شریف مکہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ابتدا[ترمیم]

شریفِ مکہ کا خاندانی شجرۂ نسب سال 1200ء تک

شریفِ مکّہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا۔ پہلے شریف مکّہ تیمون تھے، جو 13 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ شریفِ مکّہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ میں عازمین حجّ و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔

حالات[ترمیم]

پہلے شریفِ مکّہ، تیمون سے آخری شریفِ مکّہ علی بن حسین تک ایک ہزار برس کے عرصے میں مجموعی طور پر 78 شخصیات نے یہ منصب اپنے پاس رکھا۔ آخری شریفِ مکّہ، علی بن حسین کے والد حسین بن علی 77 ویں شریفِ مکّہ تھے اور انھوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر شاہِ حجاز کا منصب سنبھالا، موجودہ سعودی عرب، عراق، لبنان، اردن اور خلیجی ریاستیں ان کی سلطنت کا حصہ تھیں۔ مگر آکے چل کر انگریزوں نے اردن، شام اور عراق کی الگ الگ حکومتیں بنا کر وہاں کا اقتدار شریفِ مکّہ کے بیٹوں کے حوالے کر دیا، جب کہ موجودہ سعودی عرب میں عبدالعزیز ابن سعود نے اپنا اقتدار قائم کیا، ان کے چھوٹے بھائی اور موجودہ سعودی فرماں روا، شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بھی خادم الحرمین الشریفین کہلاتے ہيں۔ بنو فاطمہ کے دور میں 967ء سے 1101ء تک 6 شریفِ مکّہ رہے، 1101ء سے 1201ء تک ایک صدی کے عرصے میں یہ منصب خالی رہا، کیوں کہ اس عرصے میں صلیبی جنگیں لڑی جا رہی تھیں۔

شریفِ مکہ کا خاندانی شجرۂ نسب سال 1600ء تک
محمد بن عبد المعين بن عون کی تصویر، جو 1827–1851ء کے درمیان شریفِ مکہ رہا تھا۔ یہ خاکہ امریکی نیول آفیسر ولیام فرانسس لنچ کی 1848ء میں شائع ہونی والی کتاب سے لیا گیا ہے۔

صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کے بعد ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ ایوبی سلطنت کے چوتھے خلیفہ، العادل سیف الدین ابو بکر بن ایوب کے دور مین ساتویں شریفِ مکّہ، قتاوی بن ادریس العلوی الحسینی کا تقرر ہوا۔ ایوبی سلطنت کے دور میں 4 شخصیات کے پاس شریفِ مکّہ کا منصب رہا، مملوک سلطنت کے دور میں 7 شخصیات شریفِ مکّہ رہيں، جب کہ خلافتِ عثمانیہ کے 400 سالہ دور میں 61 شخصیات کو شریفِ مکّہ کا منصب سنبھالنے کا شرف حاصل ہوا۔ خلافتِ عثمانیہ کے 60 شریفِ مکّہ، حسین بن علی پاشا نے عرب قومیت کی بنیاد پر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی۔ وہ سعودی عرب، اردن، اسرائیل، عراق، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور اومان کی موجودہ سلطنتوں کے تمام علاقوں پر مشتمل خلافت عرب قائم کرنا چاہتے تھے اور یہ سلطنت قائم بھی ہوئی۔ انگریزی مفادات کے حامل علاقے کویت اور شام کے ساحل اس میں شامل نہيں تھے اور عدن کو بھی نئی خلافت میں شامل نہيں کیا گیا تھا۔

شریفِ مکہ کا خاندانی شجرۂ نسب سال 1918ء تک

خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت[ترمیم]

شریف مکہ حسین ابن علی کو انگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر جب خلافت عثمانیہ تحلیل ہو گئی، تو انگریزوں نے جزیرہ نما عرب میں بڑے پیمانے پر جغرافیائی تبدیلیاں کیں اور جزیرہ نما عرب کا اقتدار شریفِ مکّہ کے حوالے کر دیا گیا۔ 60 ویں شریفِ مکّہ، حسین بن علی پاشا کے دو خطوط اور ان کے پہلے خط کے جواب میں قاہرہ میں متعین، برطانی ہائی کمشنر، سر ہنری کا ایک خط پڑھ کر یہ محسوس ہو گا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ حوالہ۔[1] حسین ابن علی نے برطانیوں اور تھامس لارنس کا ساتھ دیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف 1915ء میں جنگ شروع کیا جس سے سارے عرب ممالک سے عثمانی تسلّط ختم ہو گیا اور پھر مشرقِ وسطی پر دونوں برطانوی ائر فرانسیسی تسلط قائم ہو گئے۔ اس کے دو بیٹے دونوں عراق اور اردن کے بادشاہ بنے جو زمانۂ حال کے اردنی شاہی خاندان کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید معلومات[ترمیم]

14 جولائی 1915ء کو عرب قوم پرستی کے نام پر ایک نئی عرب خلافت کے قیام کے لیے ا س دور کی سپر پاور، برطانیہ کی مدد مانگی جا رہی تھی اور 99 سال بعد 2 جولائی 2014ء کو عراق و شام کے علاقوں میں داعش نامی تنظیم کی طرف سے خلافت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ تجزیہ کاروں میں اس بات کے چرچے ہیں کہ 99 سال بعد کے اس خلافت کے قیام کا اعلان کرنے والوں کو اردن میں تربیت دی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اردن میں اقتدار آج بھی شریف مکّہ کے پڑپوتے، عبد اللہ بن حسین بن طلال بن عبداللہ بن حسین بن علی کے پاس ہے ۔

مزید پڑھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شریف مکہ کے خطوط آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ magazine.jang.com.pk (Error: unknown archive URL), جنگ سنڈے میگزین مورخہ 13 جولائی 2014