اصول دین میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ کسی بھی نبی کی نبوت ان دو مقدموں پر موقوف ہے

  • نبی جب اللہ کی جانب سے مبعوث ہونے کا ادعا کرتا ہے تو وہ ادعا کی تصدیق کی غرض سے معجزہ دکھاتا ہے ۔
  • ہر وہ شخص جس کی اللہ تصدیق کر دے تو وہ اپنے ادعا میں سچا ہے ۔

یہ دونوں ایسے مقدمے ہیں کہ جن کے اشاعرہ قائل نہیں ہیں:

پہلا مقدمہ: کیونکہ اشاعرہ کے نزدیک اللہ کا اپنے افعال کو کسی غرض و مصلحت کے ساتھ انجام دینا ضروری نہیں ہے بلکہ ہو سکتا کہ اللہ اپنے افعال کو کسی غرض، مصلحت اور حکمت کے بغیر انجام دے۔ لہذا اس بنا پر جائز نہیں کہ کہا جائے کہ اللہ رسالت و نبوت کے دعویدار کے ہاتھ پر اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کرے ۔

دوسرا مقدمہ:کوینکہ وہ تمام برے افعال کو اللہ کی طرف نسبت دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں :جو شخص بھی سچی یا جھوٹی نبوت کا ادعا کرے اس کا یہ ادعا اللہ کا فعل ہے بلکہ شرک کی تمام اقسام معصیتیں اور دنیا میں موجود ضلالتیں اللہ کی جانب سے ہیں۔ ان باتوں کے اعتقاد کی موجودگی میں کس طرح پہچانا جا سکتا ہے کہ فلان شخص (نبوت کا مدعی)اپنے اس ادعا میں سچا ہے عین ممکن ہے کہ وہ شخص اپنے اس (دعوائے نبوت) میں جھوٹا ہو اور یہ گمراہی دوسری گمراہیوں کی مانند اللہ کی جانب سے ہو۔

پس اس صورت میں نبی یا رسول کے اثبات کے لیے دلیل قائم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم تصدیقِ غرض کی نیت سے انجام دئے گئے فعلِ اللہ میں شک کرتے ہیں تو اس شک کی موجودگی میں نبوت کے دعویدار کی صداقت پر استدلال کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ تو ہمیں کس طرح اس بات کا یقین حاصل ہو جائے گا کہ نبی اپنے دعوائے نبوت میں سچا ہے ۔ علامہ حلی کا عدل کے متلعق بیان:

عدل ایک ایسی عظیم اصل ہے جس پر اسلامی قواعد کی بنیاد رکھی گئی ہے بلکہ تمام احکام کی بنیاد یہی ہے۔ اس کے بغیر ادیان مکمل نہیں ہوتے ہیں اور نہ انبیا میں سے کسی نبی کی سچائی کو جانا سکتا ہے۔ اس اصل پر اعقتاد کے بغیر سابقہ اور لاحقہ شریعتوں پر عمل کیا جانا ممکن ہے ،نہ ہی اس کے بغیر کسی نبی یا ملک مقرب کی نجات کا یقین ہو سکتا ہے یا اللہ کے اولیا اور اس کے مخلصین کے افعال کی پیروی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح عدل پر اعتقاد کے بغیر مشرکین، کفار، فاسقین اور گناہگاروں میں سے کسی ایک کو عذاب دیے جانے یقین کا حاصل ہو سکتا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کے عادل ہونے کا ایمان نہیں رکھے گا اور وہ اپنی خواہشاتِ نفسانی پیروی کے نتیجے میں ایسے برے اور باطل عقائد کا معتقد ہو گا تو ایک عاقل شخص ایسے قبیح عقائد فاسدہ اور باطلہ کے ساتھ کس طرح اللہ کا سامنا کرے گا؟[11]

مختلف مکاتب فکر[ترمیم]

تفصیلی مضمون: افعال کا حسن اور قبح

عدل کی بحث افعال کے حُسن اور قُبح کی جانب لوٹتی ہے۔ علم کلام میں معتزلہ اور امامیہ کو عدلیہ کہا جاتا ہے۔یہ افعال کی نسبت حسن اور قبح کے ذاتی ہونے کے قائل ہیں جبکہ ان کے مخالف اشاعرہ کا گروہ ہے جنہیں حسن اور قبح کے منکرین اور غیر عدلیہ میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ عدلیہ کہتے ہیں :کسی لحاظ کے بغیر کچھ افعال عقلی اور ذاتی طور پر حُسن یا قُبح رکھتے ہیں ۔۔[12] جیسے عدل و انصاف کرنے کے متعلق انسانی عقل اس کے اچھے اور حُسن ہونے کا حکم لگاتی ہے اور اسی طرح اس کے مقابلے میں کسی پر ظلم کرنے کے متعلق انسانی عقل اس کے قبیح اور برے ہونے کا حکم لگاتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقل کسی چیز کے حسن یا قبح کا حکم لگانے سے قاصر ہے۔ شرعی احکام کے آنے کے بعد اشیا میں حسن اور قبح پیدا ہوتا ہے۔ شریعت کے آنے سے پہلے تمام افعال حسن اور قبح سے خالی ہوتے ہیں ۔[13] لیکن اس بات کے لیے وہ بھی تیار نہیں ہیں کہ انھیں منکرین عدل میں شمار کیا جائے۔[14]

شیعہ نکتہ نظر[ترمیم]

شیعہ مکتب فکر عدل کے قائلین میں سے ہے۔ علمائے شیعہ کے نزدیک عدل اللہ کی صفات کمالیہ میں سے ہے اور اس کا معنی یہ ہے :اللہ اپنے فیصلوں اور احکام میں ظلم نہیں کرتا ،نیک لوگوں کو جزا اور گناہگاروں کو عقاب دیتا ہے۔ نیز اپنے بندوں پر ان کی استطاعت اور توان و قدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا ہے اور ان کے استحقاق سے زیادہ انھیں سزا نہیں دیتا ہے۔ کسی مزاحم کے نہ ہوتے ہوئے اچھے فعل کو ترک کرنے کی قدرت کے باوجود، ترک نہیں کرتا اور برے فعل کو انجام دینے کی قدرت کے باوجود اسے انجام نہیں دیتا ہے ۔[15] شیعہ نکتہ نظر کے مطابق عقلی دلائل نیز قرآن و حدیث بھی عدل کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

عقل[ترمیم]

اللہ کا اپنے فیصلوں اور احکام میں ظلم کرنا ،اطاعت گذاروں کو سزا اور معصیت کاروں کو جزا دینا،توان و قدرت سے زیادہ ذمہ داری ڈالنا وغیرہ ظلم اور قبیح امر ہیں اور اللہ قادر ہونے کے باوجود ظلم اور قبیح کو انجام نہیں دیتا ہے۔ اللہ کی ذات اس سے منزہ ہے۔ کیونکہ اللہ اگر ظلم یا قبیح کو انجام دے تو یہ امر درج ذیل چار صورتوں سے خالی نہیں ہے :

  • وہ اس سے جاہل ہے یعنی وہ نہیں جانتا کہ یہ چیز بری ہے ۔* وہ اس کی برائی سے آگاہ ہے لیکن اسے انجام دینے پر مجبور ہے اور اس کے ترک کرنے سے عاجز ہے ۔* وہ اس کی برائی سے آگاہ ہے اور مجبور نہیں ہے لیکن اس کے انجام دینے میں محتاج ہے ۔* وہ اس کی برائی سے آگاہ ہے اور مجبور بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسے انجام دینے کی احتیاج رکھتا ہے اس کے باوجود اگر وہ اسے انجام دیتا ہے تو گویا اس نے عبث اور لغو کام کو انجام دیا ہے ۔

یہ چاروں صورتیں اللہ کی نسبت محال ہیں اور اس سے (اگر وہ برے فعل کو انجام دے تو) لازم آتا ہے کہ اس کی ذات میں نقص پایا جاتا ہے جبکہ ذات باری تعالی ہر قسم کے عیب سے پاک اور منزہ ہے اور محض کمال ہے۔ پس اس لیے ضروری ہے کہ ہم کہیں کہ اللہ ظلم اور فعل قبیح کے انجام دینے سے منزہ ہے ۔[16]

قرآن[ترمیم]
  • ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس وہ کتاب (نامۂ اعمال) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔[17]
  • ....اور ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔[18]
  • ....آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے [19]
  • ....
حدیث[ترمیم]
  • امام جعفر صادق ؑ:توحید اور عدل دین کی اساس ہیں ۔[20]
  • امام علی:توحید اور عدل کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :توحید اللہ کے متعلق توہم نہ کرنا اور اللہ پر تہمت نہ لگانا عدل ہے ۔[21]
  • .....

معتزلہ[ترمیم]

عدل کے متعلق معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کچھ افعال کو اپنی ذات کے لحاظ سے انجام دینا عدل ہے اور کچھ کو انجام دینا ظلم ہے مثلا اطاعت گزار کو جزا دینا اور گناہگار کو سزا دینا عدل ہے ۔اللہ عادل ہے۔ یعنی اللہ مطیع کو جزا اور عاصی کو سزا دے گا۔ محال ہے کہ وہ اس کے برخلاف عمل کرے۔ مطیع کو سزا دینا اور عاصی کو جزا دینا ذاتی لحاظ سے ظلم ہے اور محال ہے کہ اللہ ایسا کام انجام دے جس طرح بندے کو گناہ پر مجبور کرنا یا انسان کو قدرت کے بغیر خلق کرنا اور پھر اس کے ہاتھ پر معصیت کا جاری ہونا اور پھر اسے سزا دینا ظلم ہے (اسی طرح مطیع کو سزا دینا اور عاصی کو جزا دینا محال ہے) اور ہر گز اللہ ظلم نہیں کرتا ہے۔ ظلم اللہ کی نسبت قبیح ہے۔[22]

اسی وجہ سے معتزلہ توحید افعالی کے منکر ہیں۔ کہتے ہیں :

توحید افعالی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خالق یعنی موجد نہیں ہو گا بلکہ اللہ اس کے افعال کا خالق ہو گا،نیز ہم جانتے ہیں کہ آخرت میں انسان کو اس کے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی۔ پس اگر اللہ افعال کا خالق ہو تو وہ اسی حال میں انسانوں کو سزا وجزا دے گا جو انھوں نے نہیں کیے ہوں گے بلکہ اللہ نے کیے ہوں گے اور یہ ظلم ہے اور عدل الہی کے خلاف ہے ۔معتزلہ توحید افعالی کو عدل کے مخالف سمجھتے ہیں۔ اس لحاظ سے معتزلہ انسان کے بارے میں آزادی اور اختیار کے قائل ہیں اور اس نظریے کا سختی سے دفاع کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ انسان کی آزادی اور اختیار کے مخالف اور منکر ہیں ۔[23]

معتزلہ بحثِ عدل کے نتیجے میں ایک اس سے زیادہ وسیع تر مفہوم رکھنے والی بحث کی طرف منتقل ہوئے ہیں جسے افعال کا ذاتی حسن اور قبح کہا جاتا ہے۔ وہ انسانی عقل کے متعلق کہتے ہیں کہ اللہ کے بیان سے قطع نظر انسانی عقل مستقل طور پر بعض چیزوں کے حسن اور قبح کو درک کرتی ہے۔ جبکہ اشاعرہ اس کے بھی مخالف ہیں ۔[23]

اشاعرہ[ترمیم]

اشاعرہ اس کے مقابل اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ کوئی چیز ذاتی لحاظ سے عدل اور ظلم میں سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جسے اللہ انجام دیتا ہے وہ عین عدل ہے۔ اللہ کا اطاعت گزاروں کو جزا اور معصیت کاروں کو سزا دینا عین عدل ہے۔ اسی طرح اگر اپنے بندوں کو قدرت اور توان کے بغیر خلق کرے پھر ان کے ہاتھوں پر گناہ کو جاری کرے اور پھر انسانوں کو وہ اللہ عقاب و سزا دے تو یہ ظلم نہیں ہے۔ اگر اس طرح فرض کر لیں کہ اللہ ایسا کرے گا تو یہ بھی عین عدل ہی ہے۔

اس لحاظ سے اشعری نگاہ میں مشیئت الہی کسی بھی ممکن چیز کے متعلق ہو سکتی ہے یہاں تک کہ جائز ہے کہ اللہ قیامت کے روز بچوں کو عذاب دے اور اگر اللہ ایسا کرے گا تو یہ عین عدل ہو گا چونکہ اللہ کسی کے فرمان کے تحت نہیں ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلان چیز کا اس سے انجام پانا قبیح ہے۔ ہماری نسبت اعمال کا قبیح ہونا اس لیے ہے چونکہ اللہ ہر چیز کا مالک ہے جب اللہ کسی چیز سے منع کرتا ہے تو وہ قبیح ہوجاتی ہے ۔[24]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اصفہانی ،المفردات فی القرآن ج1 صص 551،552
  2. فیومی،المصباح المنیر ص200
  3. فیومی،المصباح المنیر ص206
  4. ملخص :مصطفوی،التحقيق في كلمات القرآن الكريم، ج8، صص53 تا 56۔
  5. احمد فتح اللہ، معجم الفاظ الفقہ الجعفری ص286۔
  6. شیخ مظفر،عقائد الامامیہ،ص40۔
  7. اعداد مرکز المعجم الفقہی، المصطلحات،1708
  8. شیخ طوسی، المبسوط،ج 8 ص217۔
  9. التوقيف على مهمات التعاريف المؤلف: زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي بن زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) ص 238،الناشر: عالم الكتب 38 عبد الخالق ثروت-القاهرة
  10. التوقيف على مہمات التعاريف مؤلف: زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي بن زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ) ص 238،الناشر: عالم الكتب 38 عبد الخالق ثروت-القاهرة
  11. علامہ حلی،نہج الحق وکشف الصدق ص72۔
  12. علامہ حلی،نہج الحق و کشف الصدق ص 72۔
  13. ایجی،المواقف،ج 3 ص 270
  14. مطہری،مجموعہ آثار ج 3 73
  15. الشیخ مظفر،عقائد الامامیہ ص
  16. شیخ مظفر،عقائد الامامیہ ص41
  17. سورہ مؤمنون62
  18. سورہ روم9
  19. سورہ فصلت46
  20. شیخ صدوق،التوحید،باب معنی توحید و عدل، حدیث اول
  21. نہج البلاغہ قسم الحکم:470
  22. مطہری،مجموعہ آثار ج3 صص 73و 74
  23. ^ ا ب مطہری،مموعہ آثار ،ج 3 ص 74۔
  24. جہانگیری، مجموعہ مقالات ص167۔