بنگلہ دیش میں خواتین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بنگلہ دیش میں خواتین (انگریزی: Women in Bangladesh) کا موقف پچھلی کچھ صدیوں سے متواتر طور پر بدلتا رہا ہے۔ موجودہ بنگلہ دیش کے علاقے میں کسی زمانے میں عورتیں تعلیم کے لیے ترستی تھیں، تاہم جدید دور میں تعلیم عام ہو چکی ہے۔ اسی طرح سے جہاں کبھی گھر سے باہر قدم رکھنا ناقابل قبول تھا، اب عورتیں آسانی سے ملک میں ملازمتوں کو اختیار کر رہی ہیں۔ سیاسی طور ملک میں عورتوں کافی فعال ہیں۔ ملک کی دو سرکردہ خواتین شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء ہیں۔

عوامی مقامات میں ہراسانی اور اس پر قابو پانے کے اقدامات[ترمیم]

ایک تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش میں 94 فی صد خواتین کو عوامی مقامات پر ہراسانی کا سامنا ہے اور زیادہ تر خواتین کا استحصال ان کے خاندان کے افراد یا رشتہ دار کرتے ہیں۔ ایسے میں بنگلہ دیش کی خواتین میں دفاع خودی کی تربیت حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ڈھاکا کے کراٹے اسکولوں میں عورتیں تربیت حاصل کر رہی ہیں۔[1]

اسی طرح سے ملک میں عوامی حمل و نقل استعمال کرنے والی 90 فیصد سے زیادہ خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں ہراساں کیا گیا۔ اسی لیے 2017 میں پہلی مرتبہ خواتین کے لیے مخصوص موٹر سائیکل ٹیکسی سروس للی رائیڈ شروع کی گئی۔ جس کی ڈرائیور اور مسافر بھی صرف خواتین ہی ہیں۔ نوکری پیشہ بنگلہ دیشی خواتین کا کہنا ہے کہ کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد گھر پہنچ کر اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزاریں اس کے لیے للی رائیڈ بہت اچھی سہولت ہے۔[2]

دسمبر 2019ء میں سعودی عرب میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین پر تشدد اور ان کی آبرو ریزی کے الزامات کے بعد بنگلہ دیش نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے لیے ملازماؤں کو بھرتی کرنے والی 166 ایجنسیوں کو بند کر دیا ہے۔ حکومت کے مطابق 1991ء سے اب تک تین لاکھ بنگلہ دیشی خواتین سعودی عرب گئیں۔ جن میں سے اکثر گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر رہی ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ میں متعدد جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں بھرتی کرنے والوں پر جنسی غلام بنا کر فروخت کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ جس کے بعد ان خواتین کی بنگلہ دیش واپسی شروع ہوئی ہے۔[3]

رجعت پسند فتووں پر روک کے ذریعے خواتین کا تحفظ[ترمیم]

حکومت بنگلہ دیش خود کو ایک سیکولر اور ترقی پسند حکومت ثابت کرنے کے لیے قدامت پسند مذہبی حلقوں پر لگام کس رہی ہے جو عورتوں کی معاشی خوش حالی کو فتووں کے ذریعے روک رہے ہیں۔ 2017ء میں ایسے ہی ایک واقعے میں نگلہ دیشی پولیس نے کھیتوں میں خواتین کی ملازمت کے خلاف مبینہ فتویٰ جاری کرنے والے مسجد کے امام کو گرفتار کر لیا تھا۔ مسجد کے امام سمیت 5 ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا تھا۔امام نے جمعے کی نماز کے بعد خواتین کے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔[4]

بین الاقوامی کاروبار میں خواتین[ترمیم]

بنگلہ دیش کی خواتین صنعتکاروں کی ایسوسی ایشن اور چین کے کون مینگ شہر کی خواتین فیڈریشن کا اجلاس 2018ء میں ڈھاکا میں منعقد ہوئی۔دونوں ملکوں کی خواتین نے بنگلہ دیش میں خواتین تاجروں کو درپیش مواقع اور چیلنجوں پر بحث کی۔اس طرح کی کوششوں کے ذریعے بنگلہ عالمی کاروبار میں اپنے قدم بڑھا رہا ہے اور ملک کی خواتین بھی پیش رفت کی کوشش کر رہی ہیں۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بنگلہ دیش: ڈھاکہ کا کراٹے اسکول کیسے خواتین کو اپنا دفاع کرنے کی تربیت دے رہا ہے؟
  2. "بنگلہ دیش میں خواتین ایسا کیا کام کرنے لگ گئیں جانئے آپ بھی"۔ 20 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020 
  3. "خواتین پر تشدد اور ریپ کے الزامات کے بعد بنگلہ دیش نے سعودی عرب کے لیے ملازماؤں کو بھرتی کرنے والی ایجنسیوں کو بند کر دیا"۔ 20 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020 
  4. کھیتوں میں خواتین کی ملازمت کیخلاف فتوے پر بنگلہ دیشی امام گرفتار
  5. "بنگلہ دیش کی خواتین صنعتکاروں کے ایسوسی ایشن اور چین کے کون مینگ شہر کی خواتین فیڈریشن کا اجلاس"۔ 20 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020