سورداس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سورداس
سُور اپنے ہاتھ میں اکتارا اٹھا کر بھجن گاتے ہوئے۔
ذاتی
پیدائشغیر یقینی (1478–1483)
وفاتغیر یقینی (1561–1584)
برج، بھارت
مذہبہندو مت/سکھ مت
وجہ شہرتبھکتی تحریک، سنت مت کو متاثر کرنے اور گرو گرنتھ صاحب میں مناجات کے اضافے کی وجہ سے
فلسفہبھکتی
مرتبہ
ادبی کامسور ساگر، سور سارولی، ساہتیہ لاہری

سُورداس یا سُور سولہویں صدی کے ایک نابینا ہندو سنت شاعر اور گلوکار جو کرشن جی کی تعریف میں کلام لکھنے پر شہرت رکھتے ہیں۔[1] ان کا کلام عموماً ہندی ادب کی دو زبانوں اوادھی اور برج بھاشا میں ہے۔ سُور کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ ولبھا اچاری کی تعلیمات سے متاثر تھے۔ جن سے ان کی ملاقات 1510 میں ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں یوں تو بہت سی روایات مشہور ہیں لیکن زیادہ قبولیت اور توثیق اس روایت کے بارے میں ہے کہ وہ پیدائشی طور پر نابینا تھے۔ انھیں اس عہد اور مابعد کے شعرا میں ایک ممتاز بلکہ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ولبھا سمراڈیابہ عنوان استاچھاپ (ہشت مہر) ایک سلسلہ سند ہے جس میں ہر شاعر اپنے کلام کے آخر میں ایک مہر یا دستخط کرتا ہے جسے چھاپ کہا گیا ہے۔تاہم، سور کی ابتدائی شاعری سے ولبھااچاریہ کی عدم موجودگی اور بعد ازاں ان کی حیرت انگیز ملاقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سور بذات خود ایک شاعر تھے۔ کتاب سور ساگر (عرف عام سُر ساگریعنی سور کا سمندر) کو سور سے منسوب کیا جاتا ہے، تاہم بہت سا کلام اس میں ایسا ہے جسے سور سے بعد آنے والے شاعروں نے سور کے نام سے لکھا۔گوپی کے نقطہ نظر سے لکھی گئی موجودہ سُر ساگر کرشن جی ایک محبوب بچہ کے عنوان کا احاطہ کرتی ہے۔سور بلا شبہ ایک عظیم مذہبی گلوکار تھا۔

زندگی نامہ[ترمیم]

سور کی درست تاریخ پیدائش مورخین کے درمیان متنازع ہے۔لیکن ایک اجماعی اتفاق رائے جو مورخین اور محققین کے درمیان میں ایک مقام پر ملتا ہے اس بیان کے مطابق سور کی پیدائش 1561 سے 1584 تک کے زمانہ کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ ولبھا کی داستان کے مطابق چونکہ سور پیدائشی اندھے پن کا شکار تھے اس لیے خاندانی عدم توجہ بلکہ نفرت کا شکار تھے یہاں تک کہ انھیں گھر سے نکال دیا گیااور یوں محض چھ سال کی عمر میں سور گھر چھوڑ کر جمنا کے کنارے رہنے پر مجبور ہو گئے۔

شاعری اور کام[ترمیم]

سور کی اولین اور اہم ترین وجہ شہرت کتاب سر ساگر کا لکھنا ہے اگرچہ سر ساگر میں سور کے نام سے بعد کے آنے والے شعرا نے کلام لکھے اپنے اپنے زمانے میں لیکن سور سے جذباتی وابستگی کی وجہ سے نام یا چھاپ سور کا ہی استعمال کیا۔سولہویں صدی کی سر ساگر کتاب کرشن اور رادھا کی داستان محبت کو بیان کرتی ہے، رادھا اور گوپیوں کا کرشن کی عدم موجودگی مین ان کا اشتیاق اور انتظار سناتی ہے۔اس کے علاوہ، سور کے اپنے ذاتی بھگتی کے بارے نظمیں نمایاں ہیں،کچھ ذکر مہا بھارت اور رامائن کا بھی ملتا ہے۔ سور نے سر سروالی اور ساہتیا لہن بھی لکھیں۔کہا جاتا ہے کہ سور نے ایک لاکھ سے زیادہ اشعار اور تحریریں چھوڑیں جن میں سے بہت سی امتداد زمانہ کی نذر ہوگئیں اور اب وجود میں نہیں۔ ان کے اشعار میں سے دیوالی کے لیے بھی بہترین انتخاب موجود ہے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Klaus K. Klostermaier (2007-07-05)۔ A Survey of Hinduism: Third Edition۔ SUNY Press۔ صفحہ: 215۔ ISBN 978-0-7914-7082-4۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018