محمد عباس شوشتری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد عباس شوشتری
معلومات شخصیت
پیدائش 15 مئی 1809ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ،  سلطنت اودھ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 مارچ 1889ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ الٰہیات دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مفتی سید محمد عباس موسوی لکهنوی (پیدائش: 15 مئی 1809ء— وفات: 28 مارچ 1889ء) برصغیر کے ایک عظیم شیعہ مجتہد اور متکلم تھے ـ شہر لکھنؤ کے رہنے والے تھے ـ

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت لکھنؤ میں 30 ربيع الاول 1224ھ کو ہوئی ـ

نسب[ترمیم]

آپ کا سلسلہ نسب سید نعمۃ اللہ جزائری تک اس طرح ہے : محمد عباس ابن علي ابن جعفر ابن ابو طالب ابن نور الدين ابن نعمۃ الله جزائري ـ

سید نعمۃ اللہ جزائری خود بھی اپنے زمانے کے عظیم شیعہ عالم دین اور متعدد کتابوں کے مؤلف تھے ـ

آپ کے دادا جعفر شوشتر سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے اور لکھنؤ میں سکونت پزیر ہو گئے تھے ،ـ اسی وجہ سے آپ شوشتری کہلائے ـ

نسب نامہ: مفتی سید میر محمد عباس ابن سید علی اکبر ابن سید محمد جعفر ابن سید طالب ابن سید نور الدین ابن سيد نعمة اللہ الجزائري ابن سید عبد اللہ ابن سید محمد ابن سید حسين ابن سید محمود ابن سید غياث الدين شيبان ابن سید مجد الدين أحمد ابن سید نور الدين علی بن سید محمد ابن سید احمد ابن سید رضا ابن سید ابراہيم ابن سید هبة اللہ ابن سید طيب ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید قاسم ابن سید ابی الفخار محمد ابن سید ابی علی معمر الضرير ابن سید عبد اللہ ابن سید ابی عبد اللہ جعفر الاسود ابن سید محمد ابن سید موسى ابن سید عبد اللہ العوكلانی بن امام موسى الكاظم علیہ السّلام

علامہ سید محسن امین عاملی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب اعیان الشیعہ میں مفصل طور پر آپ کا تذکرہ کیا ہے ـ [1]

آقا بزرگ تہرانی کی نگاہ میں[ترمیم]

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی آپ کی جلالت علمی کا اعلان ان الفاظ میں کرتے ہیں :

” و الحقیقۃ انہ احد ابطال العلم و شیوخ الاجتھاد و اساطین الفقہ و رجال الادب، فھو مجموعۃ نادرۃ المثال فی الفترۃ الاخیرۃ، فقد نبغ فی مختلف العلوم الاسلامیۃ من الفقہ و الاصول، و العقائد و الکلام، و التفسیر و الحدیث و الفلسفۃ و التاریخ، و الادب و الشعر و غیر ھا نبوغا . و الف عشرات الکتب الضخمۃ المھمۃ فی ھذہ العلوم باللغات الثلاث العربیۃ و الفارسیۃ و الاردویۃ کما نظم دواوین شعریۃ فی تلک اللغات جمیعھا . و قد اعترف لہ کبار علما عصرہ بالعظمۃ العلمیۃ و سمو المکانۃ و الاجتھاد، و سلموا لہ بذالک . و قد صار الکثیر من تلامذتہ مراجع و زعماء للدین بعد وفاتہ بسنین . و لجلالۃ قدرہ لقب ب(المفتی) و ظل ذالک لقبا للعلماء من اولادہ “ .[2]

تالیفات[ترمیم]

تفسیر

1. تفسیر سوره الرحمن (عربی)

2. تفسیر سوره قاف

3. انوار یوسفیہ تفسیر سوره یوسف

٤. حواشی القرآن



حدیث

1. ترجمۃ الاربعين شرح فارسی چہل حدیث

٢. سيف مسلول

3. نزع القوس من روضۃ الفردوس

٤. جواہر الکلام (اس میں کافی کی حدیثوں کا خلاصہ ہے)

٥. التقاط اللئالی من الامالی

٦. روح الایمان


علم الکلام

1. تفسیر عظیم الشان روائح القرآن

2. جواہر عبقریہ رد تحفہ اثنا عشریہ

٣. شعلہ جوالہ در بیان احراق مصاحف

٤. جواب منتہی الکلام (٥ جلد)

٥. آتش پارہ ترجمہ شعلہ جوالہ

٦. روح الجنان في مطاعن عثمان

7. دلیل قوی

٨. مقتل عثمان

9. تائید الاسلام( مسیحیوں کا جواب)

١٠. نصرة المومنین در رد یہودیت


شاعری[ترمیم]

مفتیؒ صاحب کو ادبیات اور شاعری سے فطری لگاو تھا۔یہ اصلی مناسبت ہی تھی کہ آپ نے شاعری کے مشکل ترین مقامات میں کامیابی سے قدم رکھا۔آپ نثر و نظم دونوں پہ کما حقہ قدرت رکھتے تھے۔ نمونے کے طور پر ایک غزل حاضر خدمت ہے جو مشہور ہندوستانی فارسی شاعر مرزا قتیل کی زمین میں ہے۔آپؒ "سید" تخلص فرما تے تھے


بی پرده شد به عمد و خطا را بهانه ساخت_

افکند خود نقاب و صبا را بهانه ساخت


دردا ز شوخ چشمئ قاتل که خون ما_

پامال کرد و رنگ حنا را بهانه ساخت


آمد شبی و دور ز بیمار غم نشست_

آهسته خواست مرگ و دعا را بهانه ساخت


برخاست با رقیب که تیمار من کند_

خون دلم چشید و دوا را بهانه ساخت


سید به دل نداشت شکایت ز جور تو_

او بهرِ گفت و گو، گله ها را بهانه ساخت

فارسی نثری نمونہ[ترمیم]

عربی، فارسی اور اردو شاعری کے ساتھ، آپ نثر نگاری میں بھی دخیل تھے۔صنعت غیر منقوطہ کی ایک نثر ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے مفتی صاحب کی علمی نبوغت و مہارت کا اندازہ ہوتا ہے


عالم مراسم عدل و داد، سالک مسالک صلاح و داد، مالک ممالک ولا و وداد، محرم اسرار کردگار، مرهم دل سوگوار، سردار اهل کرم، سرکرده اولوالهمم، ملا محمد اسلم سلّمه الله الاکرم، اهمّ مرام و ادل کلام حصول مهام امور

تفسیر روائح القرآن[ترمیم]

شیخ آقا بزرگ تہرانی نے اس کتاب کا تذکرہ اپنی مشہور کتاب الذريعۃ إلی تصانيف الشيعۃ میں کیا ہے ـ [3]

اس تفسیر کا پورا نام روائح القرآن فی فضائل امناء الرحمن ہے ـ یہ تفسیر عربی زبان میں ہے ـ

اس تفسیر میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت کی عظمت و فضیلت میں قرآن مجید کی 131 آیات پر اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں کے سہارے سے استدلالی بحث کی گئی ہے ـ

اس کتاب کی تالیف کا کام سنہ 1271ھ میں مکمل ہوا ـ

آپ نے اس کتاب کو بطور ہدیہ اس وقت کے عظیم شیعہ مجتہد شیخ مرتضی انصاری (صاحب کتاب رسائل و مکاسب) کے پاس نجف بھیجا تو انھوں نے اس کتاب کو بطور تعظیم اپنے سر پر رکھا اور اس کتاب کی بے حد تعریف کی ـ [4]

اس کتاب کی مدح میں عربی کا یہ شعر مشہور ہے :

ھذی صحيفۃ محض الدين و العمل

خطت بحب أمير المؤمنين علی

نور لكل زكی منصف فطن

نار لكل غوی ناصب جدلي [5]

وفات اور مدفن[ترمیم]

آپ کی وفات 26 رجب 1306ھ کو لکھنؤ میں واقع ہوئی اور حسینیہ آیت اللہ غفرانمآب میں آپ کو دفن کیا گیا ـ [6]

اولاد[ترمیم]

آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے دو بیٹوں کا تذکرہ کیا ہے : مفتی سید محمد علی شوشتری اور مفتی سید احمد علی شوشتری ـ [7]

مفتی سید محمد علی صاحب امامباڑہ غفران مآب، لکھنؤ میں مدفون ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے ایۃ اللہ سید طیب الجزائری اپنے زمانے کے جید عالم تھے۔

مفتی سید احمد علی صاحب جامعہ ناظمیہ، لکھنؤ میں مدفون ہیں۔ آپ کی اولاد میں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. أعيان الشيعۃ، ج: 7، صفحہ : 411
  2. نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، ج: 3، ص: 1010
  3. الذّريعۃ إلی تصانيف الشّيعۃ، ج: 11، صفحہ : 255
  4. تکملہ نجوم السماء
  5. الذّريعۃ إلی تصانيف الشّيعۃ (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 11 صفحہ : 255
  6. الإعلام بمن في تاريخ الھند من الأعلام (ابو الحسنات لکھنوی)، صفحہ: 1257
  7. نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، ج: 3، ص: 1012