میدھا پاٹکر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میدھا پاٹکر
میدھا پاٹکر 2002ء میں

معلومات شخصیت
پیدائش (1954-12-01) 1 دسمبر 1954 (عمر 69 برس)
ممبئی
شہریت بھارت [1]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام میدھا تائی
جماعت عام آدمی پارٹی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تعليم سماجی کام میں ایم اے
مادر علمی ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل سائنسیز
پیشہ سماجی کارکن ،  ماہر ماحولیات ،  سیاست دان [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تنظیم نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹز (این اے پی ایم)
تحریک نرمدا بچاؤ آندولن
اعزازات
رائٹ لائیولی ہُوڈ ایوارڈ

میدھا پاٹکر (پیدائش: یکم دسمبر، 1954ء) ایک بھارتی سماجی کارکن ہیں جو مختلف سیاسی اور معاشی معاملات پر کام کر رہی ہیں جو قبائل، دلت، کسان، مزدور اور خواتین کی جانب سے اٹھائے جا رہے ہیں جو ناانصافی کا شکار ہیں۔ وہ تین دہوں سے زیادہ عرصے پر محیط تین ریاستوں کی تحریک کی بانی ہیں: مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور گجرات -- نرمدا بچاؤ آندولن۔ یہ تحریک ان لوگوں کے مطالبوں کو آواز دے رہی ہے جو ڈیم منصوبوں سے بے گھر ہو گئے ہیں، اس طرح سے ترقی کے نظریے کو کھوکلا بتا رہی ہیں۔ متصلاً وہ بازتعمیری اور تعلیمی سرگرمیوں سے بھی جڑی ہیں۔ وہ نیشنل الانئنس آف پیپلز موومنٹز (این اے پی ایم) کے بانیوں میں سے ہیں، جو سینکڑوں ترقی پسند عوامی تنظیموں کا اتحاد ہے۔[2] وہ ڈیموں کے عالمی کمیشن (World Commission on Dams) کی کمیشنر بھی رہ چکی ہیں جو ماحولیاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی امور اور عالمی سطح پر بڑے ڈیموں کی تعمیروترقی کے اثرات کا جائزہ لے چکا ہے اور متبادلات پر بحث کر چکا ہے۔[3] وہ این اے پی ایم کی قومی کوآرڈینیٹر اور پھر کنوینر بھی رہ چکی ہے، جبکہ اب وہ اس کی مشیر ہے۔ اسی این اے پی ایم کے پرچم تلے وہ مختلف ملکی جد و جہدوں میں حصہ لے چکی ہیں جو نابرابری، ماحولیاتی بگاڑ، بے گھر ہونا اور ترقی کے نام پر ناانصافی پر مرکوز تھے۔ وہ ذات پات، فرقہ پرستی اور ہر قسم کے امتیازات کے خلاف ہیں۔ وہ ان ٹیموں کا حصہ بنی جو قومی پالیسیوں کو شروع کرنے اور آگے بڑھانے، نیز قانون بنانے کوشاں تھے کہ زمین کا حصول، غیر منظم شعبے کے مزدور، سڑک فروش، جھگی جھوپڑیوں کے قیام پزیر لوگ، جنگل کے آدی واسیوں کا تحفظ ہو سکے۔ این اے پی ایم نے کئی مفاد عامہ کے مقدمات دائر کر چکی ہیں، جن میں آدرش سوسائٹی، لواسا میگاسٹی، ہیرانندانی اور کئی بِلڈر شامل تھے۔ نرمدا بچاؤ آندولن اور گھر بچاؤ گھر بناؤ آندولن میدھا اور این اے پی ایم کے دیگر اتحادیوں کی شروع کردہ ہیں۔

سرگرمیاں[ترمیم]

نرمدا بچاؤ آندولن[ترمیم]

میدھا پاٹکر 2011ء میں
میدھا پاٹکر 2011ء میں

نرمدا بچاؤ آندولن ایک سماجی تحریک ہے جس کا آغاز 1985ء میں شروع ہوا اور جس میں آدی واسی، کسان، مچھوارے، مزدور اور دیگر لوگ جو نرمدا وادی میں ہیں اور دانشور بہ شمول ماہرین ماحولیات، انسانی حقوق کے کارکن، سائنس دان، مدرسین، فنکار جو منصفانہ اور پائیدار ترقی کے حامی تھے، شامل ہوئے۔ گجرات کا سردار سروور ڈیم نرمدا پر سب سے بڑا ڈیم ہے جہاں عوامی عدم تشدد جد و جہد سماجی اور ماحولیاتی لاگتوں، غیر جمہوری منصوبہ بندی اور غیر منصفانہ فوائد کی تقسیم پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ سردار سروور سے متاثرہ علاقوں میں جد و جہد اب بھی جاری ہے اور وسیع و اوسط نرمدا کی ڈیموں اور ذیلی ندیوں کا بھی یہی حال ہے۔ اس کی وجہ سے منصوبے سے متاثر خاندانوں کا بازآبادکاری کی زمینات کا حصول ممکن ہو سکا ہے اور سردار سروور ڈیم سے بے گھر ہوئے 40,000 خاندان آج بھی بغیر بازآبادکاری کی زندگی جی رہے ہیں۔ اس ڈیم سے متعلق کئی دعوے اور معاشی، سماجی اور ماحولیاتی تنقیدیں جدید طور پر سچ ثابت ہو چکے ہیں۔

یہ آندولن 1992ء سے جیون شالائیں (مدارس زندگی) چلا رہا ہے جن سے 5000 طلبہ فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایتھلیٹیکس میں زیر تربیت ہیں اور کچھ کئی انعامات بھی جیت چکے ہیں۔ آندولن نے کامیابی سے دو خُرد برقابی منصوبوں کو قائم کر چکا ہے اور چلا بھی چکا ہے کو سردار سروور ڈیم میں غرقاب ہو چکے ہیں۔ وہ پچھلے تین دہوں سے زیادہ عرصے سے کئی شعبوں میں زیر عمل ہے، جن میں صحت، ملازمت کو یقینی بنانا، غذا کا حق، بازآباد کاری، ماحولیاتی تحفظ اور عوامی تقسیم کا نظام شامل ہیں۔

میدھا پاٹکر مارچ 2012ء میں

نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹز[ترمیم]

نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹز (این اے پی ایم) بھارت کی عوامی تحریکوں کا اتحاد ہے، جس کا مقصد سماجی و معاشی انصاف، سیاسی انصاف اور برابری کے معاملات کے لیے جد و جہد کرنا ہے۔[4] میدھا پاٹکر نے این اے پی ایم کا قیام بھارت کی عوامی تحریکوں میں اتحاد قائم کرنے اور تقویت پہنچانے، ظلم کا مقابلہ کرنے، موجودہ ترقیاتی نمونے پر مزید سوال کرنے تاکہ منصفانہ متبادل رونما ہو سکے، جیسے مقاصد کے لیے کیا۔ وہ این اے پی ایم کی قومی کنوینر رہی ہیں۔[5]

گھر بچاؤ گھر بناؤ آندولن[ترمیم]

یہ ممبئی میں گھروں کے تحفظ کی ایک جد و جہد ہے۔ اس کا آغاز 2005ء سے ہوا ہے اور یہ جھگی جھونپڑیوں کے مکینوں کے حقوق اور ان لوگوں کے لیے نبرد آزما ہیں جو مختلف باز آبادکاری اور بازترقیاتی منصوبوں میں بِلڈروں سے دھوکا خوردہ ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب حکومت مہاراشٹر غریبوں کے 75,000 گھروں کو 2005ء میں منہدم کر دیتی ہے، جو اس کی انتخابی وعدوں سے انحراف تھا۔ عوام کی مضبوط تحریک میدھا پاٹکر اور دیگر لوگوں کی جانب سے قائم ہوتی ہے جب وہ مذکورہ بالا نعرہ آزاد میدان ممبئی میں ایک عوامی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے لگاتی ہے۔ یہ عوامی رد عمل ہی تھا کہ برادریوں کو انہی اراضی پر بازآباد کیا گیا اور حق رہائش، پانی، بجلی، موری اور روزگار کو تسلیم کیا گیا۔

ڈیموں کا عالمی کمیشن (World Commission on Dams)[ترمیم]

میدھا پاٹکر ڈیموں کے عالمی کمیشن کی کمیشنر رہ چکی ہیں۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے واضح کر دیا تھا کہ بھارت ترقیاتی وعدہ کو پورا کرنے میں ناکام ہے مگر ان تجویز کردہ ڈیموں سے بے شمار لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔[6]

ٹاٹا نانو پلانٹ سینگور[ترمیم]

ٹاٹا موٹرز کی جانب سے ایک فیکٹری کی تعمیر شروع کی گئی تاکہ ان کی $2,500 ڈالر کی لاگت کی کار ٹاٹا نانو سِینگور میں بنائی جا سکے۔[7] میدھا نے اس کے مغربی بنگال میں قیام کی مخالفت کی۔ ان کے قافلے پر حملہ کیا گیا، مبینہ طور پر بھارتیہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کارکنوں کی جانب سے کپاسیبیریہ کے مقام پر جو مشرقی مڈناپور ضلع میں جب وہ جھگڑوں میں گھرے نندیگرام کے دورے پر جا رہی تھیں۔[8] احتجاج کے عروج پر رتن ٹاٹا نے تبصرے کیے جن میں سوال یہ تھا کہ احتجاجیوں کے چندوں کے مآخذ کیا ہیں؟ [9] اکتوبر 2008ء میں ٹاٹا نے اعلان کیا کہ فیکٹری کی تعمیر مکمل نہیں ہو گی اور نانو کی فیکٹر سنند، گجرات میں قائم ہوگی۔

نندی گرام، مغربی بنگال میں زبردستی زمین کے عطیوں کی مزاحمت (2007ء)[ترمیم]

میدھا نے کئی حمایتی اقدامات کا حصہ رہی جن میں کولکاتا میں دیوالی کے موقع پر اُپواس، بھیڑوں کو یکجا کرنا، کئی قومی فورموں میں شکایات اور دانشوروں اور ملک بھر میں مختلف شہریوں کی حمایت حاصل کرنا۔ آخر کار جد و جہد مقامی عوام کے حق میں کامیاب ہوئی جنہیں بڑی تعداد میں ریاستی تشدد کے دوران اپنی جانیں گنوانی پڑی۔

لواسا[ترمیم]

لواسا مہاراشٹر میں ہندوستان کنسٹرکشن کارپوریشن کا ایک منصوبہ ہے۔ یہ ایک تکمیل شدنی شہر ہے۔ لواسا منصوبہ پی سائی ناتھ کی جانب سے زیر تنقید ہوا ہے کیونکہ اس کے لیے پانی کا غیر منصفانہ استعمال ایک ایسی ریاست میں کیا گیا ہے جہاں کسانوں کی بدترین خودکشیاں ہوئی ہیں۔[10] میدھا نے لواسا کے دیہاتیوں کے ساتھ ناگپور کے ماحولیاتی نقصان پر احتجاج کیا۔[11] انھوں نے اس منصوبے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کا مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

گولی بار انہدام[ترمیم]

2 اور 3 اپریل 2013ء کو ممبئی کے گولی بار علاقے میں ایک انہدامی کارروائی ہوئی جس میں 43 گھر خالی کیے گئے اور 200 لوگ بے گھر ہوئے۔ اس پورے منصوبے کا مقصد ان ہزاروں خاندانوں کو اپنی جگہ سے ہٹانا ہے جو 50–100 سال پرانی رہائشوں پر قابض ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں وہ وہیں رہیں اور انھیں شراکتی رہائشی حق دیا جائے۔ میدھا 500 سے زائد جھگی جھوپڑیوں والوں کے ساتھ غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی تاکہ مزید انہدام کو معاملے کی تحقیق تک روکا جا سکے۔[12] میدھا نے یہ الزام عائد کیا کہ جھگی جھوپڑیوں کی بازآبادکاری اسکیم کی آڑمیں بِلڈروں کی رشوت اور ظلم وستم کا سلسلہ رہا ہے اور مطالبہ کیا کہ سلم ڈویلرز ریہابی لیٹیشن اتھاریٹی چھ منصوبوں کو روک دے، جب تک کہ قاعدے کی تحقیق نہ کی جائے۔ تحقیقات سے جزوی حل تلاش کیا گیا، جس کے بعد سے مکین اپنی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔[13]

شکر کے کو آپریٹیوز بچانے کا مشن[ترمیم]

مہاراشٹر کے شکر کے کو آپریٹیوز کو سیاست دانوں، جن میں بیسیوں مہاراشٹرائی کابینی وزراء بھی شامل ہیں، 2014ء تک میدھا نے احتجاجوں کو منطم کیا۔ انھوں نے توضیح کی کہ "سیاست دانوں کو کلیدی زمین کے ٹکڑوں، قدیم آلات اور مشینری سے دلچسپی ہوتی ہے"۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ریاستی حکومت صتعتی اثاثہ جات حقیر قیمتوں پر فروخت کر رہی ہے۔ مالیگاؤں، ناسیک کی گیرنا شکر فیکٹر کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے اور چھگن بھوجبل کے خاندان پر ایک مقدمہ بھارت کے سپریم کورٹ میں زیردوران ہے۔ فیکٹری کی غیر مستعملہ زمین مقامی کسانوں کے دوبارہ قبضے میں ہے اور اس پر کاشت کاری جاری ہے۔ یہ کسان کوآپریٹیو کے عطیہ کنندگان ہیں جو سابق وزیر کی جانب سے گری ہوئی قیمتوں میں خرید کر نجی ملکیت میں گری ہوئی قیمتوں پر دے چکے ہیں۔[14]

ہیرانندنی زمین کا اسکام[ترمیم]

میدھا پاٹکر اور دیگر کچھ کارکنوں نے ممبئی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کا مقدمہ زمینات کی تجارتی دنیا میں مشہور شخصیت نِرنجن ہیرانندنی پر قابل ادا گھروں کی تعمیر کی بجائے رئیسانہ عمارتیں بناکر خلاف ورزی کرنے کا لگایا۔ ہیرانندنی نے 230 ایکڑ زمین کے لیے 1986ء میں لیز پر دستخط کی، جس کی شرح فی ہیکٹیر ایک روپیہ تھی۔ یہ سہ رخی معاہدہ تھا جس میں ممبئی میٹروپالیٹن علاقائی ترقی اتھاریٹی اور ریاست بھی شامل تھی۔[15] مفاد عامہ کا جواب دیتے ہوئے مہاراشٹر ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ ہم تعمیرات کی کشش اورممبئی شہر کے لیے تعمیری معجزہ بنانے کے ارادے کی تعریف کرتے ہیں، مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کلیۃً سب سے اہم اور شاید واحد سہ رخی معاہدہ کی شرظ کو نظر انداز کرنا یہاں دیکھ رہے ہیں (یہ کہ قابل ادا گھر بنائے جائیں جو 40 سے 80 مربع میٹر پر محیط ہونا)۔[16] اگر حساب لگایا جائے تو موجودہ بازار کی قیمت کے حساب سے اسکام کی لاگت 450 بلین تھی۔[17] 2012ء کے فیصلے میں ہیرانندنی پر حکم عائد ہوا کہ وہ 3,144 گھر کم تنخواہ زمروں کے لیے ہیرانندنی باغات سے پہلے بنائے جو زیر غور تھے۔ یہ مقدمہ ممبئی ہائی کورٹ میں آخری سماعت کے مرحلے سے گذر رہا ہے۔

کوواڈا نیوکلیائی منصوبہ[ترمیم]

میدھا پاٹکر رائٹ لائیولی ہُوڈ ایوارڈ فاؤنڈیشن کے ساتھ

میدھا پاٹکر آندھرا پردیش کے سریکاکُلم ضلع کے راناستھلم منڈل کے کوواڈا علاقے میں زمین کے حصول کی سخت مخالفت کی کہ مجوزہ نیوکلیائی پلانٹ ماحولیات اور علاقے کے لوگوں کے لیے آفت بن سکتا ہے۔[18]

سیاسی کیریئر[ترمیم]

جنوری 2014ء میں میدھا پاٹکر عام آدمی پارٹی (عآپ) میں شامل ہوئی۔ وہ اور ان کی تنظیم نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹز نے عآپ کو لوک سبھا انتخابات کے دوران تائید فراہم کی۔[19]

میدھا نے 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں شمال مشرقی ممبئی سے عآپ کے امیدوار کے طور پر لڑیں۔[20] وہ صرف 8.9% جُٹا پائیں اور ہار گئی۔[21] جبکہ کیریت سوماجیا (بی جے پی امیدوار، فاتح) سرفہرست رہے اور سنجے پاٹل (این سی پی دوسرے نمبر پر رہے۔[22] وہ عآپ کی ابتدائی رکنیت سے 28 مارچ، 2015ء کو استعفا دے چکی ہیں۔[23]

انعامات و اعزازات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ https://eci.gov.in/files/category/97-general-election-2014/
  2. "National Alliance of People's Movement Website"۔ 22 ستمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2017 
  3. "Final report of World commission on dams" (PDF)۔ United Nations Environment Programme۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2017 
  4. "Website National Alliance for People's Movement"۔ NAPM۔ 30 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  5. "National Conveners Team National Alliance of People's Movements"۔ National Alliance of People's Movements۔ 04 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  6. "Damn the Dams: An Interview with Medha Patkar | Alternet"۔ 24 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2018 
  7. The Hindu Business Line, 26 November 2006 آرکائیو شدہ 5 جون 2009 بذریعہ وے بیک مشین
  8. "Medha Patkar's convoy attacked"۔ NDTV۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  9. "Tata has some values: Medha Patkar"۔ DNA۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2008 
  10. "How the other half dries"۔ The Hindu۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  11. "Lavasa battles to get environmental clearance"۔ CNN IBN۔ 22 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  12. "Medha Patkar enters Day 8 of indefinite fast"۔ Hindustan Times۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  13. "Aruna Roy seeks Sonia's help to end Medha Patkar's fast"۔ The Times of India۔ 31 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  14. "Medha Patkar, Anna Hazare on sugar co-operative save mission"۔ CNN IBN۔ 22 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  15. "Efforts to bury the Rs 45,000 crore Hiranandani land scam in Powai, Mumbai?"۔ Money Life۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2014 
  16. Shibu Thomas (23 February 2012)۔ "Hiranandani can't build in Powai sans HC okay"۔ The Times of India۔ Mumbai, India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2014 
  17. "Case against builder Hiranandani, senior bureaucrat, others for Rs. 30,000-crore land scam"۔ The Hindu۔ 6 July 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2014 
  18. "Medha Patkar cries halt to Kovvada nuclear project"۔ The Hindu۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  19. Patkar extends support to AAP Indian Express, 14 January 2014
  20. "AAP to field Medha Patkar, Anjali Damania for Lok Sabha polls; releases first list of 20 candidates"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2014 
  21. Arvind Kejriwal’s AAP needs a future plan; fatigue sets in for party’s small-time drama The Economic Times
  22. Maharashtra – Mumbai North East, Results Declared آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ eciresults.ap.nic.in (Error: unknown archive URL) Election Commission of India, 2014
  23. [1] Ndtv, 2015
  24. "Laureates 1991-Medha Patkar & Baba Amte / Narmada Bachao Andolan"۔ 13 نومبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  25. Aditi Malhotra۔ "A Guide to Aam Aadmi Party's National Candidates"۔ Wall Street Journal۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2014 
  26. "Medha Patkar selected for 1999 M.A. Thomas National Human Rights Award"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  27. "Quicktakes Indian Express"۔ The Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2014 
  28. "Medha Patkar – The People's Protestor"۔ Tehelka Magazine۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2017 
  29. "Mother Teresa Memorial International Award for Social Justice held on Sunday"۔ dna۔ Diligent Media Corporation Ltd.۔ 11 November 2014۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2014