اعتزاز احسن
اعتزاز احسن | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
وفاقی وزیر داخلہ [1] | |||||||
برسر عہدہ 4 دسمبر 1988 – 6 اگست 1990 |
|||||||
قائد ایوان بالا (پاکستان) | |||||||
برسر عہدہ 21 مارچ 1994 – 20 مارچ 1997 |
|||||||
قائد حزب اختلاف، ایوان بالا پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 21 مارچ 1997 – 12 اکتوبر 1999 |
|||||||
قائد ایوان بالا (پاکستان) | |||||||
برسر عہدہ 12 مارچ 2012 – 12 مارچ 2015 |
|||||||
| |||||||
قائد حزب اختلاف، ایوان بالا پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 12 مارچ 2015 – 11 مارچ 2018 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 27 ستمبر 1945ء (79 سال) مری |
||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ڈاوننگ کالج ایچی سن کالج سٹی لا کالج |
||||||
پیشہ | سیاست دان ، بیرسٹر | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
درستی - ترمیم |
چودھری اعتزاز احسن پاکستان کے نامور وکیل اور سیاستدان بیرسٹر ان لا چودھری اعتزاز احسن 27 ستمبر 1945ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ایچی سن کالج لاہور اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ بعد ازاں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ چلے گئے۔ کیمبرج سے واپسی پر اعتزاز احسن نے سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت کی۔ انھوں نے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف شدید تنقید کی۔ پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے اور واحد طالب علم تھے جنھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود ملازمت حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ کسی فوجی حکومت میں ملازمت نہیں کر سکتے ۔
سیاست
[ترمیم]انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 70 کی دہائی میں اس وقت کیا جب گجرات سے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی چودھری انور سماں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ مارچ 1975 کی بات ہے۔ ان کی نشست پر چودھری اعتزاز احسن بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ انھیں صوبائی کابینہ میں اطلاعات اور منصوبہ بندی اور ترقی ملی۔
1977 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی تو لاہور میں وکلا کی ایک ریلی پر پولیس فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا تو اعتزاز احسن نے احتجاجاً وزارت سے استعفی دے دیا۔ نتیجتاً پیپلز پارٹی کی قیادت نے انھیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی سے نکال دیا۔
جنرل ضیا الحق نے ایوان اقتدار پر قبضہ کیا تو اعتزاز احسن تحریک بحالی جمہوریت کے سرگرم رکن بن گئے۔ انھوں نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران متعدد بار گرفتار ہوئے۔ انھیں سیاسی قیدی قرار دے کر بغیر کوئی مقدمہ چلائے جیل میں رکھا۔1988 میں اعتزاز احسن لاہور سے پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990ء میں وہ ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم 1993 کے انتخابات میں انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں مختلف اوقات میں داخلہ، قانون و انصاف، نارکوٹکس کنٹرول، تعلیم کے وزیر رہے۔ 1994 میں وہ پاکستانی سینٹ کے رکن بنے۔ انھیں قائد ایوان منتخب کیا گیا۔ 1996 سے 1997 تک وہ قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز رہے۔ 2002ء کے انتخابات میں پیپلز کے ٹکٹ پر لاہور اور بہاولپور کے علاقہ یزمان میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے جیت گئے۔
وکالت
[ترمیم]وہ سریم کورٹ کے سیئیر وکیل ہیں انھوں نے دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مقدمات لڑے۔ جمہوریت کے لیے خدمات کی بنیاد پر انھیں پاکستان کے تمام جمہوریت پسند طبقات میں غیر معمولی قدر و منزلت حاصل ہے۔ 9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف کی صورت میں پاکستان کی فوجی ڈکٹیٹر شپ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کیا تو اعتزاز احسن نے اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ مسٹر جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اعتزاز احسن کے دلائل نے اپنا آپ منوا لیا اور معزز عدالت نے پرویز مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس کو بحال کر دیا۔
- تفصیلی مضمون فوجی تاخت 2007ء
3 نومبر 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف کے "ہنگامی حالت" کے اعلان کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران انھیں قید تنہائی اور بدترین تشدد سے گزارا گیا۔[حوالہ درکار] نتیجتاً امریکی سینٹ کے 33 ارکان نے جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا اور اعتزاز احسن کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں پوری دنیا میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بعد میں گھر پر نظربند کر دیا۔ عید کے موقع پر تین دن کے لیے رہائی ملی، مگر اس مدت میں دوبارہ اسلام آباد جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔[2] کہا جاتا ہے کہ حراست کے کے دوران حکومت کی طرف سے انھیں پیش کش کی گئی کہ ججز کی بحالی کی تحریک سے الگ ہو جائیں تو انھیں رہا کیا جا سکتا ہے تاہم انھوں نے اس پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔[حوالہ درکار] 31 جنوری 2008ء کو آپ نظربندی توڑ کر باہر آ گئے جس کے بعد ان کے نظربندی کے احکامات واپس لے لیے گئے۔[3] مگر پھر دوبارہ نظربند کر دیا گیا۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد آپ کا نام پیپلز پارٹی کی سربراہی کے لیے بہت سے حلقوں نے تجویز کیا مگر قیادت بینظیر کے بیٹے اور خاوند کو منتقل کر دی گئی۔[4]
2008ء کے عام انتخابات میں انھوں نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بعد ازاں انھوں نے وکلا کے قومی کنویشن کی طرف سے انتخابی بائیکاٹ کے فیصلے کے بعد اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ وکلا کا موقف تھا کہ مشرف کے زیر سایہ انتخابات جائز نہیں۔
اعتزاز احسن ہمہ پہلو شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ سیاست دان کے علاوہ انسانی حقوق کے علمبردار بھی ہیں۔ وہ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اور نائب صدر ہیں۔ متعدد عالمی اداروں نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ وہ اکتوبر 2008 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے ۔
مصنف
[ترمیم]اعتزاز احسن مصنف بھی ہیں۔ ان کی کتاب ’’سندھ ساگر اور قیام پاکستان‘‘ پہلے انگریزی اور پھر اردو میں شائع ہوئی۔ اسی طرح وہ ’’ڈیوائیڈڈ بائی ڈیموکریسی ‘‘ میں لارڈ میگھنڈ ڈیسائی کے ساتھ شریک مصنف ہیں۔
الزمات
[ترمیم]جنوری 2009ء میں مائع گیس کے کاروبار میں مال بنانے والوں کی فہرست جاری ہوئی جس میں اعتزاز حسن کا نام بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ خالصتان تحریک جو ہندوستان میں سکھوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑی اسے کچلنے کے لیے اعتزاز حسن نے بے نظیربھٹو کے ہمراہ اہم کردار ادا کیا اور سکھ رہنماؤں کی لسٹ بے نظیرکے کہنے پرراجیو گاندھی کو دی جس کے بعد آپریشن کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیا گیا-[5]
کتب
[ترمیم]بیرونی روابط
[ترمیم]
مدونات
[ترمیم]- جنگ، 26 اگست 2008ء،[مردہ ربط] "اعتزاز احسن اور زرداری صاحب کی امیدواری۔...حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی"
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ بنام: Aitzaz Ahsan — اخذ شدہ بتاریخ: 25 اپریل 2022
- ↑ روزنامہ ڈان، 24 دسمبر 2007ء، "Aitzaz in high fever after Eid day ordeal"
- ↑ روزنامہ نیشن، 31 جنوری 2008ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "'Yes, I am free now': Detention orders withdrawn after Aitzaz breaks siege"
- ↑ روزنامہ نیشن، 3 جنوری 2008ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Workers want Aitzaz to lead PPP"
- ↑
روزنامہ ڈان۔ 7 جنوری 2010ء مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت) - ↑ http://jumhooripublications.com/sindh-sagar-aur-qayyam-e-pakistan/
- 1945ء کی پیدائشیں
- 27 ستمبر کی پیدائشیں
- اکیسویں صدی کے پاکستانی سیاست دان
- بقید حیات شخصیات
- پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاست دان
- پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین قومی اسمبلی
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 1988ء تا 1990ء
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 1990ء تا 1993ء
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 2002ء تا 2007ء
- پاکستانی زیر حراست اور قیدی شخصیات
- پاکستانی سیاست دان
- پاکستانی سینیٹر (14واں پارلیمنٹ)
- پاکستانی قانون
- پاکستانی مارکسٹس
- پاکستانی وکلا
- پنجاب کے صوبائی وزرا
- پنجابی شخصیات
- جمہوریت کے پاکستانی فعالیت پسند
- فضلا ایچیسن کالج
- فضلا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
- قائدین ایوان بالا (پاکستان)
- مری کی شخصیات
- وزرائے داخلہ پاکستان
- وفاقی وزرائے پاکستان
- ڈاوننگ کالج، کیمبرج کے فضلا
- لاہوری شخصیات
- سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدور
- پاکستانی بیرسٹر