اسرائیل تاجکستان تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسرائیل تاجکستان تعلقات

اسرائیل

تاجکستان

اسرائیل تاجکستان تعلقات سے مراد وہ دو طرفہ تعلقات ہیں جو اسرائیل اور تاجکستان کے بیچ جدید دور میں دیکھے گئے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ تاجکستان سابق سویت یونین کا حصہ رہا تھا، تاہم اس ملک کی آبادی زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ یہاں کی آبادی کا بیش تر حصہ سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ [1] یہاں غیر مسلم آبادی ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ سنی غلبے کے باوجود ثقافتی طور یہاں کے لوگوں کی زبان تاجیکی ہے جو فارسی کی ایک قسم ہے[2] اور لوگ ایران سے اس وجہ سے نزدیک ہے۔ یہ زبان روسی زبان سے ملتے جلتے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔[3] اس بات کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ تاجیکی کو دوبارہ فارسی رسم الخط میں لکھا جائے جیسا کہ سویت یونین کے عروج سے پہلے لکھا جاتا تھا۔ [4]

سفارتی اور تجارتی تعلقات کے قیام کی پہل[ترمیم]

عوامی مخالفت اور ایران کی فعالیت اور اثر انگیزی کے باوجود تاجکستان نے اپنے دروازے اسرائیل کے لیے کھول دیے۔ اس ملک نے سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم کیے جب تاجکستان کے صدر جمہوریہ اسرائیلی سفیر برائے روس سے ملے تھے۔ اس ملاقات کے دوران میں انھوں نے اسرائیلی کی معاشی، تکنیکی اور سائنسی معاملات میں مدد اور ملک کی معیشت میں بہتری کے لیے رہنمائی طلب کی۔ اس کوشش کے بعد دو طرفہ تعلقات چھوٹے چھوٹے امدادی منصوبوں سے شروع ہوئے ہیں۔ اس کی دو مثالیں اس طرح ہیں: اسرائیل نے تاجکستان کو اپنے ڈاکٹر روانہ کیے جو تاجکستان میں ماہرین امراض چشم کو جراحی کی تربیت فراہم کیے تھے اور اس کے علاوہ تاجکستان کے آبی وسائل سے جڑی شخصیات کو پانی کے نظم کی تربیت فراہم کی گئی۔ ان تعلقات میں قابل لحاظ تبدیلی فروری 2013ء میں دیکھی گئی جب دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے دو طرفہ مذاکرات میں حصہ لیا اور ایک یاد داشت مفاہمت پر دستخط کی جس سے مستقبل کی مشاورتوں میں اپنی دل چسپی ظاہر کی گئی۔ اسی سال جولائی میں اسرائیلی کاروباری شخصیات دوشنبہ پہنچے اور تاجک نائب وزیر برائے خارجہ امور سے مل کر باہمی معاشی تعلقات بڑھانے کی پہل کی۔[5]

سفارت خانے[ترمیم]

دونوں ممالک مکمل سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ تاجکستان سے متعلق امور کو ازبکستان میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ دیکھتا ہے۔ [6][7]

حوالہ جات[ترمیم]