سورہ الاسرا
→ سورہ الاسرا ← | |
---|---|
ترتیب نزول | 17 |
تعداد آیات | 111 |
تعداد الفاظ | 1559 |
تعداد حروف | 6480 |
الجزء | {{{جزء}}} |
الحزب | {{{حزب}}} |
دور نزول | مکی سورہ |
ویکی ماخذ پر سورہ سورہ الاسرا کا متن | |
رسم عثمانی میں سورت | |
باب القرآن الكريم |
دور نزول | مکی |
---|---|
دیگر نام | الاسرا |
زمانۂ نزول | واقعۂ معراج، اخیرِ مکی دور |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 17 |
عددِ پارہ | 15 |
تعداد آیات | 111 |
الفاظ | 1,559 |
حروف | 6,480 |
گذشتہ | النحل |
آئندہ | الکہف |
قرآن مجید کی 17 ویں سورت جو 15 ویں پارے کے آغاز کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ یہ سورت دو ناموں سے مشہور ہے ایک سورۂ بنی اسرائیل اور دوسرا سورۂ الاسراء۔
نام
آیت 4 کے فقرے "و قضینآ الی بنی اسرآئیل فی الکتٰب" سے ماخوذ ہے۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل نہیں ہیں بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ دوسرا نام یعنی الاسراء پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے : الاسراء آیت 26، الاسراء آیت 32 تا 33، الاسراء آیت 57، الاسراء آیت 73 تا 80
پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔
پس منظر
اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے 12 سال گذر چکے تھے۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے باوجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے۔ مدینے میں اوس اور خزرج کے طاقتور قبائل کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت قریب آ لگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہوجانے اور منتر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کردینے کا موقع ملا تھا۔
ان حالات میں واقعۂ معراج پیش آیا اور واپسی پر پیغام نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا کو سنایا۔
موضوع اور مضمون
اس سورت میں تنبیہ، تفہیم اور تعلیم، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کردی گئی ہیں۔
تنبیہ کفار مکہ کو دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آ لگا ہے، سنبھل جاؤ اور اس دعوت کو قبول کرلو جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمھاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے۔ نیز ضمناً بنی اسرائیل کو بھی، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبانِ وحی کے مخاطب ہونے والے تھے، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائیں تمھیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمھیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہو گے۔
تفہیم کے پہلے میں بڑے دلنشیں طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و خسران کا مدار دراصل کن چیزوں پر ہے۔ توحید، معاد، نبوت اور قرآن کے بر حق ہونے کی دلیلیں دی گئی ہیں۔ ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکرین کی جہالتوں پر زجر و توبیخ بھی کی گئی ہے۔
تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوتِ محمدی کے پیش نظر تھا۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اس میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ یہ خاکہ ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ملک کی اور پھر پوری انسانیت کی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
ان سب باتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیال تک نہ کریں۔ نیز مسلمانوں کو، جو کبھی کبھی کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کنج بحثیوں اور ان کے طوفانِ کذب و افتراء پر بے ساختہ جھنجھلا اٹھتے تھے، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اس سلسلے میں اصلاح نفس اور تزکیۂ نفس کے لیے ان کو نماز کا نسخہ بتیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو اُن صفاتِ عالیہ سے متصف کرے گی جن سے راہِ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندئ اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی۔