مندرجات کا رخ کریں

شہریت ترمیمی قانون، 2019ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(شہریت ترمیمی بل 2019ء سے رجوع مکرر)
شہریت (ترمیم) قانون، 2019
بھارتی پارلیمان
ایک قانون جو شہریت ایکٹ، 1955 میں مزید تبدیلی کرتا ہے۔
سمن2019 کا ایکٹ نمبر 47
نفاذ بذریعہلوک سبھا
تاریخ منظوری10 دسمبر 2019ء (2019ء-12-10)
نفاذ بذریعہراجیہ سبھا
تاریخ منظوری11 دسمبر 2019ء (2019ء-12-11)
تاریخ رضامندی12 دسمبر 2019ء (2019ء-12-12)
تاریخ تنفیذابھی نوٹی فیکیشن باقی ہےء (ابھی نوٹی فیکیشن باقی ہےء)
قانون سازی کی تاریخ
بل متعارف لوک سبھاشہریت(ترمیم) بل(سی اے بی یا کیب)
حوالہ بل2019 کا بل نمبر 370
تاریخ اشاعت9 دسمبر 2019؛ 4 سال قبل (2019-12-09)
متعارف کردہ بدستامت شاہ
وزیر داخلہ
First reading9 دسمبر 2019ء (2019ء-12-09)
Second reading10 دسمبر 2019ء (2019ء-12-10)
Third reading11 دسمبر 2019ء (2019ء-12-11)
خلاصہ
یہ بل 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والےہندو، سکھ، بدھ مت، جین مت، پارسی اور مسیحی مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کے قابل بناتا ہے۔ اس بل میں شہریت کے لیے ملک میں 11 سال رہنے کی شرط کو تین ممالک کے چھ مذاہب کے تارکین وطن کے لیے نرم کر کے 5 سال کر دیا گیا ہے۔
صورت حال: نافذ


شہریت ترمیمی قانون 2019ء (انگریزی: Citizenship Act, 2019) بھارت کی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ ایک ایکٹ ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میں میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز ہے، ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جو مہاجر 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے تھے، انھیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔ اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11 سال رہنے کی شرط کو نرم کرتے ہوئے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔ اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس بل کے اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔[1]

مخالفت کی وجوہات

اکثریت کا اقلیت میں بدلے جانے کا خوف

آسام، میگھالیہ اور منی پور کے علاوہ دوسری شمال مشرقی ریاستیں جو بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر واقع ہیں اس بل کی مخالفت مقامی لوگوں کے اقلیت میں بدلے جانے کی وجہ سے کر رہی ہیں۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس قانون سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں اور بودھ باشندوں کو یہاں آ کر بسنے کی ترغیب ملے گی اور اس طرح مقامی افراد نسلی طور پر رفتہ رفتہ اقلیت میں بدل جائیں گے۔

غیر آئینی

اس بل کی مخالفت اس لیے بھی ہو رہی ہے کہ یہ بل غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے۔

بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا

بی جے پی کی بعض اتحادی جماعتوں کے خیال میں یہ بل بی جے پی کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے جس کا وہ حصہ نہیں بننا چاہتیں۔

شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے

بل کے پاس ہوتے ہی ملک بھر میں مظاہرے اور احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بالخصوص آسام[2][3][4]، تریپورہ اور منی پور میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔[5] ان احتجاجات میں متعدد لوگ زخمی ہوئے ہیں اور دو کی موت ہو چکی ہے۔ ملک کی سول تنظیموں نے اس بل مخالفت کی ہے اور انڈین نیشنل کانگریس نے ایوان پارلیمان اور باہر سڑکوں پر ملک گیر احتجاج شروع کیا ہے۔مظاہروں کی وجہ فلائٹ اور ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔[6] آسام اور تریپورہ میں حکومت نے انٹرنیٹ کی خدمت معطل کر دی ہے۔[7] رنجی ٹرافی 2019ء-2020ء کا آسام اور سروسز کے درمیان میں کا مقابلہ منسوخ ہو گیا۔

حوالہ جات

  1. شہریت کا متنازع ترمیمی بِل انڈین سپریم کورٹ میں چیلنج
  2. Kaushik Deka New DelhiDecember 12، 2019UPDATED: دسمبر 12، 2019 04:01 Ist۔ "Citizenship Amendment Bill protests: Here's why Assam is burning"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019 
  3. Bikash Singh (2019-12-12)۔ "Citizenship Amendment Bill 2019: Why is Assam protesting?"۔ The Economic Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019 
  4. "'Anti-Muslim' citizenship law challenged in India court" (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019 
  5. "Protests and strikes hit Assam, Manipur, Tripura against CAB" (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019 
  6. "Citizenship Bill protests affect Assam; flights suspended, train services hit"۔ Deccan Chronicle (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019 
  7. "Anti-Citizenship Bill protests: Army deployed in Assam, Tripura; Internet suspended"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ Special Correspondent۔ 2019-12-11۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019 

بیرونی روابط

سانچہ:Indian legislations