سورہ العلق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(العلق سے رجوع مکرر)
العلق
اعداد و شمار
عددِ سورت96
عددِ پارہ30
تعداد آیات19
سجود1 (آیت نمبر 19)
گذشتہالتین
آئندہالقدر

دوسری آیت کے لفظ علق کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس سورت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اقرا سے شروع ہو کر پانچویں آیت کے الفاظ مالم یعلم پر ختم ہوتا ہے اور دوسرا حصہ کلآ ان الانسان لیطغٰی سے شروع ہو کر آخر سورت تک چلتا ہے۔ پہلے حصے کے متعلق علمائے امت کی عظیم اکثریت اس بات پرم تفق ہے کہ یہ سب سے پہلی وحی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اس معاملے میں حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی وہ حدیث جسے امام احمد، بخاری، مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے، صحیح ترین احادیث میں شمار ہوتی ہے اور اس میں حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سن کر آغازِ وحی کا پورا قصہ بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ابن عباس، ابو موسٰی اشعری اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت سے بھی یہی بات منقول ہے کہ قرآن کی سب سے پہلی آیات جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئیں وہ یہی تھیں۔ دوسرا حصہ بعد میں اُس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرم میں نماز پڑھنی شروع کی اور ابو جہل نے آپ کو دھمکیاں دے کر اس سے روکنے کی کوشش کی۔

آغاز وحی

محدثین نے آغازِ وحی کا قصہ اپنی اپنی سندوں کے ساتھ امام زہری سے اور انھوں نے حضرت عروہ بن زبیر سے اور انھوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچے (اور بعض روایات میں ہے اچھے) خوابوں کی شکل میں ہوئی۔ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ ایسا ہوتا کہ جیسے آپ دن کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے اور کئی کئی شب و روز غار حرا میں رہ کر عبادت کرنے لگے (حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نے تَحَنُّث کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی تشریح امام زہری نے تعبُّد سے کی ہے۔ یہ کسی طرح کی عبادت تھی جو آپ کرتے تھے، کیونکہ اس وقت تک اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو عبادت کا طریقہ نہیں بتایا گیا تھا) آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر حضرت خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور وہ مزید چند روز کے لیے سامان آپ کے لیے مہیا کر دیتی تھیں۔ ایک روز جبکہ آپ غار حرا میں تھے، یکایک آپ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتے نے آکر آپ سے کہا "پڑھو" اس کے بعد حضرت عائشہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے کہا "میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں "۔ اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے گی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا "میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں "۔ اس نے دوبارہ مجھے بھینچا اور میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے پھر کہا "میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں "۔ اس نے تیسری مرتبہ مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقرا باسم ربک الذی خلق (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) یہاں تک کہ مالم یعلم (جسے وہ نہ جانتا تھا) تک پہنچ گیا۔ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانپتے لرزتے ہوئے وہاں سے پلٹے اور حضرت خدیجہ کے پاس پہنچ کر کہا "مجھے اُڑھاؤ، مجھے اُڑھاؤ" چنانچہ آپ کو اِڑھا دیا گیا۔ جب آپ پر سے خوف زدگی کی کیفیت دور ہو گئی تو آپ نے فرمایا "اے خدیجہ، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے "۔ پھر سارا قصہ آپ نے ان کو سنایا اور کہا "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے " انھوں نے کہا "ہر گز نہیں، آپ خوش ہو جائیے۔ خدا کی قسم، آپ کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں (ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ امانتیں ادا کرتے ہیں)، بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں " پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو ان کے چچا زاد بھائی تھے، زمانۂ جاہلیت میں مسیحی ہو گئے تھے، عربی اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے، بہت بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہ نے ان سے کہا بھائی جان، ذرا اپنے بھتیجے کا قصہ سنیے۔ ورقہ نے حضور سے کہا بھتیجے تم کو کیا نظر آیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ ورقہ نے کہا "یہ وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ہے) جو نے موسٰی علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانۂ نبوت میں قوی جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "کیا لوگ مجھے نکال دیں گے؟" ورقہ نے کہا "ہاں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ اگر میں نے آپ کا وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی پرزور مدد کروں گا" مگر زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ یہ قصہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے کہ فرشتے کی آمد سے ایک لمحہ پہلے تک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بات سے خالی الذہن تھے کہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اس چیز کا طالب یا متوقع ہونا تو درکنار، آپ کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ ایسا کوئی معاملہ آپ کے ساتھ پیش آئے گا۔ وحی کا نزول اور فرشتے کا اس طرح سامنے آنا آپ کے لیے اچانک ایک حادثہ تھا جس کا تاثر آپ کے اوپر وہی ہوا جو ایک بے خبر انسان پر اتنے بڑے ایک حادثہ کے پیش آنے سے فطری طور پر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تو مکہ کے لوگوں نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے، مگر ان میں کوئی یہ کہنے والا نہ تھا کہ ہم کو تو پہلے ہی یہ خطرہ تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے واے ہیں کیونکہ آپ ایک مدت سے نبی بننے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس قصے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کی زندگي کیسی پاکیزہ تھی اور آپ کا کردار کتنا بلند تھا۔ حضرت خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کوئی کم سن خاتون نہ تھیں بلکہ اس واقعہ کے وقت ان کی عمر 55 سال تھی اور پندرہ سال سے وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریک زندگی تھیں۔ بیوی سے شوہر کی کوئی کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی۔ انھوں سے اس طویل ازدواجی زندگی میں آپ کو اتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو غار حراء میں پیش آنے والا واقعہ سنایا تو بلا تامل انھوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ فی الواقع اللہ کا فرشتہ ہی آپ کے پاس وحی لے کر آیا ہے۔ اسی طرح ورقہ بن نوفل بھی مکہ کے ایک بوڑھے باشندے تھے، بچپن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ اور پندرہ سال کی قریبی رشتہ داری کی بنا پر تو وہ آپ کے حالات سے اور بھی زیادہ گہری واقفیت رکھتے تھے۔ انھوں نے بھی جب یہ واقعہ سنا تو اسے کوئی وسوسہ نہیں سمجھا بلکہ سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ وہی ناموس ہے جو موسٰی علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی آپ اتنے بلند پایہ انسان تھے کہ آپ کا نبوت کے منصب پر سرفراز ہونا کوئی قابل تعجب امر نہ تھا۔

دوسرے حصہ کی شان نزول

اس سورت کا دوسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرم میں اسلامی طریقہ پر نماز پڑھنی شروع کی اور ابو جہل نے آپ کو ڈرا دھمکا کر اس سے روکنا چاہا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ نبی ہونے کے بعد قبل اس کے کہ حضور {صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کی علانیہ تبلیغ کرتے، آپ نے حرم میں اس طریقے پر نماز ادا کرنی شروع کر دی جو اللہ تعالٰی نے آپ کو سکھائی تھی اور یہی وہ چیز تھی جسسے قریش نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ آپ کسی نئے دین کے پیرو ہو گئے ہیں۔ دوسرے لوگ تو اسے حیرت ہی کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، مگر ابو جہل کی رگ جاہلیت اس پر پھڑک اٹھی اور اس نے آپ کو دھمکانا شروع کر دیا کہ اس طریقے پر حرم میں عبادت نہ کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی احادیث عبد اللہ بن عباس اور ابو ہریرہ سے مروی ہیں جن میں ابو جہل کی ان بیہودگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابو ہریرہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا بیان ہے کہ ابو جہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا "کیا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمھارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹکاتے ہیں؟" لوگوں نے کہا "ہاں " اس نے کہا "لات اور عزیٰ کی قسم، اگر میں نے ان کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پاؤں رکھ دوں گا اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا" پھر ایسا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ آگے بڑھا تاکہ آپ کی گردن پر پاؤں رکھے، مگر یکایک لوگوں نے دیکھا وہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہو گیا؟ اس نے کہا میرے اور ان کے درمیان میں آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو ملائکہ اس کے چیتھڑے اڑا دیتے [1]

ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو ان کی گردن پاؤں تلے دبا دوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو ملائکہ علانیہ اسے آ پکڑیں گے [2] ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل کا ادھر سے گذر ہوا تو اس نے کہا اے محمد! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہ کیا تھا؟ اور اس نے آپ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا اے محمد، تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم، اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔[3]

انہی واقعات پر اس سورت کا وہ حصہ نازل ہوا جو کلآ ان الانسان لیطغٰی سے شروع ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر اس حصے کا مقام وہی ہونا چاہیے تھا جو قرآن کی اس سورت میں رکھا گیا ہے کیونکہ پہلی وہی نازل ہونے کے بعد اسلام کا اولین اظہار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز ہی سے کیا تھا اور کفار سے آپ کی مڈبھیڑ کا آغاز بھی اسی واقعہ سے ہوا تھا۔

حوالہ جات

  1. احمد،مسلم، نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن المنذر، ابن مردویہ، ابو نعیم اصفہانی، بیہقی
  2. بخاری، ترمذی، نسائ، ابن جریر، عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن مردویہ
  3. احمد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، طبرانی، ابن مردویہ